مائیکل فے امریکہ میں پیدا ہوا۔ باپ کا نام جارج تھا۔ آٹھ سال کا تھا کہ اس کے ماں باپ میں علیحدگی ہو گئی۔ کچھ عرصہ باپ کے پاس رہا مگر پھر سنگاپور چلا گیا جہاں اس کی ماں دوسری شادی کے بعد قیام پذیر تھی۔ مائیکل فے کا سوتیلا باپ ایک چینی تھا۔ یہاں اسے امریکی سکول میں داخل کرا دیا گیا۔ یہ اکتوبر 1993ء کی بات ہے۔ سنگاپور کے سب سے بڑے انگریزی روزنامہ ’’دی سٹریٹس ٹائمز‘‘ نے ایک رپورٹ شائع کی کہ سنگاپور میں کاروں کو نقصان پہنچانے کی وارداتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے۔ گھروں کے باہر کھڑی کی گئی کاروں پر ڈنڈے مارے جاتے ہیں۔ رنگ کھرچ دیا جاتا ہے۔ ان پر پینٹ گرایا جاتا ہے۔ ٹیکسی ڈرائیور روتے تھے کہ کوئی ٹائروں کو پھاڑ جاتا ہے۔ سٹی سنٹر میں کھڑی ہوئی کاروں پر خراشیں ڈال دی جاتیں اور ڈینٹ پڑے ہوئے ہوتے۔ کچھ شہریوں نے بتایا کہ چھ ماہ میں انہیں چھ بار کار کی مرمت کرانا پڑی۔
سنگاپور کی پولیس‘ جو مستعد ہونے میں کسی بھی ملک کی پولیس سے پیچھے نہیں‘ خفیہ تفتیش میں لگ گئی اور آخرکار امریکی سکول کے غیر ملکی طالب علموں کو جا پکڑا۔ پچاس سے زیادہ وارداتوں میں اسی سکول کے لڑکے ملوث تھے۔ انہی میں مائیکل فے بھی تھا۔ اس نے اعتراف کیا کہ کاروں کو نقصان پہنچانے کے علاوہ‘ شاہراہوں پر لگائے گئے ٹریفک کے نشانات والے بورڈ بھی وہی چراتا رہا۔ سنگاپور کے قانون کے مطابق مائیکل فے کو عدالت نے چار ماہ کی قید‘ ساڑھے تین ہزار ڈالر جرمانے اور چھ بید کی سزا سنائی۔ سنگاپور میں ملزموں کو بید مارے جاتے ہیں۔ مقامی لڑکوں کو بھی اسی قسم کی سزائیں سنائی گئیں۔
ایک امریکی لڑکے کو بید مارنے کی سزا؟ خبر نشر ہوئی تو امریکہ میں تہلکہ برپا ہو گیا۔ سنگاپور میں تعینات امریکی سفیر نے احتجاج کیا کہ کاروں کو پہنچایا گیا نقصان عارضی تھا جب کہ ’’بچے‘‘ کی جلد پر مستقل نشان پڑ جائیں گے۔ امریکی پارلیمنٹ کے دو درجن ارکان نے سنگاپور حکومت کو نظرثانی کی درخواست بھیجی۔ اس وقت امریکہ میں کلنٹن صدر تھا۔ اس نے سنگاپور حکومت سے خود رابطہ کیا اور بید مارنے کی سزا معاف کرنے کی درخواست کی۔ سنگاپور حکومت کا موقف واضح تھا۔ سنگاپور کے شہریوں کو بھی اس جرم کی سزا یہی دی جاتی تھی۔ اس سزا ہی کا ثمر تھا کہ سنگاپور میں املاک کو نقصان کوئی نہیں پہنچاتا۔ سنگاپور کے میڈیا نے حیرت کا اظہار کیا کہ امریکی صدر انتہائی اہم امور چھوڑ کر اس معاملے میں ذاتی مداخلت کر رہا ہے۔ تو کیا اس کے پاس اتنا فالتو وقت ہے۔ صرف یہ کیا گیا کہ کلنٹن کی ذاتی مداخلت کا بھرم رکھنے کے لیے سنگاپور کے صدر نے چھ بید کی سزا کم کر کے چار بید کردی۔
مئی 1994ء کو مائیکل فے کو چار بید مارے گئے۔ بید مارنے سے پہلے اس کے کپڑے اتار دیے گئے۔ اسے لکڑی کے فریم پر اس طرح باندھ دیا گیا کہ وہ آگے کو جھکا ہوا تھا۔ گُردوں والی جگہ پر پیڈ باندھ دیے گئے تاکہ وہاں ضرب نہ لگے۔ ہر مجرم کے ساتھ اسی طرح کیا جاتا ہے!
اب آپ فرض کیجیے کہ سنگاپور کے بجائے یہ واقعہ پاکستان میں پیش آتا ہے۔ پاکستانی قانون کی رو سے امریکی مجرم کو بید مارنے کی سزا سنائی جاتی ہے۔ دو درجن امریکی ارکان پارلیمنٹ مراسلہ لکھتے ہیں۔ امریکی صدر‘ پاکستانی وزیراعظم سے ذاتی طور پر معافی کی درخواست کرتا ہے۔ پھر نقشے پر پاکستان کو دیکھیے اور سنگاپور کو بھی۔ پورا سنگاپور لاہور جتنا ہوگا یا اس سے بھی کم! محل وقوع بھی بین الاقوامی سیاست میں چنداں اہمیت کا حامل نہیں! ایٹمی طاقت تو کجا‘ روایتی عسکری قوت بھی کوئی خاص نہیں۔ امریکہ کو تو چھوڑیے‘ ملائیشیا یا انڈونیشیا ہی چند گھنٹوں میں قبضہ کر سکتے ہیں! تو پھر آپ کا کیا خیال ہے کہ پاکستان بھی سنگاپور کی طرح ڈٹ جائے گا؟
اس سوال کا جواب آپ کو معلوم ہے‘ مجھے بھی اور پانچویں جماعت کے بچے کو بھی! امریکی صدر؟ ہاہاہا! امریکہ کا تو سیکشن افسر ہی اس معاملے کو ٹھپ کرانے کے لیے کافی ہوگا! وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ سنگاپور کے پاس ایٹم بم تھا نہ فوج‘ نہ جغرافیائی اہمیت‘ لیکن اُس کے پاس لی تھا! لی کوآن ییو! وہ تیس سال سنگاپور کا وزیراعظم رہا! تیس سال میں اس نے اپنی جائداد میں اضافہ کیا نہ بھائی کو نہ بھتیجے کو نہ صاحبزادی کو اور نہ داماد کو سرکاری امور میں مداخلت کی اجازت دی۔ اس نے کوئی ذاتی کارخانہ لگایا نہ ملک سے باہر سرمایہ لے گیا۔ اس کے پاس جدہ میں محل تھا نہ انگلستان میں‘ فرانس میں نہ امریکہ میں! وہ بڑی سے بڑی دعوت میں بھی نوڈل کی ایک پلیٹ یا پیالے میں تھوڑے سے چاول لے کر کھا لیتا! اس کا ایک ہی شوق تھا‘ زندگی کا ایک ہی مقصد تھا‘ ایک ہی دھن تھی! کہ سنگاپور کو دنیا کے لیے قابلِ رشک ملک بنا دے۔ وہ اس کوشش میں کامیاب ہو گیا! افسوس! صد افسوس! ہیہات! ہیہات! ہماری قسمت میں کوئی لی نہیں! ہوتا تو ہم بھی امریکہ کے سامنے ڈٹ جاتے!!
تین دن پہلے پیر کے دن‘ صبح تین بج کر اٹھارہ منٹ پر 91 سالہ لی وفات پا گیا۔ پاکستانی اخبارات کے ایک گوشے میں چھپنے والی یہ خبر کسی اہمیت کی حامل نہ تھی! مگر یہ بات کہ لی نے سنگاپور کو سنگاپور کس طرح بنایا‘ ہمارے ملک کے لیے بہت اہم ہے! ہمارے لیے اس میں کئی سبق ہیں!
لی وزیراعظم بنا تو اس وقت سنگاپور مچھروں سے بھری ہوئی ایک ساحلی بستی تھی۔ جس میں مچھیرے تھے‘ مزدور تھے اور کھوکھے اور ریڑھیاں تھیں! مدقوق‘ لاغر چینی عورتیں ٹرالیاں دھکیلتی تھیں۔ گندی پیالیوں میں یہ لوگ دن بھر چائے سڑکتے رہتے تھے! چینی‘ انڈین اور ملے (ملائیشیا کے اصل باشندے) آپس میں نسلی فسادات کر کے ایک دوسرے کو مارتے رہتے تھے۔ تعلیم برائے نام تھی۔ گلیوں میں پانی کھڑا رہتا تھا۔ لی نے اسے ایک صاف ستھرا‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ ملک بنا دیا اور ایشیا کے سب سے بڑے مالیاتی مرکز میں تبدیل کردیا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ میں تیسری دنیا کے صحرا کے درمیان‘ پہلی دنیا (فرسٹ ورلڈ) کا ایک نخلستان تراش رہا ہوں! اُس کے وژن کا اندازہ لگایئے کہ اس نے رہائشی بلاکوں میں چینیوں‘ ہندوستانیوں اور ملے باشندوں کے گھروں کی تعداد متعین کردی! ’’ہم نسلی بنیادوں پر الگ الگ آبادیوں کو برداشت نہیں کر سکتے‘‘ چینی کا پڑوسی انڈین تھا اور انڈین کا پڑوسی ملے! آج سنگاپور میں نسلی اضطراب کا نشان تک نہیں! وہ سنگاپور کو بہت جلد ہانگ کانگ کے مقابلے میں لے آیا۔ قوانین پر اتنی سختی سے عملدرآمد ہوتا کہ سڑک غلط جگہ سے پار کرنے اور بیت الخلا میں فلش کی ٹنکی کا بٹن دبا کر کموڈ صاف نہ کرنے پر بھی بھاری جرمانہ ہوتا۔ ملک میں چیونگ گم کھانے کی اجازت نہ تھی! ایک برطانوی صحافی نے اعتراض کیا کہ چیونگ گم چبانے سے سوچنے میں مدد ملتی ہے۔ لی نے جواب دیا کہ اگر چبائے بغیر سوچنا مشکل ہے تو کیلا ٹرائی کرو! صرف تین عشروں میں اس نے سنگاپور کو ایشیا کا ٹائیگر… کاغذی ٹائیگر نہیں… اصلی ٹائیگر بنا دیا۔ کل قومی پیداوار فی کس کے اعتبار سے سنگاپور دنیا میں تیسرے نمبر پر آ گیا۔ شہر صاف ستھرا ہو گیا۔ مذہبی جھگڑے رہے نہ نسلی! جب اعتراض ہوا کہ قوانین سخت ہیں تو لی کا جواب تھا کہ سنگاپور جیسے ملک میں جہاں مختلف نسلوں کے لوگ رہتے ہوں‘ سخت قوانین لازم ہوتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا ’’اگر کوئی سمجھتا ہے کہ مجھے قابو کر لے گا تو میں لوہے کا پنجہ پہن کر تنگ گلی میں اسے پکڑ لوں گا۔ چینی معاشرے کو کنٹرول کرنے کا یہی طریقہ ہے‘‘۔ لی نے آزاد تجارت کی پالیسی اپنائی۔ تاجروں کی سرپرستی کی۔ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ شہر میں اصلاحات نافذ کیں۔ گندی آبادیوں پر بُل ڈوزر پھروا دیے۔ اس نے مجرموں کو جیل میں رکھنے کے لیے سخت قوانین پاس کروائے۔ ’’زبان کا اور مذہب کا تعصب پھیلانے والوں کو ہم کھلا نہیں چھوڑ سکتے‘‘۔ اس نے واضح پالیسی بتا دی۔ ’’ایسے انتہا پسندوں کے ساتھ سختی نہ کی تو ملک تباہ ہو جائے گا!‘‘
آپ حیران ہوں گے کہ سنگاپور میں بندوق یا ریوالور کی گولی چلا کر جرم کرنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا! ایک اونس سے زیادہ منشیات لانے یا لے جانے پر موت کی سزا ہے۔ جرم کرتے وقت اگر گولی چلائی جائے تو کسی شخص کو گولی لگے یا نہ لگے‘ محض گولی چلانے کی سزا موت ہے! لی کے وژن کی ایک اور مثال دیکھیے۔ ایشیائی مرد‘ فطرتاً ایسی بیوی پسند نہیں کرتا جو اُسی جتنی تعلیم یافتہ ہو یا اُس سے زیادہ لائق ہو۔ سنگاپور میں جب اعلیٰ تعلیم یافتہ عورتوں سے شادیاں کرنے والوں کی تعداد کم ہوئی تو لی نے دنیا میں پہلا سرکاری میرج بیورو قائم کردیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ عورتوں سے بچے زیادہ پیدا ہونے چاہئیں کیونکہ تعلیم یافتہ ماں اور دوسری ماں کی اولاد میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ اس کا قول تھا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ مائوں سے بچے نہ پیدا ہوئے تو یہ معاشرہ احمقوں کا معاشرہ بن جائے گا!
تیس سال بعد 1990ء میں لی نے وزارت عظمیٰ خود ہی چھوڑ دی مگر اگلے بیس سال اس کی رہنمائی سنگاپور کو حاصل رہی۔ وہ سینئر وزیر رہا۔ پھر اس کا بیٹا منتخب ہو کر وزیراعظم بنا۔ یوں پالیسیوں کا تسلسل… جو ایک نعمت سے کم نہیں… سنگاپور کو ترقی کے بلند سے بلند تر زینے پر لے جاتا رہا!
لی نے مغربی جمہوریت اور مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کو ایشیائی ملکوں کے لیے غیر موزوں قرار دیا۔ اس نے عملاً ان تصورات کے پرخچے اڑا کر رکھ دیے! کسی تنقید کی پروا کی نہ کسی معترض کی۔ اسے کسی قسم کے احساس کمتری کا عارضہ لاحق نہ تھا! لی نے جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کو اپنے ملک کے حالات کے مطابق کس طرح تبدیل کیا؟ ہم لی کے تجربوں سے پاکستان میں کس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ ہمیں اس ضمن میں کیا کرنا ہوگا؟
ان سوالوں کے جواب ہم اگلی نشست میں پیش کریں گے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“