انسان پیدائش کے وقت بے بس ہوتا ہے او ر دوسروں پر انحصار کرتا ہے۔ تقریبا ایک سال تک ہم چلنے کے قابل نہیں ہوتے ۔ اس کے دو سال بعد جا کر کہیں ہم اس قابل ہوتے ہیں کہ اپنے خیالات کو زبان دے سکیں۔ اس کے برعکس دیگر جانوروں میں ایسا نہیں ہوتا ۔ ایک ڈالفن پیدائش کے فورا بعد تیرنا شروع کردیتی ہے، زرافہ کچھ ہی گھنٹوں میں کھڑا ہونا سیکھ جاتا ہے ، زیبرا پیدائش کے پینتالیس منت بعد ہی دوڑنا شرو ع کردیتا ہے۔ ہمارے یہ رشتہ دار پیدائش کے بعد بہت جلد خودمختار ہوتے ہیں۔ یہ جانور ہم سے زیادہ فائدے میں نظر آتے ہیں لیکن دراصل یہ خامی ہے۔ ننھے جانور اس لئے پیدائش کے بعد جلد خود کو سنبھالنے کے قابل ہوجاتے ہیں کیونکہ انکے دماغوں کی بنت زیادہ تر پہلے سے طے شدہ معمول کے مطابق ہوتی ہے۔ انکے دماغوں میں میں لچک موجود نہیں ہوتی۔ تصور کریں کہ ایک گینڈا برفانی علاقوں میں موجود ہو، یا پھر ہمالیہ کی چوٹیوں پر یا کسی بڑے شہر میں ۔ انکے اندر یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ مختلف ایکوسسٹمز کے اندر ایڈاپٹ کرسکیں ۔ اسی لئے ان علاقوں میں گینڈے نظر نہیں آتے ۔ پہلے سے طے شدہ دماغی پیٹرن کے ساتھ آنے کی یہ حکمت عملی ماحول کے اندر مختلف فیکٹرز کی مخصوص رینج کے اندر ہی کام کرتی ہے۔ اس رینج سے باہر اس جاندار کو چھوڑا جائے تو وہ سروائیو نہیں کر پائیگا۔ مکھی کا قریب سے کسی کے گزرنے پر اڑنا، ریچھ کا سردیوں میں لمبی نیند سونا یا کتوں کے اندر مالک کی حفاظت کا جذبہ یہ سب وہ جبلتیں یا رویے ہیں جو انکے اندر پہلے سے فکس ہیں۔
اسکے برعکس ہم انسان مختلف قسم کے ماحول میں زندہ رہ سکتے ہیں اور اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارا دماغ پیدائش کے وقت حیران کن حد تک نامکمل ہوتا ہے۔ انسانی دماغ کے اندر یہ لچک ہوتی کہ وہ اپنے آپکو زندگی کے تجربات کی تفصیل سے ترتیب دیتا رہتا ہے۔ یہی وجہ کہ انسانوں میں یہ دوسروں پر انحصار کا دورانیہ طویل ہوتا ہے ۔ اسکا تعلق خلیوں کی تعداد سے نہیں ہے بلکہ بچوں اور بڑوں میں نیورونز کی تعداد ایک جیسی ہوتی ہے۔ اسکا تعلق اس سے ہے کہ یہ خلیے آپس میں کسطرح کے کنیکشنز بناتے ہیں ۔ پیدائش کے وقت یہ آپس میں جڑے نہیں ہوتے دو سال تک ان خلیوں کے آپس میں کنیکشن بنانے کی رفتار بہت زیادہ ہوتی ہے ۔ جیسے جیسے ہم میچور ہوتے ہیں ان میں سے پچاس فیصد کنیکشنز ختم ہوجاتے ہیں ۔ جو کنیکشن زیاہ سرکٹس کے اندر حصہ لیتا ہے وہ مظبوط ہوتا ہے جبکہ جو فائدہ مند نہیں ہوتے وہ ختم ہوجاتے ہیں جسطرح جنگل میں نہ استعمال ہونے والے راستے غائب ہو جاتے ہیں۔ ابتدائی ماحول اہم ہے مثلا جو زبان ہم بچپن میں سنتے ہیں وہ ہمارے اندر اسی زبان کے الفاظ کو بہتر طور پر سننے کی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے جبکہ دوسری زبانوں کے الفاظ کی سماعت کی صلاحیت کو کم کرتی ہے۔ امریکہ اور جاپان میں پیدا ہونے والے بچے ہر قسم کی آوزوں کو سننے کی یکساں صلاحیت کے حامل ہونگے مگر وقت گزرنے کیساتھ کیساتھ جاپان میں پیدا ہونے والا بچہ R او ر L میں فرق کرنے کی صلاحیت کھودیگا کیونکہ جاپانی زبان میں ان میں فرق نہیں کیا جاتا۔
پیدائش کے بعد صحیح توجہ و نگہداشت کی کمی دماغ کی گروتھ کو متاثر کرتی ہے ۔ 1996 میں رومانیہ کے یتیم خانوں میں رہنے والے بچوں پر کی گئی تحقیقات سے یہ پتہ چلا کہ جن بچوں کو پیدائش کے بعد جذباتی لگاؤ اور توجہ نہیں ملتی انکے اندر بنیادی دماغی صلاحتیں متاثر ہوتی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ خیال کیا جاتا تھا کہ دماغ کی بڑھوتری بچبن کے اختتام پر ہی مکمل ہوجاتی ہے۔ لیکن اب ہم جانتے ہیں کہ یہ عمل پچیس سال تک چلتا ہے۔ لڑکپن کا دور اس حوالے سے دلچسپ ہے جب جسم میں ہارمونل تبدیلیاں واقع ہو رہی ہوتے ہیں اور ساتھ ہی دماغ بھی تبدیل ہورہا ہوتا ہے۔ ایک تجربے کے اندر بالغ لوگوں اور ٹین ایجرز کو ایک شاپنگ مال میں بٹھایا گیا اور نکے ساتھ ایک آلہ جوڑ اگیا جوکہ گیلوانک سکن ریسپانس کی پیمائش کرتا ہے تاکہ انکے اندر اینزائٹی کی سطح کو دیکھا جاسکے۔ ( جتنے پسینے کے مسام زیادہ کھلیں گے یہ آلہ اتنی زیادہ پیمائش دیگا)۔ اور باہر موجود لوگوں کو انکو گھورنے کیلئے کہا گیا۔ بڑی عمر کے لوگوں کی نسبت ٹین ایجرز کے اندر اینزائٹی زیادہ دیکھی گئی کچھ لوگ تو باقائدہ کانپ رہے تھے۔ ایسا کیوں تھا؟ اسکا جواب دماغ کے ایک حصے میڈیئل پریفرنٹل کورٹیکس کیساتھ جڑا ہے۔ یہ حصہ اس وقت فعال ہوتا ے جب ہم اپنے خود کے بارے میں سوچتے ہیں خاس طور پر اپنے حوالے سے کسی واقعہ کےجذباتی پہلو پر۔ جیسے جیسے ہم بلوغت کی طرف بڑھتے ہیں میڈئیل پریفرنٹل کورٹیکس اس قسم کی صورتحال کے اندر زیادہ فعال ہونا شروع کردیتا ہے۔ اسکی بلند سطح پندرہ سال کی عمر میں دیکھی گئی ہے۔ اس عمر میں انسانی دماغ خود احتسابی کو زیادہ ترجیح دیتا ہے۔
ایک اور چیز جو لڑکپن میں زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے وہ ہے رسک لینے کی صلاحیت۔ جیسے جیسے ہم بلوغت کی طرف بڑھتے ہیں ہمارے دماغ کے ان حصوں میں فعالیت زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے جنکا تعلق خوشی یا مزے سےہوتا ہے ان میں سے ایک حصہ نیوکلئیس اکمبنس ہے ۔ ٹین ایجرز میں اسکی فعالیت بڑی عمر کے لوگوں جتنی ہوتی ہے لیکن اوربیٹو فرنٹل کورٹیکس (جسکا تعلق فیصلہ سازی ، توجہ اور مستقبل کے نتائج کو تصور کرنے کے حوالے سے ہے ) اسکی فعالیت بچوں جتنی ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے ٹین ایجرز نا صرف جذباتی طور پر حد سے زیادہ حساس ہوتے ہیں بلکہ بڑی عمر کے لوگوں کی نسبت ان میں جذبات کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت بھی کم ہوتی ہے۔ میڈئیل پریفرنٹل کورٹیکس دماغ کے دوسرے حصوں سے لنک ہوتا ہے جو ارادوں کو عمل میں تبدیل کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس عمر میں نوجوان اس وقت زیادہ رسک لیتے ہیں جب وہ دوستوں کے درمیان ہوں۔ دنیا بھر میں موجود پریشان والدین سے گزارش ہے کہ بطور ٹین ایجرز ہم کیسے ہیں ااسکا تعلق رویے یا چوائس سے نہیں ہے بلکہ یہ ایک ناگزیر سخت نیور ل تبدیلی کا نتیجہ ہے۔
جیسے ہم پچیس سال کی عمر کو پہنچتے ہیں بچپن اور بلوغت کی یہ تبدیلیاں اپنے انجام کو پہنچتی ہیں۔ ہمارا دماغ پوری طرح سے ڈویلپ ہوچکا ہے۔ لیکن اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ بطور با لغ انسان آپکی شناخت فکس ہوجاتی ہے تو آپ غلط سوچ رہے ہیں۔ دماغ مسلسل تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ تجربت اسکو بدلتے ہیں اور یہ ان تجربات کو محفوظ رکھتا ہے۔ اسکی مثال لندن کے ٹیکسی ڈرائیورز کے دماغ ہیں۔ یہ ٹیکسی ڈرائیورز اپنی ٹریننگ کے دوران سخت ذہنی آزمائش سے گزرتے ہیں جس میں انکو 320 راستے 25000 گلیاں اور 20000 مختلف مقامات کی لوکیشن یاد کرنا ہوتی ہے۔ یونیورسٹی کالج لندن کے نیوروسائنٹسٹس نے ان ڈرائیورز کے دماغوں کو سکین کیا۔ وہ ایک خاص حصے ہپوکیمپس میں دلچسپی رکھتے تھے جو مقاماتی یاداشت کے حوالے سے اہم ہے۔ ان سائنسدانوں نے ڈرائیورز کے دماغوں میں واضح فرق دیکھا۔ انکے دماغوں میں ہپوکیمپس کا پچھلا حصہ واضح طور پر ابھرا ہوا تھا۔ اور یہ اضافہ ان لوگوں میں زیادہ تھا جنکو ٹیکسی چلاتے زیادہ عرصہ ہوگیا تھا۔ اس واضح ہوتا ہے کہ ایک بالغ دماغ فکس نہیں ہوتا بلکہ بدلتا رہتا ہے اور یہ تبدیلی اس قدر واضح ہوتی ہے کہ عام آنکھ سے اسکو دیکھا جاسکے۔ جب آئن سٹائن کے دماغ کو دیکھا گیا تو اس سے اسکی ذہانت کا سراغ تو نہ لگ سکا البتہ اسکے دماغ کے اس حصے میں جو بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے منسلک تھا یونانی سمبل اومیگا کی شکل کا یک ابھار نظر آیا ۔ آئن سٹائن کو وائلن بجانے کا شوق تھا جس میں بائیں ہاتھ کی انگلیوں کا مہارت سے استعما ل ہوتا تھا۔ پیانو بجانے والوں میں اس کے برعکس دماغ کے دونوں ہیمی سفیئرز میں اومیگا ابھار بنتے ہیں جہاں دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کا استعمال ہوتا ہے۔
From The Brain: The story of you
By David Eagleman
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...