کمرہ لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ ماحول پر سوگواری طاری تھی۔ سرگوشیوں کے باعث مکھیوں کی سی بھنبھناہٹ کمرے میں گونج رہی تھی۔ ایک طرف خواتین آنسو بہا رہی تھیں تو دوسری طرف مرد سنجیدہ شکلیں بنائے کھڑے تھے۔ پنکھے کی تیز ہوا اور فرش پر موجود برف کے بلاک کمرے کی ٹھنڈک میں اضافہ کر رہے تھے۔ کمرے کے بیچوں بیچ ایک چارپائی موجود تھی اور اس چارپائی پر سفید چادر سے ڈھکی اور سفید کفن میں لپٹی ہوئی میت اس بات کی منتظر تھی کہ آخری دیدار کی رسم شروع ہو۔ نماز جنازہ کا وقت بھی قریب قریب ہو چلا تھا۔ غفور، جو تھوڑی دیر پہلے ہی جنوبی افریقہ سے پہنچا تھا ، نے میت کے منہ پر سے چادر ہٹائی ۔ کفن کا بند کھول کر چہرہ دیکھااور ساتھ ہی اس کے منہ سے چیخ کے انداز میں نکلا۔ "اوئے! اباجی کتھے گئے؟"
کمرے میں ہلچل مچ گئی۔ ایک دم سے لوگ جھپٹ کر آگے آنے کی کوشش میں ایک دوسرے سے بری طرح ٹکرائے اور کئی لوگ لڑکھڑا کر گرے۔ ایک فربہ عورت کے منہ سے بلند آواز میں ناقابل اشاعت الفاظ برآمد ہوئے اور کمرہ مچھلی منڈی کا منظر پیش کرنے لگا۔ غفور، جس نے میت کے منہ سے چادر ہٹائی تھی وہ بے یقینی سے چادر کے نیچے سے برآمد ہونے والی شکل کو گھور رہا تھا۔ اس کی سمجھ سے باہر تھا کہ اس کے اباجی کی جنس کیسے بدل گئی اور وہ کیسے بعد از مرگ ایک عورت میں تبدیل ہو گئے۔ مردہ خانے سے میت وصول کر کے لانے والے محلے کے نوجوان موقعے کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے چپکے سے وہاں سے کھسکنے کے چکر میں تھے کہ اسی فربہ عورت نے ان میں سے ایک کی کلائی کو مضبوطی سے جکڑ لیا اور بلبلائی۔ "اوئے کتھے گئے میرے ابا جی؟"۔ جس کی کلائی قابو میں آ گئی تھی وہ آناً فاناً سمجھ گیا کہ ان سے غلطی ہو گئی ہے اور وہ مطلوبہ اباجی کی بجائے ناقابل قبول اماں جی کو اٹھا لائے ہیں ۔ یہ صورت حال خاصی سنگین تھی خاص طور پر جب کہ حقیقی اماں جی بقائمی ہوش و حواس اپنے سر کے تاج کے کھسک جانے کے غم میں پچھاڑیں کھا رہی تھیں۔ اباجی کی عدم موجودگی کا غلغلہ بلند ہوتے ہی حقیقی اماں جی نے پچھاڑیں کھانے کا ارادہ مؤخر کیا اور لپکتی ہوئی آگے آئیں۔ مرحومہ کے چہرے کو بغور دیکھا اور اس سے پہلے کہ کوئی کچھ کہتا حقیقی اماں جی نے حاضرین کا لحاظ کیے بغیر ناقابل اشاعت الفاظ میں ابا جی مرحوم و مغفور اور تصوراتی اماں جی مرحومہ کے درمیان موجود تعلقات کا انکشاف کردیا۔ نیز کہاکہ انہیں پہلے سے ہی معلوم تھا کہ حاجی صاحب کی وفات حسرت آیات ہی ہو گی۔ انہیں چین و سکون سے سفر آخرت نصیب نہ ہو گا۔
سوگوار ماحول دیکھتے ہی دیکھتے اشتعال کا شکار ہو گیا تھا۔ ابا جی کی اکلوتی اور غیر شادی شدہ بیٹی محلے کے نوجوان کی کلائی تھامے مسلسل گریہ و زاری میں مصروف تھی اور ساتھ ساتھ موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئےمٹھی میں موجود کلائی کو نرمی سے دبائے بھی جا رہی تھی۔ جبکہ ابا جی کا بیٹا غفور ابھی تک اس میت کو گھور رہا تھا جو چادر کے نیچے سے برآمد ہوئی تھی۔ منجھلے بیٹے کی بیوی نے اپنے خاوند کی محویت کو تاڑ لیا اور کچکچائی۔ "منے کے ابا"۔ منے کا ابا چونک کر بیوی کی جانب پلٹا اور بیوی کی خونخوار نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے چادر کا کونا اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ تب محلے کا وہ نوجوان جو فرار ہونے کی کوشش میں دھر لیا گیا تھا بولا۔ "بھائی غفور۔ قسم سے اس میں ہماری غلطی نہیں ہے۔ سردخانے والوں نے جو میت ہمارے حوالے کی ہم اسے اٹھا لائے"۔ جنوبی افریقہ پلٹ منے کا ابا عرف بھائی غفور غرا کر بولا۔ "ابے تو پہلے منہ تو دیکھ لیتے کہ کفن کے اندر کون ہے۔ اب تیرے باوا کا مردہ لا کے دفنائیں گےکیا؟"۔ یہ سنتے ہی ہر کسی نے اپنی اپنی بولنی شروع کر دی۔ کوئی کسی کی نہیں سمجھ پا رہا تھا۔ ایک ادھیڑ عمر شخص نے معاملے کو سلجھانے کی غرض سے اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا اور بولا۔"ارے کمبختو ! حرامزادو! اب دیر مت کرو۔ اس میت کو فوراً واپس سرد خانے لے جاؤ اور حاجی صاحب کو لے کر آؤ۔" منے کے ابا عرف بھائی غفور کی عقل میں بات آ گئی۔ اس نے فوراً سرد خانے سے میت لانے والے چاروں ضاکار نوجوانوں کو اکٹھا کیا اور میت والی چارپائی اٹھوائی۔ خیر دین کی پیچھے سے کھلی ہوئی سوزوکی میں اسے رکھ کر پانچ لوگوں کا جلوس جھٹ پٹ سردخانے جا پہنچا۔ مردہ خانہ کے کلرک کو مدعے کا پتا چلا تو ماننے سے انکار کر دیا۔ اس کا مؤقف تھا کہ صندوق نمبر 13 میں حاجی صاحب ہی آرام فرما تھے اور انہی کی میت دی گئی تھی۔ قریب تھا کہ ماراماری ہو جاتی کہ مردہ خانہ کا انچارج دفتر سے باہر آیا۔ معاملہ اس کے سامنے پیش ہوا۔ آدمی معاملہ فہم تھا۔ فوراً بھائی غفور کے لے کر کولڈ روم کی طرف چلا اور اجازت دے دی کہ اچھی طرح تلاش کر لو اگر حاجی صاحب مل جاتے ہیں تو لے جاؤ۔ ان لوگوں نے مردہ خانہ چھان مارا مگر حاجی صاحب کا مردہ نہ ملنا تھا نہ ملا۔ پھر کلرک کے گلے پڑے تو معلوم پڑا کہ اس دن تین مردے لے جائے گئے تھے۔
مردہ خانہ والوں نے خاتون کی میت واپس لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ جس کے ساتھ کا مردہ تبدیل ہوا ہے اس کے ساتھ آؤٹ آف مردہ خانہ سیٹل منٹ کر لی جائے۔ اب یہ جلوس بھاگم بھاگ پہلے پتے پر پہنچا۔ وہاں پتا چلا کہ ان کا مردہ ان کا اپنا ہی تھا۔ چناچہ اب دوسرے پتے کا قصد کیا۔ وہاں پہنچے تو جنازہ اٹھ چکا تھا۔ منے کے ابا عرف غفور بھائی کا دل ڈوبتے ڈوبتے بچا۔ ان لوگوں سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اللہ جانے کون سی روایات کے اسیر تھے کہ خاندان میں خاتون کا انتقال ہو جائے تو کفن کے بند باندھ دینے کے بعد دوبارہ کھول کر چہرہ دیکھنے کا رواج نہ تھا۔ غفور کو غش آ گیا کہ ابا جی تو ہاتھ سے گئے۔ مسجد پہنچے تو نماز جنازہ کب کی ہو چکی اور میت تدفین کے لیے لے جائی جا چکی تھی۔ فٹافٹ قبرستان پہنچے تو لحد پر پانی چھڑکا جا رہا تھا اور سرہانے موجود پھٹے والی تختی پر لکھا تھا "مسماۃ نیک پروین "۔
غفور سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ ابا جی کو سرد خانے میں رکھوایا ہی اس لیے تھا کہ اسے جنوبی افریقہ سے پہنچتے دو دن لگ جانے تھے۔ وہ اباجی مرحوم و مغفور کا آخری دیدار کرنا چاہتا تھا مگر ابا جی نے زندہ ہوتے بھی اسے کبھی منہ نہیں لگایا تھا اور اب بھی منہ دکھائے بغیر نیک پروین کی قبر میں جا لیٹے تھے۔ نیک پروین کے لواحقین کو بتایا گیا کہ نیک پروین ہمراہ ہے جبکہ دبا حاجی عبدالشکور کو دیا گیا ہے۔ وہ بھی پریشان ہوئے مگر قبر کھولنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ قبرستان میں ہی مشاورتی کمیٹی کا اجلاس بیٹھ گیا اور غور و خوض کے بعد متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ جو ہوا سو ہوا۔ نیک پروین کو حاجی صاحب کے خاندانی قبرستان میں ان کے لیے مختص جگہ پر ہی دفن کردیا جائے تو بہتر ہے۔ مردے کو زیادہ تکلیف دینا بھی مناسب نہ تھا۔ چناچہ نہ چاہتے ہوئے بھی نیک پروین کو سیدھا حاجی صاحب کی قبر میں پہنچا دیا گیا۔ غفور دل ہی دل میں حساب جوڑ رہا تھا کہ نیک پروین کے آخری دیدار کے لیےجنوبی افریقہ سے پاکستان آنے اور واپس جانے پر کتنے روپے پلے سے نکل گئے ۔ نقصان کا موٹا موٹا تخمینہ لگانے پر وہ اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکا اور اس نے قبرستان میں ہی رضاکار نوجوانوں کے خاندان کی خواتین کے ساتھ اپنے مختلف رشتوں کا اعلان باآواز بلندکر دیا۔ وہ بے چارے کیا کہتے ۔ غلطی بھی ان کی ہی تھی چناچہ خاموش رہے۔
حاجی صاحب کے لواحقین آج بھی نیک پروین کی قبر پر فاتحہ پڑھتے اور اگر بتیاں جلاتے ہیں۔ جبکہ حاجی صاحب کی قبر پر دو گز لمبی گھاس اگی ہوئی ہے۔ اور مردہ خانے کا کلرک کل ہی ترقی پا کر اسسٹنٹ انچارج بن گیا ہے۔
نوٹ: یہ کہانی کچھ عرصہ قبل پیش آئے اس واقعے سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے جس میں کراچی میں مردہ خانے والوں نے غلطی میتیں تبدیل کر دی تھیں اور بعد میں واپس لینے سے انکار کر دیا تھا۔
“