میری اس سے کوئی دشمنی نہیں ہے
میرا آخر اس سے کیا جھگڑا ہے؟
میں ایک عام کالم نگار جس کے پاس جاہ و حشم ہے نہ کروفر تو دور کی بات ہے۔ دو وقت کی روٹی پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اور کل کیلئے توکل کرتا ہوں۔
اور… وہ … ایوان میں دیوان پر متمکن بادشاہوں کیساتھ کندھا ملا کر چلنے والا اقتدار کی راہداریوں میں چہل قدمی کرنیوالا کم خواب اور حریر و اطلس جس کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ جہازی سائز کی لیموزین جس کیلئے چوبیس گھنٹے وسیع و عریض پورچ میں کھڑی ہیں خدام جس کے اشارے پر جیسے ہوا میں تیرتے ہوئے آتے ہیں۔
میرا اور اس کا کیا مقابلہ؟
میری بات گلی کا چوکیداربھی توجہ سے نہیں سنتا اور اس کے ایک اشارے پر ہلچل مچ جائے وہ کسی وزیر کسی وفاقی سیکرٹری' کسی صوبائی میر منشی' کسی سیٹھ' کسی جاگیردار' کسی صنعت کار کو ابرو کا اشارہ بھی کر دے تو کچے دھاگے سے بندھا چلا آئے۔
میرا اور اس کا کیا مقابلہ
میرا اور اس سے کیا جھگڑا
نہ ہماری جائیداد مشترکہ نہ ہمارے گھروں کی دیواریں سانجھی نہ ہماری رشتہ داری' نہ ایک دوسرے کے شریک' میں نے تو اسے دیکھا بھی نہیں' جن راہداریوں پر وہ حریر و اطلس اوڑھے چہل قدمی کرتا ہے میں نے تو وہ طلسمی راہداریاں خواب میں بھی نہیں دیکھیں۔
لیکن قدرت کے کام بھی عجیب ہیں۔ اس سب کچھ کے باوجود میں اس سے شدید نفرت کرتا ہوں اور میں حیران ہوں کہ میری اس سے آخر کیا دشمنی ہے؟
حد یہ ہے کہ میں جتنی نفرت بنگال کے میر جعفر اور میسور کے میر صادق سے کرتا ہوں اس شخص سے اس سے بھی زیادہ کرتا ہوں۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ میر جعفر اور میر صادق ایک گلے سڑے موروثی نظام کا ردعمل تھے۔ ایسا موروثی نظام جس میں نواب اور شہزادے رعایا کو زرخرید غلام سمجھتے تھے۔ لیکن یہ شخص جس سے میں شدید نفرت کرتا ہوں کسی نواب کی رعایا بھی نہیں تھا اور نظام بھی۔ اگرچہ تازہ ہوا کا جھونکا نہیں تھا لیکن دو سو سال پہلے والے نظام کی نسبت بدرجہا بہتر تھا! اس شخص کیلئے تو میدان ہموار تھا۔ اگر وہ اتنا ہی کہہ دیتا کہ نہیں! میں کٹھ پتلی نہیں بننا چاہتا تو لوگ اسے بھی آنکھوں پر بٹھاتے اس کیلئے بھی پہروں سڑکوں پر کھڑے رہتے اس کیلئے بھی ریاستی اداروں کا تشدد برداشت کرتے اور حکومت کے ایوانوں کے بام اور اس کے نام سے بھی کانپتے۔
لیکن افسوس! اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس نے گھاٹے کا سودا کیا۔ اس نے سترہ کروڑ عوام کی گردنوں پر پائوں رکھا اور اس مسند پر بیٹھ گیا جو مقدس تھی۔ افسوس! اس نے اس مسند کی تقدیس خاک میں ملا دی۔ زار روس نے انیسویں صدی کے نصف آخر میں وسط ایشیا پر قبضہ کیا تو روسی جرنیلوں نے ظلم کی انتہا کر دی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ نمنگان (فرغانہ) کی ایک مسجد میں یہ اہتمام کیا گیا کہ جب نماز کے دوران نمازی سجدے میں ہوں تو روسی جرنیل انکے اوپر سے گزرے چنانچہ حکم ہوا کہ سجدے سے کوئی نہ سر اٹھائے جرنیل (جس کا نام بھول رہا ہوں) صف کے ایک سرے سے سجدہ ریز گردنوں پر پائوں رکھتا ہوا صف کی دوسری طرف پہنچ گیا۔ یہ شخص بھی اگرچہ جرنیل نہیں تھا لیکن روسی جرنیل بن گیا سترہ کروڑ عوام کی گردنوں پر پائوں رکھتا یہ ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچا۔ آ گے مسند تھی اس پر بیٹھ گیا۔ چوبدار کھڑے ہوگئے سنگینیں اسکی حفاظت کیلئے دیوار بن گئیں لیکن افسوس! موصوف نے یہ نہ دیکھا کہ مسند کا کمرہ جس صحن میں کھل رہا تھا وہاں الائو جل رہے تھے۔ ہر طرف آگ تھی۔ دھواں تھا اور اب یہ صاحب آگ اور دھوئیں میں کھڑے ہیں۔ ہر مسند جس پر غاصبانہ قبضہ کیا جائے آگ کی طرف لے جاتی ہے۔ کالے دھوئیں میں سانس لینا محال ہو جاتا ہے آگ کی تلخی گلے میں رچ بس جاتی ہے اور فرشتے کہتے ہیں! …''چکھ۔ تو بڑا ہی عزت دار تھا''
ایک سال چار ماہ اس سے کچھ زیادہ یا اس سے کم یہی مدت تھی نا اقتدار کی! آقائوں کی کفش سرداری کی! چوبداروں کی اور پہریداروں کی! سنہری پیٹی اور شملے والے دربان کی! اور اسکے بدلے میں تاریخ کی کبھی نہ ختم ہونیوالی مذمت گھاٹے کا کاروبار کیا اس شخص نے … صفر ہوگیا۔ آنکھوں پر زرتار پردہ پڑ گیا۔ دل پر چھوٹا سفید نقطہ پھیلتے پھیلتے دائرہ بن گیا۔ فاعتبرو! یا اولی الابصار! عبرت حاصل کرو اے آنکھوں والو! عبرت پکڑو!
اس شخص نے ہمارا سفر لمبا کیا۔ ہمارا راستہ کھوٹا کیا۔ یہ اپنی بھی تاریخ بنا سکتا تھا اور ہماری بھی! لیکن
مارا خراب کردہ و خود مبتلا شدی اور تو اور اس نے اپنی دختر نیک اختر کو بھی تنازعوں کے عین درمیان میں کھڑا کر دیا مسند کا تقاضا تھا کہ بیٹی کو واشگاف الفاظ میں کہتا کہ میڈیکل کالج میں داخلہ ملے یا نہ ملے' میں اپنے منصب کا ناجائز استعمال نہیں کروں گا لیکن اس نے منصب کو دھاندلی کے لئے استعمال کیا۔
ظلم کی حد کر دی اور بیٹی کو سائے میں بٹھانے کے بجائے دھوپ میں کھڑا کر دیا۔
لیکن میر جعفر اور میر صادق ہر زمانے میں ہوتے ہیں۔ جب امام مالک نے عباسی خلیفہ کی بات نہیں مانی ا ور اس کی مرضی کا فتویٰ دینے سے انکار کیا تو تذلیل کرتے ہوئے انہیں شہر میں پھرایا گیا اور وہ بلند آواز سے کہتے جاتے تھے کہ جو جانتا ہے وہ تو جانتا ہے۔ جو نہیں جانتا وہ جان لے کہ میں مالک ابن انس ہوں اور میں نے یہ فتویٰ دیا ہے جب کہ خلیفہ کچھ اور چاہتا ہے تو کیا اس وقت بکنے والے قاضی نہیں ملے ہوں گے؟ بے شمار مل گئے ہونگے لیکن آج ان کا نام کوئی نہیں جانتا اور مالک ابن انس کا تذکرہ پورے عالم اسلام میں ایک دن میں کتنی بار ہوتا ہے؟ شمار مشکل ہے۔
جب ابو حنیفہ نے چیف جسٹس بننے سے انکار کیا تھا اور زدان میں گئے تھے اور بازو کندھوں سے اکھڑ گئے تھے اور زہر سے شہادت واقع ہوگئی تھی تو کیا چیف جسٹس کی مسند خالی رہ گئی تھی؟ نہیں! لیکن جو بھی بنا تھا' تاریخ کی دھول اسکے نام کو دفن کر چکی ہے اور امام جعفر صادق کے ہونہار شاگرد اور سادات کی تحریک کی چھپ کر مالی معاونت کرنیوالے امام ابو حنیفہ کا نام ہر روز ہر گھر میں لیا جاتا ہے! لوگ فخر سے اپنے بچوں کے نام ٹیپو رکھتے ہیں لیکن دکن کے جس نظام نے ٹیپو سے جنگ کرنے والے انگریزوں کی مدد کیلئے فوجی دستہ بھیجا تھا اس نظام کا نام بھی کوئی نہیں جانتا! تاریخ کو ہر دور میں کٹھ پتلیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاریخ ان کٹھ پتلیوں کے ساتھ بعد میں جو سلوک کرتی ہے' خدا زہر سے بھرے ہوئے سانپ کو بھی اس سلوک سے بچائے' مشرق کے شاعر نے بات ہی ختم کر دی۔
جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگ ملت' ننگ دیں' ننگ وطن
اور ساقی فاروقی نے نہلے پر دہلا لگایا ہے۔
ان موزیوں پہ قہر الٰہی کی شکل میں
نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...