نانا جی کوئی بہت بڑے عالم نہیں تھے بمشکل چند مذہبی کتب پڑھ رکھی ہونگی، لیکن بڑے عزادار ضرورت تھے۔ وہ صاحبِ حیثیت ہونے کیساتھ ساتھ بہت مذہبی اور با کردار انسان تھے۔ نماز تہجد اور پنجگانہ نماز پڑھتے تھے۔ پچیس مربعے زمین کے اکلوتے وارث تھے۔ جدی پشتی سید شیعہ خاندان تھا۔ ہندوستان فیروز پور میں آپکے والد کا اپنا امام بارگاہ تھا سو جب پاکستان آئے تو یہاں دو مربے زمین عزداری کے نام پر وقف کرنے کیساتھ گاؤں میں ایک بڑا امام بارگاہ تعمیر کروایا۔ شاید ضلع قصور کے کسی اور گاؤں میں اتنا بڑا امام بارگاہ نہیں ہوگا۔ مسجد کے لیے جگہ دی اور گاؤں میں ہسپتال کے لیے زمین فراہم کی جو آج کروڑوں روپے مالیت کی ہے۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ پیسے کی کوئی کمی نہیں تھی مگر تھے تھوڑے کنجوس۔ چھ فٹ دو انچ کے خوبرو انسان تھے۔ جب بھی اپنے کم و بیش ایک فٹ کے خوبصورت ہاتھ سے بوندیوں کا تبرک بانٹنا تو بہت ساری بوندی ایک ہی بار ہاتھ میں لے لینی مگر پھر مٹھی باری باری کھولتے کنٹرولڈ طریقے سے تین چار بندوں پر وہی بوندی پوری کر دینی۔ ہمیں ہمیشہ من ہی من شکوہ رہتا کہ بوندی تھوڑی کیوں دیتے ہیں۔ سو جب بھی میٹھے کی بھوک لگنی نانی اماں کی الماری سے اپنے ننھے منے ہاتھوں سے بوندی چراتے رہتے۔ بڑی انٹیک اور خوبصور قسم کی بڑی پیٹی کے جیسی لکڑی کی الماری تھی وہ۔ مختلف خانے تھے اسمیں اور چھوٹا سا ایک دروازہ تھا۔ نانا جی کہا کرتے تھے کہ محرم میں گوشت نہیں کھانا چاہیے۔ شاید اسی لیے ہمیشہ چنے والے پلاؤ کی دیگیں اترتی تھیں۔ ویسے نانا جی کو خو خود بھی گوشت کوئی زیادہ پسند نہیں تھا۔ پھر ہم لوگ جوان ہوئے اور کچھ رشتے اردو اسپیکنگ ہندوستانیوں میں ہوئے اور اسکے ساتھ ہی تبرک میں قیمہ، بریانی، حلیم وغیرہ نظر آنے لگا۔ نانا جی کے وقت کی عزاداری بہت سادہ سی ہوتی تھی۔ بچے گلہ کرتے مگر وہ غصہ کر لیتے اور بری طرح جھڑک دیتے کہ امام کے سوگ میں یہ سب نہیں ہو سکتا۔ اور شخصیت ایسی جلالی تھی کہ پھر کسی کی ہمت ھی نہ ہوتی کہ بات دوسری بار کرے۔ یہ وہ بنیادی فرق تھا جہاں سے میں نے یہ اندازہ لگایا کہ انکا خوراک میں سادہ مزاج ہونا شاید مذہبی تاویل کیساتھ پنجابی ہونا بھی تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے امی سے لیکر نانا جی تک سب سبزی ہی شوق سے کھاتے تھے اور آپ کہہ سکتے ہیں کہ کم از کم سطح پر یہ لوگ ویجیٹیرین ہی تھے۔ یہ شاید انھیں صدیاں پنجاب میں گزارنے اور ہندو مسلم سکھ سماج کی باہمی معاشرت سے ملا تھا۔ مگر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ بیہار اور یو پی میں بھی تو ہندو مسلم اکٹھے رہتے تھے، وہاں ایسا کیوں نہ ہوا؟ اس سے ایک بات تو یہ بھی ثابت ہوتی ہے کہ ہندو مسلم سکھ پنجابی بھائی چارہ یو پی بہار کے ہندو مسلم کے بقائے باہمی کے فارمولے یا فلسفہ سے بہتر تھا۔ نیز تقسیم ہند سے پہلے کے پنجاب میں ایسی فرقہ واریت بھی نہ تھی جو اب دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ تقریباً تمام فرقوں کے جید علمائے اکرام اکثریت میں غیر پنجابی ہی تھے۔ (جاری ہے)
“