:::" نامور سنگھ : جدید ہندی ادبی تنقید کا معمار ":::
————————————————–
ڈاکٹر نامور سنگھ 1927 میں جے پور، راجھستاں میں پیدا ھوئے ۔ ان کے خاندان کا تعلق جیون پور، ضلع وارانسی ، یو پی بھارت کے ایک کسان گھرانے سے ھے۔ شاعری کی، کہانیاں لکھی مگر ان کی وجہ شہرت " تنقید" (الوچنا) بنی۔ 1936 کے آس پاس جب وہ مڈل اسکول میں پڑھتے تھے تو وہ ہندی انتاک شری ( بیت بازی) کی محافل میں حصہ لیتے تھے۔ جن میں زیدہ تر " چھودوبد" کوتیائں ہوتی تھیں۔ اور ان کر بقول "۔۔۔۔جس کے لیے تلسی داس کے دوھوں کو یاد کرنا پڑتے تھے"۔۔۔۔۔ 1953 میں بنارس یونیورسٹی سے ہندی ادبیات میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔۔ وہ بنارس اور ساگر یونیورسٹی میں درس و تدریس سے منسلک رھے اس کے بعد وہ راجھستان کی جودھپور یونیورسٹی میں ہندی ادبیات کے شعبے کے صدر نشین اور پروفیسر کے عہدے سے سبکدوش ھوئے۔ نامور سنگھ نرملا روما کی طرح جدید ادبیات کی آبرو سمجھے جاتے ہیں اہ ایک بلند پایہ ادیب ہیں جن کی تحریروں پر ہندی اساطیر، تاریخ، سماج ، تہذیب و ثقافت کا گہرا اثر ہے۔ وہ ہندی ادب کے ممتاز یساریت پسند (مارکسی) ادبی نقادادیب، دانشور اور معاشرتی ، سیاسی مزاحمت کار ہیں۔ انھوں نے ہندی کی ترقی پسند تحریک میں فعال کردار ادا کیا۔ نامور سنگھ نے ایک معیاری ہندی سہ ماہی جریدے ۔۔"آلوچنا"۔۔ (تنقید) کےمدیر بھی رھے۔ وہ انگریزی کے شاعر ٹی ایس ایلیٹ سے خاصے متاثر ہیں۔ انھوں نے کئی محازوں پر انسان دوست تحریکیوں کا ساتھ دیا۔ وہ بھارت میں فرقہ وارانہ تعصبات کے بارے میں ہمیشہ فکر مند رھے۔ انھوں نے بی جے پی کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ھوئے اسے "ہندو فسطائیت" کا نام دیا۔ وہ سیاست کے بارے میں "جمہوریت اور ضمیر" کے بات کرتے ہیں۔ ان کا خیال ھے کہ سخت گیر بالشویک مارکسی سکہ بند نظریہ محض " دقیانوسیت" ھے۔ نامور سنگھ سادہ لوح انسان ہیں۔ حقیقت پسندانہ گفتگو کرنے والے ٹھنڈے زہن کے دانشور ہیں۔اس کے ساتھ وہ فراخ دل ھونے کے ساتھ پرجوش "قدامت پسند " دکھائی دیتے ہیں۔ بہت شستہ ہندی میں گفتگو کرتے ہیں ۔انھوں نے زمانہ طالب علمی میں ہندی میں شاعری بھی کی۔ 1951 میں ان کے ہندی مضامین کا مجموعہ، ۔۔ "بقلم خود"۔۔ کے نام سے شائع ھوا۔ ان کا سب سے اھم تنقیدی کارنامہ۔۔" کویتا کا نیا پرتما"۔۔ ھے۔ نامور سنگھ نے ہندی شاعری پر مقالات اور مضامین بھی لکھے۔ انھوں نے حقیقت پسند شاعری کے حوالے سے شاعری کی ہیت، ساخت، سیاق،ڈرامائی شاعرانہ ساخت، طنز اور لایعنیت، پیچیدگی، ابہام تشکیک، آبلہ فریبی،اعصابی تناو کی کیفیات کو بڑے منطقی اور جدید پیرائے میں لکھا ھے۔ نامورسنگھ مارکسی نقاد ھوتے ھوئے امریکہ کی " نئی تنقید" کے دبستان سے خاصے جڑے ھوئے ہیں جو ہیت پسندانہ نقد کی ایک شکل ھے۔ نامور سنگھ نے ہندی شاعری کے حوالے سے " مکتی بودہ" کی اصطلاح کے تحت بتایا کہ کس طرح شاعری میں ہیت اور سیاق میں جدلیاتی انسلاک ھو پاتا ھے کیونکہ یہی حقیقت پسندانہ شاعری کی تشریح و تفھیم کرتی ھے اور یہی گہرائی اس کو معنی خیز بناتی ھے۔ ان کا خیال ھے کہ مارکسی تنقید معاشرتی سیاق و سباق کی وضاحت کرنے میں کامیاب رہی ھے مگر ہندی کا شاعر جو تخلیق کررھا ھے دنیا اس کو سمجھ نہیں پا رہا اور وہ اس سلسلے میں وہ ناکام ھے۔ شاعری میں حریت کا انکشاف کرنے کے لیے نئی شاعری اور انتقادات سامنے آئیں ہیں۔ نامور سنگھ نے ہندی ادب و نقد کی تشریح و تفھیم پر بہت عمدہ کام کیا ھے۔ ان کا ہندی سائیتہ / ادب کی تنقید پر زیادہ تر کام " عالمانہ" ھے اور انھوں نے جدید ہندی ادبی تنقید کو نئی جہات اور معیارات سے ھم کنار کیا۔ ان کے کچھ ناقدیں نے ان کی " ترقی پسندی " کو مشکوک قرار دیا ہے۔ نامور سنگھ فارسی کے شاعر خیام سے متاثر ہیں۔ بہت اچھی اردو لکھ پڑھ لیتے ہیں۔ انھوں نے اٹھارہ /18 سےزائد لکھی ہیں۔ نامور سنگھ کی شاعری کا مجموعہ ۔۔"نئی کویتا" ۔۔ نے بہت شہرت پائی ان کی دیگر کتابوں میں " دوسری پرمارا کی کھوج"۔۔ " پرمباھک ری چند آیان" ۔۔: "اتہاس اور آلوچنا" (تاریخ اور تنقید) بہترین کتابیں ہیں۔ نامور سنگھ نے 1992 میں ہریش ترویدی کی معاونت میں " ردنو آبادیات اور ہندوستانی ذہن" نامی کتاب لکھی۔ نامور سنگھ ادبی اور فکری کارناموں پر سمن/ ثمن کشہیری نے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔