اپنے موضوع پر اردو زبان میں لکھی گئی پہلی کتاب
’’ نجمی شفائی توانائی ‘‘
:تبصرہ نگار
مہتاب عالم مہتاب
زمانۂ قدیم سے ہی انسان اپنی صحت و تندرستی برقرار رکھنے اور بیماری سے نجات حاصل کرنے کے لئے نت نئے طریقے تلاش کرتا رہا ہے، خاص طور پر ایسے طریقے جو کہ نظام قدرت کے قریب تر ہوں اور جن کے مضر صحت اثرات بھی کم سے کم ہوں۔ انسان کی اسی تحقیق و جستجو کے نتیجے میں آج ہم کئی اقسام کے طریقۂ علاج سے واقفیت حاصل کرچکے ہیں جن میں ایلوپیتھک، ہومیو پیتھک، حکمت، فزیوتھراپی اور ایکوپنکچر وغیرہ جیسے طریقۂ علاج شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ غیر مادی طریقۂ علاج جیسے، علاج بذریعہ رنگ و روشنی علاج بذریعہ مقناطیسی قوت، علاج بذریعہ ہپناسس اور علاج بذریعہ ریکی وغیرہ جیسے طریقۂ علاج بھی شامل ہیں۔
ریکی طریقۂ علاج اب سے تقریباََ سو سال پہلے ڈاکٹر میکاؤ اُوسوئی نے متعارف کرایا تھا جو کہ عیسائی مذہب کے ماننے والے تھے اور جن کا تعلق ملک جاپان سے تھا۔ وہ بدھ مذہب سے بھی کافی واقفیت رکھتے تھے کیونکہ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم بدھ مذہب کے خانقاہی اسکول سے حاصل کی تھی۔لفظ ریکی دو الفاظ ’’رے‘‘ اور ’’ کی ‘‘ سے مل کر بنا ہے جس کا مطلب ہے کائناتی قوت حیات، لہٰذا اس طریقۂ علاج کا ماہر متاثرہ مریض کے جسم پر ہاتھ رکھ کر روحانی طریقے سے کائناتی قوت حیات کو مریض کے جسم میں منتقل کرتا ہے جس کے نتیجے میں مریض کو آرام ملتا ہے اور اس کا مرض دور ہوتا ہے۔
ریکی ایک روحانی سائنسی علم ہے جس میں صرف کائناتی قوت پر بحث کی جاتی ہے ریکی کے ماہرین فرماتے ہیں کہ ریکی کا تعلق کسی مذہب یا عقیدے سے نہیں ہے۔ تو پھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس علم کا تعلق براہ راست خدا سے بھی نہیں ہے کیونکہ خدا کے تصور کے ساتھ ساتھ کوئی نہ کوئی مذہب بھی ضرور زیر بحث آتا ہے۔ ریکی کے دو درجے ہوتے ہیں پہلے درجے میں ریکی معالج مریض کے جسم پر ہاتھ رکھ کر علاج کرتا ہے اور دوسرے درجے میں دور سے علاج کیا جاتا ہے۔ریکی طریقۂ علاج آج دنیا کے بیشتر ممالک میں خاص طور پر یورپ اور امریکہ کے ممالک میں جانا جانے لگا ہے اور ان ممالک میں اس کے تربیتی مراکز بھی قائم ہیں۔
آج اگر ہم انٹرنیٹ پر دیکھیں تو ریکی ہیلنگ اور روحانی ہیلنگ سے متعلق سینکڑوں ویب سائٹس نظر آئیں گی جن میں بھاری اکثریت میں غیر مسلم اقوام کے افراد اس سلسلے میں فعال نظر آئیں گے چند مسلمان حضرات بھی اس سلسلے میں انٹرنیٹ پر نظر آئیں گے لیکن وہ بھی صرف ریکی ہی کا راگ الاپتے ہوئے نظر آئیں گے جبکہ روحانی علم اور تصوف تو مسلمانون کا خاص ورثہ رہا ہے پھر بھی اب تک مسلمانوں کی جانب سے روحانی سائنسی میدان میں اس طرح کا کام کیوں نہیں کیا جا سکا ؟۔ روحانی علاج کے سلسلے میں اب تک دم درود، جھاڑ پھونک، عملیات، تعویذات اور وظیفے وظائف کے حوالے سے ہمارے بزگان دین نے کافی کام کیا ہے۔حال ہی میں روحانی سائنسی علاج پر ایک نئی علمی کتاب منظر عام پرآئی ہے جس کا تعارف روحانیت سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کے لئے خاص طور پر دلچسپی اور مسرت کا باعث ثابت ہوگا۔
نجمی شفائی توانائی جسے انگریزی میں نجمی ہیلنگ انرجی بھی کہتے ہیں ایک اسلامی روحانی سائنسی شفائی علم ہے جس کے خالق ڈاکٹر سیّد شہزاد علی نجمی ہیں جنہوں نے ایک کتاب’’ نجمی شفائی توانائی ‘‘ کے عنوان سے تالیف کی ہے جو کہ الصحت فاؤنڈیشن کی جانب سے جولائی سن ۲۰۱۳ء کو رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں شائع کی جاچکی ہے جو کہ مولف کے دس سالہ عملی تجربات و تحقیقات کا نچوڑ ہے اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب نے شفاء کو منجانب اللہ تعالیٰ کے قرار دیا ہے اور ہر قسم کے علاج کو محض شفاء کا ذریعہ قرار دیا ہے اس کتاب کو اپنی نوعیت کے لحاظ سے اردو زبان میں لکھی گئی دنیا کی پہلی اسلامی روحانی سائنسی کتاب ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔
امید ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی تالیف ’’نجمی شفائی توانائی‘‘ اسلامی روحانی علم کے فروغ اور ترقی و ترویج میں ایک اہم پیش رفت ثابت ہوگی اور اس سلسلے میں ڈاکٹر سیّد شہزاد علی نجمی دلی مبارک باد کے مستحق بھی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے دس سالہ تجربات کے دوران بلامعاوضہ بہت سارے مریضوں کو اس علم سے شفایاب کیا اور بغیر کسی معاوضے کے اپنے کئی شاگرد بھی بنائے جن سے بہت سے لوگوں کو کافی فائدہ ہوا اس بات کا تذکرہ انہوں نے اپنی کتاب میں تجربات کے عنوان سے لکھے گئے باب میں بھی تحریر کیا ہے ڈاکٹر صاحب نے نجمی شفائی توانائی کے علم کو چار درجوں میں منقسم کیا ہے۔
جس میں درجہ اوّل ناسوتی کہلاتا ہے اس درجے سے عام طور پر عام مادی بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے جبکہ درجہ دوئم ملکوتی کہلاتا ہے اس درجے سے نفسیاتی و روحانی بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے اور درجہ سوئم جو کہ جبروتی کہلاتا ہے اس سے ہر قسم کے منفی ماورائی اثرات جیسے نظربد، جادو ٹونہ، جن، آسیب وغیرہ جیسے اثرات کا خاتمہ کیا جاتا ہے اور اسی طرح سے درجہ چہارم جو کہ لاہوتی کہلاتا ہے اس کے ذریعے سے مریضوں کا دور دراز سے علاج کیا جاتا ہے خواہ مریض دنیا کے کسی بھی حصے میں ہی کیوں نہ ہو بذریعہ فون رابطے کے ذریعے سے مریض کاعلاج کیا جاتا ہے اس علم کو ہر کوئی با آسانی سیکھ سکتا ہے جو خدا کی ذات پرایمان رکھتا ہو بس خلوص نیت خدمت خلق اور انسانی ہمدردی کا جذبہ صادق ہونا شرط ہے۔
بشکریہ ماہنامہ نفاذ اردو نومبر ۲۰۱۳ ء
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...