اب جب شرارتیں رقم کرنے کا سلسلہ چل ہی نکلا ہے تو سوچتا ہوں بپن کی دو اور شرارتیں رقم کر کے ہی نانا کے صحن میں واپس لوٹوں۔بچپن کی ایک تیسری شرارت جو چونیاں ہوتے اپنے رشتہ کے دوسرے نانا بابا امداد کے گھر پتلی تماشہ چلتے کی وہ کچھ یوں ہے کہ بابا جی کے گھر پتلی تماشہ چل رہا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں کی بجائے، پنجاب کے گلی محلوں میں پُتلی تماشوں کی روایت زندہ تھی اور پنجاب بنیاد پرست نہیں بنا تھا۔ ہمارے گھر کیساتھ ماموں جی حاجی سردار خان مرحوم کا گھر تھا (اللہ تعالی انکے درجات بلند کرے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے)۔ انکے ساتھ ہماری خاندانی مراسم تھے۔آپ نانا جی کے بیٹے ، آپکی مسسز یعنی ہماری ممانی والدہ کی دوست تھیں اورآپ والدہ کے بھائی بنے ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنی آخری عمر رائیونڈ کے تبلیغی مشن میں گزاری ۔ نانا جی کیطرح آپ بھی نہایت عبادت گزار انسان تھے۔جب والدہ کی وفات ہوئی تو کہنے لگے کہ میں نے اپنی بہن کے لیے دعا کروانی ہے سب لوگ میرے پیچھے دعا کریں اور پھر پورا آدھا گھنٹہ خاص مولانا طارق جمیل صاحب کے تبلیغی انداز میں دعا فرمائی اور اسکے بعد ہم چاروں بھائیوں کو بتایا کہ ’’ جس پلاٹ پر میرا گھر ہے یہ میری بہن نے ہی مجھے اسوقت لیکر دیا تھا کہ بھائی آپ یہاں چونیاں آ جائیں یہاں بچوں کے سکول اچھے ہیں ۔انھوں نے بتایا کہ پہلے پلاٹ کے بعد پھر دوسرا ساتھ والا پلاٹ انھوں نے خود خریدا۔ ہمارے لیے ان میں اور سگے رشتہ داروں میں کوئی فرق نہ تھا۔ ابھی جب عام انتخابات کے دنوں میں انکا انقایل ہوا تو انکا بڑا بیٹا، ہمارا دوست اور بھائی طارق سردار جو ایک عرصہ سے ملک سے باہر ہے واپس آیا تو اُسنے بتایا کہ یہی بات انکے والدنے انھیں بھی بتا ئی تھی۔بلا شبہ یہ شعور ، دُور اندیشی اور سیانے پن کی بڑی مثال ہے، کہ وہ اپنے دو نسلوں سے چلے رشتے کو اگلی نسلوں تک منتقل کر گئے۔ یہاں یہ لکھنا بھی فضول ہی ہوگا کہ ایک شیعہ اور ایک دیوبند۔ ایک بار محلے کی مسجد کے امام مسجد کے اما مسجد نے شیعوں کے بارے غلط کہہ دیا تو انھوں نے اسے کالر سے پکڑ کر نکال دیا کہ تو ہمارا نسلس در نسل چلتا بھائی چارہ اور رشتے خراب کرنے آیا ہے کیا اور یہی کچھ ہمارے گاؤں میں باوجود شیعہ اکثریتی گاؤں ہونے کے نانا جی اور ماموں ایسے متنازہ مولویوں اور زاکروں کیساتھ کیا کرتے تھے کہ جب کوئی قابل اعتراض بات مجلس میں کہتا تو اسے اسی وقت واپسی کا کرایہ دیکر فارغ کر دیا جاتا۔ فرقہ واریت یا برادری ازم کا فالتوں خیال کبھی ان عظیم بزرگوں یا انکے بعد ہم بچوں کے تعلق کے درمیان نہیں آیا۔آپ نہ صرف دیوبند سنی عقیدہ سے تھے بلکہ میو راجپوت بھی تھے۔ نہ مسلک سانجھے تھے نہ زات برادری مگر اسکے باوجوخون کے رشتوں سے بڑھ کر آپسی احترام پایا جاتا تھا۔ ابھی جب ماموں جی سردار خان کی فاتحہ خوانی کے لیے میں اپنے بڑے بھائی کو انکے گھر لیکر گیا تو خالہ جی جو عرصہ سے چونیاں سے لاہور اپنے بیٹے کے پاس شفٹ ہو چکی ہیں انھوں نے نام سنتے ہیں بچوں سے کہا کہ مجھے روکی سے ملواؤ۔ پھر وہ آئیں اور ہم دونوں بھائیوں کے سر پرپیار دیا اور امی کو یاد کرتی رہیں۔ یہ ہے وہ پنجاب کی معاشرت جو ہم نے اپنے بچپن میں دیکھی اور جسکو ابھی تک ہم ساتھ لیکر چل رہے ہیں۔
تو جناب ہر بات کی سوبات، ہزار تفصیل اور تشیرح موجود ،مگر وہ تیسری شرارت کچھ اس طرح ہے کہ ماموں جی سردار خان نے اپنے گاؤں کے ایک عزیز بھائی سعید عرف سیدو کو سپورٹ کرنے کے لیے گلی والی سائڈ پر ایک پرچون کی دکان کھلوا رکھی تھی۔ یہ شبِ برات کے دن تھے اور ان دنوں شرلی پٹاخوں پر کسی قسم کی پابندی نہ ہوتی تھی۔ اس وقت کی شبِ برات جسے ہم’’ شبرات‘‘ کہا کرتے تھے دیوالی کا اصل متبادل تھا جوبرصغیر کے مسلمانوں نے ہندو دیوالی کے کلرفل تہوار کے مقابل ڈھونڈ رکھا تھا۔ کئی قسم کے شرلی پٹاخے اور لکڑی کی گولی والے سلور رنگ کے پستول ہوا کرتے تھے جن میں پٹاس بھری لکڑی کی گولیاں کبھی ٹھونکتے ٹھونتےک ہی پھٹ جاتی تھیں۔ میری تو اس پستول میں جان ہوا کرتی تھی۔ اسکے علاوہ چھوٹے جہاز انار اور سیبے (رسیوں)والے بم بھی ہوتے تھے جو بیاہ شادی پر بھی شرلیوں (ہوائی)کیساتھ چلائے جاتے تھے۔ میں بھائی سیدو کا مستقل گاہک تھا اور اس سے لکڑی کی گولیاں لینے آیا تھا۔ بتا تا چلوں کہ بھائی سیدو بھی ہم لوگوں سے چند سال ہی بڑا رہا ہوگا ۔ تو جب میں نے اس سے لکڑی کی گولیاں مانگیں تو کہنے لگا اگر یہ شرلی سامنے بابے کے گھر میں چلتے پتلی تماشے پر پھینکو تو میں تمھیں مانوں گا کہ تم کتنے دلیر ہو۔ بس پھوک دلانے اور چیلینج کی دیر تھی اور میں نے ٹھان لی۔ میں نے سودا کیا کہ شرلیاں تم مفتی دو گے اور پھینکوں گا میں۔ ڈیل طے ہوئی اور عین ناٹک کے دوران دیوار کیساتھ جس چھوٹے سے تمبو میں وہ پپٹ تھیٹر چل رہا تھا اس پر میں نے گلی سے تیلی لگا کر شرلی پھینک دی۔ نانا جی امداد کا گھر اورماموں جی سردار خان کا گھر بالکل آمنے سامنے ہیں اور درمیان میں ایک گلی ہے۔جب شرلی تنبو پر پھنکی اور تمبو نے آگ پکڑی تو وہ بیچارے نوٹنکی والی چیخنے لگے محلے داروں کی انجوائمنٹ بھگدڑ میں تبدیل ہوگئی۔ اور اس بار بھی میں خود کوچھپانے میں ناکام رہا۔ کسی نے فوراً ہی دیوار پر چڑھ کر دیکھ لیا تھا۔ خیر یہ والے نانا جی اتنے باؤ جی کیطرح زیادہ جلالی یا غصے والے نہیں تھے ۔البتہ پتلی تماشہ والے غریب آدمی کے نقصان کا آج بھی دُکھ ہے جو بچپنےمیں ہوا۔زندگی میں کبھی اس سے یا اُسکی آل اولاد سے سامنہ ہوا تو اُسکے پیسے ضرور ادا کروں گا۔
ایک چوتھی معروف شرارت جو ماموں سردار خان کے گھر سے ہی جڑی ہے یہ کچھ اسطرح تھی کہ ہم دو تین کزنز مل کرسردیوں کی رات کو نانا جی امداد کی چھت پر چڑھ گئے اور ہم نے یہ شرارت بھائی سیدو کو تنگ کرنے یا سمجھ لو کہ پُتلی تماشے کو آگ لگانے کےمشورے کے جواب میں کی تھی۔ پلاننگ کچھ اسطرح تھی کہ ماموں جی سردار خان کے گھر کے دروازے پر نانا جی کی چھت سے روڑے اس طریقے سے مارے جائیں کہ جیسے درواز کھٹکھٹایا جا رہا ہو۔ اندر سے ان کا بھی ڈر تھا کہ کہیں باہر نکل کر پکڑ نہ لیں یا بھاگتے ہوئے دیکھ نہ لیں۔خیر نشانے اچھے تھے سٹریٹیجی بھی کام کر رہی تھی۔ آدھی رات کو جب روڑے ختم ہوئے توچھت سے نانا جی کے پرانے جوتے پھینک مارے۔ وہ سب بیچارے ساری رات پریشان رہے کہ کوئی چور ہے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب ہمارے محلے میں بہت تھوڑے گھر تھے اور گیدڑوں کا غول عین ہمارے گھر کے سامنے آکر آدھی رات کو اونچی اونچی آوازیں نکالتا تھا۔ ویرانہ تھا، ہماری جگہ وہاں کوئی بھی چور ڈاکو ہوسکتا تھا جو گھر کے مرد کو باہر بلا کر وار کرنا چاہتا ہو۔ماموں جی سردار خان سیانے آدمی تھے، پہلے تو اونچی آوز میں پوچھتے رہے کون ہے بھائی، پھر جب جواب نہ آیا اور حرکت جاری رہی تواندر سے گولی مارنے کی دھمکیاں دینے لگے۔ گولی کا سن کر ہم سارے بھاگ کر چھت سے اترے اور نانا جی کی دیوار پھلانگتے اپنے اپنے گھروں میں آ کر سو گئے۔ اگلی صبح اُٹھے تو پتہ چلا کہ ماموں سردار خان اور نانا جی امداد آپس میں گفتگو کرتے پائے گئے کہ رات چور آئے تھے، جب میں نے گولی مارنے کی دھمکی دی تو بھاگ گئے ،یہ دیکھیں ایک تو اپنے جوتے بھی چھوڑ کر بھاگ گیا۔ نانا جی کی نظر کمزور تھی مگراپنا جوتا پہچان گئے اور کر کہنے لگے ’’ایہہ تے میرا کھسہ اے، ایندا مطلب اے چورساڈی چھٹ تے وی چڑھے پھرے نیں راتیں‘‘۔پھر شاید ہمارے رشتہ کے ماموں جان جو ہم سے بہت پیار کرتے ہیں اور عمر میں بھی ہم سے بہت زیادہ بڑے نہیں بلکہ بھائی سیدو کی ہی عمر کے ہیں انھوں نے آپس میں باتیں کرتے بتا دیا کہ رات روکی ، احسان ، رضی اور سمبل وغیرہ چھت پر چڑھے تھے۔مگر یہ سازش باقی تمام سازشوں کی نسبت کافی کامیاب رہی کہ اسکا کوئی چشم دید گواہ نہ مل سکا۔البتہ اسکے باوجود ایک دو بندوں کی تو خوب دھلائی ہوئی البتہ میں ماضی کے تجربات کی روشنی میں دوو تین دن بزرگوں کے سامنے نہیں آیا۔آج پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو ہنسی کیساتھ افسوس بھی ہوتا ہے کہ کس طرح جانے انجانے ہم بزرگوں کو تنگ کرتے رہے ۔ بہر حال یہ سب بزرگ اتنے شفیق، عظیم اور مہربان تھے کہ مجھے پوری اُمید ہے ان سب کے سب نےمجھے میری بھول پن کی شرارتوں پر مجھے ضرورمعاف کر دیا ہوگا۔ (جاری ہے)
“