نجران جو مشہور تاریخی شہر ہے۔ عہد رسالت میں یہ شہر عیسائیت کا مرکز تھا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت یہاں پہنچی تو یہ لوگ ایک وفد کی صورت میں مدینہ حاضر ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بہت اچھا سلو ک کیا اور ان کے رہنے کا انتظام مسجد نبوی میں کیا۔ ان کو اللہ تعالیٰ کے آخری دین کی دعوت دینے کے لئے سورہ آل عمران کی آیات نازل ہوئیں۔ سیدہ مریم رضی اللہ عنہا اور سیدنا عیسی علیہ الصلوة والسلام کی سیرت اور دعوت کو تفصیل سے بیان کرنے کے بعد ان پر اتمام حجت کے لئے آیت مباہلہ نازل ہوئی:
إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ. الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَلا تَكُنْ مِنْ الْمُمْتَرِينَ. فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ… قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللَّهَ وَلا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئاً وَلا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً أَرْبَاباً مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ. اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے کہ اللہ نے اسے مٹی سے پیدا کیا اور حکم دیا کہ (زندہ) ہو جا اور وہ ہوگیا۔ یہ اصل حقیقت ہے جو تمہیں تمہارے رب کی جانب سے بتائی جارہی ہے تو تم شک کرنے والوں میں سے نہ ہونا۔ یہ علم آ جانے کے بعد اگر کوئی آپ سے اس معاملے میں بحث کرے تو آپ فرمائیے: اؤ ہم اور تم خود بھی آ جائیں اور اپنے بال بچوں کو بھی لے آئیں اور خدا سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر خدا کی لعنت ہو۔۔۔۔
اے اہل کتاب! اؤ ایسی بات کی طرف جو تمہارے اور ہمارے مابین مشترک ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔اور ہم میں سے کوئی کسی اور اللہ کے سوا اپنا رب نہ بنائے۔ “(اٰل عمران 3:59-64 )
چونکہ یہ لوگ اہل کتاب تھے اور اللہ تعالی کے اس قانون سے واقف تھے کہ وہ اپنے رسول کے مقابلے میں کسی کو کامیاب نہیں ہونے دیتا اس لیے یہ مقابلے پر نہ آئے اور جزیہ دینا قبول کیا۔
۔ یہاں ایک بہت بڑا میوزیم ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ سائٹ ہے جسے اصحاب اخدود کی سائٹ کہا جاتا ہے۔ یہ قدیم یمنی تہذیب کا ایک اہم شہر ہے۔ اصحاب اخدود دراصل یہودی تھے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیجسے لی گئی ہے۔
“