ایک وقت میں دو عینکیں اپنے پاس رکھتا ہوں ، ایک گاڑی میں اور ایک پاکٹ میں _ کل ایک عینک ہاتھ سے پِھسلی ، فرش پر گری اور ٹوٹ گئی _ کار سے دوسری نکال کر پاکٹ میں ڈالی اور استعمال کر رہا تھا _
شام کو گاؤں آیا _ رات ایک تنگ جگہ سے گاڑی بیک کر رہا تھا ، گردن موڑ کر پیچھے دیکھا تو عینک ناک سے سلپ ہوئی اور نیچے نالی میں گر کر گندے پانی ساتھ آگے بہنے لگ گئی _
نواسیاں نواسے مجھے ابو کہہ کر بلاتے ہیں _ چار سالہ نواسی یہ دیکھ رہی تھی _ اس نے عینک نالی میں بہتی دیکھ کر تالی بجائی اور شور مچا دیا _ ابو کی عینک گر گئی ، ابو کی عینک نالی میں گر گئی _
ابھی ایک عینک پہلے خراب تھی ، دوسری نالی میں گر گئ _ رات کے وقت گاؤں سے نئی عینک ملنا بھی مشکل تھا _ تو میں کیا کرتا _ فوراً اندر گیا ، آگ پکڑنے والا چمٹہ اٹھایا اور نالی میں بہتی عینک باہر نکالی ، سرف اور سپرٹ سے دھو کر آنکھوں پہ لگا لی _
چند منٹ بعد بڑی بیٹی آئی _ پوچھنے لگی کہ ابو جی ، سُنا آپ کی عینک نالی میں گر گئی تھی _ میں نے کہا جی بیٹی گری تھی _ باہر نکالی اور صاف کر کہ پہن لی _
دونوں بیٹیاں ایک ہی گھر میں ہیں تو فوراً بعد چھوٹی بیٹی آ کر پوچھنے لگی کہ ابو جی ، بھانجی بتا رہی تھی آپ کی عینک نالی میں گری _ میں نے کہا جی بیٹا گری تھی _ نکالی اور دھو کر آنکھوں پہ لگا لی _ بیٹی نے اس پر میری ٹھیک ٹھاک جھاڑ پونچھ کر دی کہ آپ نے گندی نالی والی عینک اٹھائی کیوں اور اگر اُٹھا ہی لی تھی تو پھر پہنی کیوں _ ؟
چند منٹ بعد بڑے داماد صاحب آئے _ پوچھنے لگے کہ غفور صاحب وہ چھوٹی بیٹی بتا رہی تھی کہ آپ کی عینک نالی میں گری تھی _ میں نے کہا ہاں یار گری تھی تو میں نے اٹھائی اور دھو کر پہن لی _
تھوڑی دیر بعد دیکھا تو نواسی صاحبہ اپنے چچا اور میرے چھوٹے داماد ساتھ کُھسر پُسر کر رہی تھی تو چند منٹ بعد داماد صاحب نے پوچھا کہ سر یہ بتا رہی کہ آپ کی عینک نالی میں گِری تھی تو میں نے کہا کہ ہاں یار گِری تھی تو میں نے اٹھائی ، دھوئی اور آنکھوں پہ چڑہا لی _
کُچھ وقت گُزرا تو بچوں کی دادی تشریف لائیں _ دیکھا تو نواسی اپنی دادی حاجن ساتھ چِپکی ان کے کان میں کچھ بتا رہی تھی _ چھوٹی سائیڈ پہ ہوئی تو بی بی حاجن مُجھے پوچھنے لگ گئیں کہ غفور صاحب ، وہ سنا ہے کہ آپ کی عینک نالی میں گری تھی _ میں نے جواب دیا _ ہاں جی ، گِری تھی _ نکالی ، دھوئی اور پہن لی _ عینک بغیر گُزارہ جو نا ہوتا تھا _
ابھی گاؤں سے فیصل آباد کے لئے نکلنے لگا تو بیٹیوں کی سہیلیاں ملنے آئیں _ دیکھا تو نواسی صاحبہ ایک کی گود میں بیٹھی تھی _ چند منٹ بعد بیٹی کی وہ سہیلی میرے پاس آئی _ خیر خیریت پوچھی اور کہنے لگی کہ انکل جی سُنا کہ رات آپ کی عینک نالی میں گر گئی تھی _
یہ سُن کر میرا تو خون کھولنے لگ گیا _ دل ہی دل میں اس آدمی کو ہزاروں گالیاں دینے کا سوچا جس نے پہلی بار نالیوں کا سسٹم بنایا تھا _ نا نالی ہوتی نا میری عینک اُس میں گرتی _ نا میں عینک اٹھاتا اور نا یہ چار سال کی بھوتنی عینک گرتے دیکھ کر میری عزت کا ڈھول بجاتی _ آج اگر نالی ایجاد کرنے والا انجینئر مُجھے زندہ ملتا تو یقیناً میرے ھاتھ سے مارا جاتا _
میں نے اپنی باندری جیسی نواسی کو گود میں اُٹھایا ، وہ ناہنجار عینک اُتاری اور نواسی صاحبہ کو دِکھا کر نالی میں عین اُس جگہ واپس پھینکی جہاں سے رات گندے پانی میں بہتی ہوئی اٹھائی تھی _ عینک پھینکتے ہی دل کو سکون ملا _ یوں محسوس ہوا جیسے کوئی بہت بڑا بوجھ سر سے اُتر گیا ہو _
نزدیک کی نظر والی عینک ہے _ کار چلانے کا تو کوئی مسلہ ہی نہیں _ بغیر عینک لکھ پڑھ بھی سکتا ہوں _ ابھی گھر پہنچ کر تین چار نئی عینکیں بنوا کر رکھ لوں گا تا کہ آئندہ ایسا کوئی واقعہ نا ہو _۔