یہ تو مجھے معلوم تھا کہ من موہن سنگھ پاکستان بننے سے پہلے چکوال کے علاقے کے کسی گاؤں میں رہتا تھا لیکن اس گاؤں کا نام پتہ تھا نہ محلِ وقوع۔من موہن سنگھ کو میں فوراً ملنا چاہتا تھا اور جو بات اس سے کرنا چاہتا تھا وہ اتنی ضروری تھی کہ تاخیر کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ اسکے بارے میں سنا تھا کہ بہت سادہ اور فقیر منش انسان ہے لیکن جو کچھ بھی ہو، تھا تو وہ وزیراعظم اور وزیراعظم جتنا بھی فقیر منش ہو، وزیراعظم ہوتا ہے، اس تک رسائی کیلئے کوئی نہ کوئی سیڑھی ضرور ہوتی ہے۔ کم از کم ہمارے ہاں رواج یہی ہے۔ سوچ سوچ کر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اسکے گاؤں جاؤں۔ ضلع چکوال میں واقع یہ گاؤں جس کا نام ’’گاہ‘‘ ہے من موہن سنگھ کی جنم بھومی ہے جب ہمارے کمانڈو صدر جنرل مشرف من موہن سنگھ کو ملنے گئے تھے تو اسی گاؤں کے سکول ہی سے من موہن سنگھ کا تاریخ پیدائش کا سرٹیفکیٹ تحفے کے طور پر لے گئے گئے تھے!۔ایک بوڑھا آدمی، جس کا دعویٰ تھا کہ وہ من موہن سنگھ کا ہم جماعت رہا ہے، مشکل سے راضی ہوا کہ اس کے نام رقعہ دے۔ میری فرمائش تو یہ تھی کہ وہ مجھے دہلی لے چلے، آنے جانے کا بس کا کرایہ میرے ذمے ، لیکن اسکے خیال میں وہ ایک مصروف انسان تھا اور میرے طور اطوار دیکھ کر وہ مجھے ایک غیر سنجیدہ شخص سمجھ رہا تھا۔واہگہ بارڈر کس طرح پار کیا۔ پار کرنے سے پہلے اور پار کرنے کے بعد کیا بیتی امرتسر میں کیا دیکھا، لدھیانہ کیسا لگا، ہریانہ کے شب و روز کیسے تھے، دہلی کیسے پہنچا، قیام کہاں کیا ان سارے سوالوں کے جواب کسی اور وقت پر اٹھا رکھتا ہوں۔ قصہ مختصر کئی دن کے انتظار کے بعد ملاقات کا وقت ملا۔ وزیراعظم کے دفتر میں داخل ہونے سے پہلے کئی مشینوں کے ذریعے مجھے اندر باہر سے چیک کیا گیا، ٹھوک بجا کر دیکھا گیا، پسلیاں گنی گئیں، کمر پر ہلکی ہلکی ضربات لگا کر اطمینان کیا گیا، جوتے اتروائے گئے، پتلون کی پیٹی سونگھی گئی میں نے اعتراض کیا تو وہی گھسا پٹا جواب کہ تمہارے ملک کے وزیر بھی امریکہ جائیں تو دونوں ہاتھ اٹھا کر تلاشی دیتے ہیں اور بڑے بڑے ٹوپیاں پیٹیاں جوتے اتار کر چیک کراتے ہیں، یہی کچھ تمہارے ساتھ ہم بھارتی کریں تو کیا فرق پڑتا ہے؟میں توقع کر رہا تھا کہ من موہن سنگھ اپنے ہم جماعت کا رقعہ دیکھ کر مجھے اپنا مہمان بنائے گا گپ شپ ہوگی لیکن وہ مجھ ایک اکڑے ہوئے بیورو کریٹ کی طرح لگا، میں نے پنجابی میں بات کی تو اس نے انگریزی میں جواب دیا۔ رہی سہی کسر اسکے سٹاف نے پوری کردی۔ ابھی ملاقات شروع ہی ہوئی تھی کہ من موہن کو بتایا گیا کہ بیس منٹ کے بعد اس نے ایک کانفرنس میں شریک ہونا ہے۔ اس کم وقت میں، میں کیا بات کرتا لیکن کچھ نہ کرنے سے پھر بھی بہتر تھا۔ میں نے اسے مخاطب کرکے کہنا شروع کیا : ’’جناب وزیراعظم! میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کو ختم کرنے کیلئے آپکی حکومت بھارت کی پچھلی حکومتوں کی طرح کوششیں کررہی ہے، بھارت کے وسائل پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے استعمال ہو رہے ہیں۔ غریب بھارتیوں کے منہ سے نوالا چھین کر کہیں دریاؤں پر بند باندھے جا رہے ہیں تاکہ پاکستان کو پانی نہ ملے۔ کہیں ایٹم بم بنائے جا رہے ہیں کہیں جہاز تعمیر ہو رہے ہیں اور کہیں ’’را‘‘ پر کروڑوں روپے خرچ کئے جا رہے ہیں میں نے یہ کہنا ہے کہ ازراہ کرم اپنے وسائل کو اس طرح ضائع نہ کریں‘‘۔میں نے دیکھا کہ من موہن کے ماتھے پر سلوٹیں نمودار ہوئیں اس نے پگڑی کو آگے پیچھے کیا۔ مونچھوں پر ہاتھ پھیرا، عینک کے شیشے کرتے کے دامن سے صاف کئے اور کہنے لگا۔ ’’کیا آپ یہ بات کہنے اتنی دور سے آئے ہیں؟اگر ایسا ہے تو آپ نے اپنا بھی وقت ضائع کیا اور میرا بھی، ہم پاکستان سے غافل نہیں رہ سکتے۔ پاکستان ہمارا ازلی ابدی پیدائشی فطری دشمن ہے۔ ہم اس کو ختم کر کے ہی دم لیں گے۔ آپ ہمارے معاملات میں دخل اندازی نہ کریں۔‘‘میں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکا وہ چپ ہو گیا۔ میرے چہرے پر اس وقت رعب تھا اور میں ایک طاقت ور بادشاہ کی طرح لگ رہا تھا۔’’من موہن جی! آپ نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے اسرائیل سے گٹھ جوڑ کر رکھا ہے، کروڑوں اربوں روپے اس ناپاک گٹھ جوڑ پر صرف کئے جا رہے ہیں۔ اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں سے آپ نے پاکستان کے حساس مقامات کے نقشے بنوائے۔ ان کی فوجوں نے آپ کے لوگوں کو تربیت دی۔ اسرائیل کا سفارت خانہ دہلی پاکستان دشمنی کا بہت بڑا گڑھ ہے، میری آپ سے گذارش ہے کہ یہ ناپاک گٹھ جوڑ فی الفور ختم کریں، اس کا آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘‘ من موہن سنگھ نے بے تابی سے پہلو بدلا۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن میں نے گرج دار آواز میں کہاکہ مجھے اپنی بات مکمل کرنے دو، اسے جیسے سانپ سونگھ گیا۔ میں نے اپنی بات جاری رکھی۔ ’’آپ نے افغانستان کو پا کستان دشمنی کا مرکز بنا دیا ہے۔ درجنوں قونصل خانے کام کر رہے ہیں۔ وہاں سے پاکستان میں در اندازی کی جا رہی ہے۔ سوات میں بھارتی پکڑے گئے ہیں۔ شمالی اتحاد کی پاکستان دشمنی کو بھارت خوب خوب استعمال کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ اب نہیں ہونا چاہئے۔’’جناب وزیراعظم! ہم پاکستانی بھارتی عوام کے دشمن نہیں! ہماری انکے ساتھ کیا دشمنی اور کیسی دشمنی؟ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ اربوں روپے جو پاکستان کے خلاف خرچ کئے جا رہے ہیں بھارتی عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کئے جائیں، لاکھوں لوگ فٹ پاتھوں پر سو رہے ہیں، تن سے ننگے، پیٹ سے بھوکے بھارتی ایک فاقہ زدہ ملک کے لٹے پٹے باشندے لگتے ہیں۔ سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ سکولوں کی چھتیں غائب ہیں، پینے کا پانی میسر نہیں اور آپ سارے وسائل پاکستان کو نقصان پہنچانے پر صرف کر رہے ہیں۔ کیا یہ حماقت نہیں؟‘‘من موہن سنگھ چلایا۔ ’’ کیا بات کر رہے ہیں آپ؟ کیا ہم اپنے دفاع سے غافل ہو جائیں؟ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے، ہم ذرا بھی غافل ہوئے تو وہ تو ہمیں کھا جائیگا، ہمیں نیست و نابود کر ڈالے گا‘‘۔میں نے خشم گیں نگاہوں سے من موہن کو دیکھا تو وہ خاموش ہوگیا۔’’من موہن جی! میں نے یہ کب کہا ہے کہ آپ اپنی سرگرمیاں ختم کر دینگے تو پاکستان محفوظ ہو جائیگا؟‘‘پہلی بار من موہن سنگھ کے چہرے پر رونق آئی۔ اسکی آنکھوں میں چمک لوٹ آئی۔ مسکراہٹ اسکے ہونٹوں سے یوں پھوٹی جیسے بدنما دھرتی سے پھول نکلتے ہیں۔… کیا مطلب؟ اگر ہم پاکستان دشمنی ختم کر دیں تو پھر بھی پاکستان کو نقصان پہنچے گا؟ دیکھیے، میں سخت بے تاب ہو رہا ہوں۔ اس کی تفصیل بتائیے، پلیز!‘‘اسکی تفصیل یہ ہے عزیزم! کہ جس ملک کو نقصان پہنچانے والے اسی ملک کی کابنیہ میں بیٹھے ہوئے ہوں، اس ملک کو کسی بھارت، کسی اسرائیل کسی شمالی اتحاد کی ضرورت نہیں، جس ملک کا وزیر خزانہ ہاتھ مل مل کر یہ کہہ رہا ہو کہ : …’’ حکومت اور اپوزیشن میں بیٹھے چینی مافیا کے اثرو رسوخ کے باعث ملک میں چینی کی مصنوعی قلت پیدا کرنیوالے عناصر پر ہاتھ ڈالنا ناممکن ہے بااثر چینی مافیا تاحال کم از کم 25 ارب روپے سے زائد خالص منافع کما چکا ہے۔ جبکہ عوام کو چینی کے حصول کیلئے لمبی قطاروں اور چلچلاتی دھوپ میں کھڑا رہنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ وفاقی کابینہ میں موجود مضبوط لابی نے گذشتہ سال نومبر میں تین لاکھ ٹن خام چینی درآمد کرنے کی سمری کی مخالفت کی تھی۔ ‘‘من موہن سنگھ صاحب! جس ملک میں بڑی بڑی سیاسی جماعتیں چینی مافیا اور آٹا مافیا کے مجرموں پر مشتمل ہوں۔ جس ملک کی کابینہ اپنے ہی عوام کو ذلیل و رسوا کرکے اربوں روپے کا ناجائز منافع کما رہی ہو اور جس ملک کا وزیر اطلاعات ان سارے قومی مجرموں کو نظر انداز کر کے عوام کو ’’تلقین‘‘ کر رہا ہو کہ ’’ دو چمچ کے بجائے ایک چمچ چینی استعمال کرو‘‘۔ اس بدقسمت ملک کو دشمنی کیلئے بھارت کی ضرورت ہے نہ اسرائیل کی اور من موہن سنگھ صاحب! پاکستانی عوام کے یہ ’’دوست‘‘ جو پاکستان کی کابینہ اور سیاسی جماعتوں میں بیٹھے ہوئے ہیں، اس قدر مضبوط ہیں کہ پاکستانی ایٹم بم بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
http://columns.izharulhaq.net/2009_09_01_archive.html
“