خیر ’’باؤ جی‘‘ کی تشریح کرتے کرتے دو معروف شرارتوں والی بات بیچ میں ہی رہ گئی۔ تو جناب جب دس دن کے لیے محرم میں گاؤں پہنچے تو باؤ جی حویلی میں آوارہ کتو ں سے بڑے تنگ نظر آ رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر بولے ’’جورو ورا(یہ بھی ایک خاص تکیہ کلام تھا انکا) کتیاں نو مار و حویلی وچ وڑے تنگ کردے نیں‘‘ انھیں حویلی اور بلخصوص امام بارگاہ والے حصے میں کتوں کی اینٹری قطعاً پسند نہ تھی ۔ ٹھیک سے یاد نہیں لیکن شاید وہ ان آوارہ کتوں کو زہر بھی ڈلوایا کرتے تھے، کیونکہ اکثر وہاں یہ کتے کسی نہ کسی بچے کو کاٹ لیتے تھے ۔اور باؤلے کتے کا بھی دیہات میں بہت خوف ہوتا تھا۔ خیر انکا آرڈر ہمارے لیے بہت بڑا اعزاز تھا کہ اماں کی نظر میں ہیرو بنوں گا کہ باؤ جی نے کام کہا اور اسنے کر دیا۔ سو ہاتھ میں کوئی ایک ڈیڑھ انچ موٹا ڈنڈا پکڑااور چند بچوں کی ٹیم تشکیل دے کر انکی ڈیوٹی لگائی کہ تم انھیں دور سےپتھر مارنا اور میں گیٹ پر کھڑا ہو کر انھیں ڈنڈا ماروں گا۔ ایک کتیا جو بار بار پتھر پھینک کر مارنے ڈرانے کے بعد بھی واپس آ جاتی تھی وہ جب حویلی سے بھاگتی صدر دروازے پر میرے پاس پہنچی تو میں نے اسے زور کا ڈنڈا مار دیا۔ افسوس اس بات کا کہ ڈنڈا ٹھکانے پر لگ گیا جو پہلے کبھی نہیں لگا تھا اور وہ گر گئی۔ اسے گرا دیکھ کر میں تو وہاں سے بھاگ گیا مگراسکی حالت دیکھ کر اندر سے کسی نے شور مچا دیا کہ روکی نے کتیا مار دی۔ یہ سن کر تیسرے نمبر والے ماموں سید زوالفقار حسین شاہ مشہدی جوبالکل باؤ جی کیطرح ہی سخت مزاج تھے اور ماموؤں سے لیکر خالاؤں تک تقریباً سوائے باؤ جی اور ایک بڑی خالہ کے سب ہی انسے ڈرتے بھی تھے انکا کڑکا (گرج دار آواز)سنائی دیا’’ کتھے وے روکی اج میں اینھوں نئیں چھڈنا؟‘‘۔ باہر کچھ کزنز نیں کہہ دیا کہ ’’ماموں زوالفقار نو پتہ لگ گیا اے ہن گھر نہ جائیں نئیں تے تیری خیر نہیں‘‘۔ میں خوفزدہ سارا دن سب سے بڑی خالہ کے گھر چھُپا رہا، شام کو ڈرتے ڈرتے گھر پہنچا کہ کہیں ماموں نہ دیکھ لیں تو سب سے بڑی خالہ سے کے بعد جو خالہ ماموں سے نہیں ڈرتی تھیں اور امی اور ماموؤں سے بڑی تھیں انھوں نے دیکھتے ہی کہا ’’زوالفقار تینوں لبھدا پھردا اے ،چپ کر کے رضائی وچ منہ لکا کےسوں جا ، کج نئیں ہندا‘‘۔ اتنے میں کسی نے ماموں کو بھی بتا دیا کہ روکی آ گیا ہے، تو وہ کمرے میں آ کر گرج دار آواز میں بولے ’’کتھے روکی‘‘ خالہ تسبیح کر رہی تھیں انھوں نے جواب میں ماموں کو جھڑک کر کہا ’’پراں دفع ہو ،ایتھے کوئی نئیں، ایویں نہ بالاں دے ساہ سکائی رکھنا ایں‘‘۔ دونوں بڑی خالائیں اور ماموں اب اس دنیا میں نہیں رہے، اللہ تعالی انھیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے آمین۔ بہت ہی پیار کرنے والی خالائیں تھیں ہماری، بالکل پنجابی معاشرے میں رچی بسی خالص پنجابی جنتی روحیں۔ بہر حال اگلے دس دن میں ماموں سے چُھپ چھُپا کر گزار آیا اور پھر وہ بھی وہ واقعہ بھول گئے۔
نانا جی کے خطاب کی ایک خاص بات یہ تھی کہ آپ ہر مجلس میں خود خطاب ضرور کرتے اور جتنا وقت بھی خطاب کرتے روہتے ہوئے ہی کرتے۔ یہ درست ہے کہ وہ خدا ترس اور دیالو انسان تھے ،خود کی زندگی انتہائی سادگی سے گزاری لیکن اپنے ضرورت مند عزیزوں و اقارب اور بعض مزارعین کو کاشت کے لیے مفت زمینیں دئیے رکھیں، مگرمجھے اچھی طرح یاد ہے وہ کوئی بہت نرم دل یا جزباتی انسان بھی نہ تھے البتہ غمِ حسین میں انسے کوئی بھی جملہ رونے کی وجہ سے سماعت کے لیے واضع ادا نہیں ہوتا تھا اور لوگ اکثر غمِ حسین سے بھرپوراُنکی سادہ مجس سے نکل کر امام بارگاہ کے باہر گپیں ہانکنے نکل جاتے اور پھر جیسے ہی کوئی گانوں کی طرز پر قصیدے یا مسائبِ اہلبیت کو زیادہ ڈرامائی انداز میں پڑھنے والابے عمل زاکر ممبرِ حسین پر براجمان ہوتا تو واپس آ جاتے۔دوسری شرارت نانا جی کے خطاب سے ہی وابستہ تھی اوریہ شرات اپنے ماموں زاد اور خالہ زاد بھائیوں کو ساتھ ملا کر کی وہ یہ تھی کہ نانی اماں نے حویلی کے ویہڑے(صحن) میں اماں خیراں سے مرچیں سوکھنے کے لیے ڈلوائی ہوئی تھیں۔ سُرخ رنگ ویسے ہی بچوں کو بہت اپیل کرتا ہے اور لال مرچ کی تو کیا ہی بات ہوتی ہے۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور سخت سردیوں کی دھوپ میں پڑی لال مرچیں بڑی ہی بھلی لگ رہی تھیں اور وہ بچہ ہی کیا جو کسی خوبصورت اور دلکش شے کا بیڑا غرق نہ کرے۔حویلی کا نقشہ کچھ ایساتھا کہ ایک طرف خاندان کے رہائشی کمرے، درمیان میں بڑا سا صحن اوراس سے آگے امام بارگاہ کی دیوار کیساتھ خواتین کی گیلری کے لیے بنائی گئی سیڑھیوں کیساتھ ہی لکڑی کے چولھے تھے جن پروسیع کنبے کے افراد کاکھانا بنتا تھا۔نو بہن بھائیوں کی اولاد میں ہم کل ملا کر اکاون یا باون فرسٹ کزنز ہیں۔ شام ہو چلی تھی اور چولھے جلنے لگے۔ اتنے میں، میں نے اپنے تین خالہ زاد اور ایک ماموں زاد بھائی سے پوچھا اگر مرچیں چولھے میں پھینک دی جائیں تو کیا ہوگا؟خالہ کے بیٹے نے کہا جس کو بھی دھواں جائے گا وہ کھانسنے لگ جائے گا۔ میں نے امام بارگاہ کے مرکزی حال کیطرف دیکھتے کہا، ہوا ادھر کی ہے، اگر مجلس کے وقت (جو رات کو ہوتی تھی )پھینکیں گے تو سارا مجمع کھانسے گا اور اس وقت اندھیرے میں ہمیں کوئی دیکھ بھی نہیں سکے گا۔ بھائیوں نے کہا آئڈیا زبردست ہے اچھا شغل لگے گا۔ تو پروگرام فائنل ہوا اور رات کو عین اسوقت جب باؤ جی امام بارگاہ میں مجلس سے خطاب کر رہے تھے تو باہر میں نے اپنے کزنز کیساتھ مل کر مرچیں دونوں تینوں چولھوں میں جھولیاں بھر کر پھینک دیں اور چپکے سے بھاگ کر حویلی سے باہر بڑی خالہ کے گھر پہنچ گئے۔یہ لاؤڈ سپیکرز والا دور تھا جب مجلس دور بیٹھے پورے گاؤں کے گھروں میں سنی جا رہی ہوتی تھی۔ خالہ کا گھر چونکہ زیادہ دور بھی نہیں تھا تو سپیکر کی آواز بہت ہی صاف سنائی دیتی تھی۔ تو جناب ہوا سازگار تھی ،سو جیسے ہی ہوا پچھلی طرف سے امام بارگاہ کے مرکزی حال کے بند دروازوں کے نیچے سے حال میں پہنچنا شروع ہوئی لوگ ایک ایک کر کے کھانسنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد باؤ جی کی آواز سپیکر پر آئی ’’اوہ کیہہ کھنگی جاندے او‘‘۔ جیسے جیسے لوگ کھانسنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ویسے ویسے باؤ جی کو غصہ چڑھتا چلا گیا۔ سپیکر میں ہی مجلس کے مضمون سے ہٹ کر سب کو دباڑا مارا (دباڑا مطلب گرج دار آواز میں ڈانٹا) ’’جنھیں کھنگنا اے امام باڑے توں باہر نکل جائے‘‘ اور ساتھ ہی خود بھی سپیکر میں کھانسنے لگے۔ ہوا ان تک بھی پہنچ چکی تھی۔
سازش کامیاب تھی مگر چور جتنا بھی چالاک ہو پکڑا جاتا ہے۔ ہماری ایک رشتہ کی نانی ہوا کرتی تھیں انھوں نے کہیں ہمیں امام بارگاہ کے اوپر زنان خانہ کی گیلری سے مرچیں ڈالتے دیکھ لیا تھا ۔ جس مجرم کی سب سے پہلے شناخت ہوئی وہ میں تھا ، باقی دو خالہ زاد بھائی اور ایک ماموں زاد بھائی تھا، ماموں زاد بھائی کی شناخت رشتہ کی نانی کونہ ہو سکی ، شاید اسلیے کہ وہ ماموں کا بیٹاتھا۔ بہر حال جب سب سے زیادہ عتاب اور جرم مجھ پر ہی نافذ ہوا تو پہلی بار جانا کہ بد سے بدنام برا کا کیا مطلب ہوتا ہے۔شرات اور آئڈیا سب کا تھا مگر اشتہاری صرف میں ہوا۔ رشتے کی نانی کی کٹنیوں والی شکایت نے اس محرم دیس نکالا یا گاوں نکالا لینے پر مجبور کر دیا اور میں نےمحرم کے باقی دن خاندان سے الگ تھلگ چونیاں والے گھر میں بتائے۔بہر حال ان دونوں شرارتوں پر آج بھی ندامت ہوتی ہے البتہ اسوقت ندامت نام کی کوئی شے ضمیر کے کسی گوشے میں موجود نہیں تھی۔ صرف ایک شریر بچہ تھا جو شرات کرتے کبھی اسکے نتائج پر غور نہیں کرتا تھا۔ خدا تعالی میری غلطیاں بطفیل جنابِ اما م ِ عالی مقام میری نا سمجھی کی شرارتیں اور غلطیاں معاف کرے جو مجھ سے نا سمجھی میں سرزد ہوئیں! آمین (جاری ہے)