نیک ہونے کا خبط اور سسٹم کی تباہی:
کسی کو نیک ہونے کا خبط ہوجائے، تو سمجھو نہ صرف وہ اپنی زندگی برباد کرلے گا، بلکہ آس پاس کے لوگوں کا سکون بھی چھین لے گا۔یہ آپ کا عام مشاہدہ ہوگا۔ اسی طرح پاکستانیوں کو 'دیانت دار ملک' بنانے کے خبط میں مبتلا کردیا گیا۔ دن رات اور سالہا سال کا عمرانی اسٹائل پروپیگنڈا کرایا گیا ۔ جو بات آپ دن رات سنتے ہوں وہی سب سے بڑی سچائی ہوجاتی ہے۔
بیوروکریسی کیا کرتی ہے، اسے جب بھی سیاسی لیڈرشپ کی طرف سے دباو آتا ہے، کہ سسٹم کو 'شفاف اور نیک' یعنی کرپشن فری کرنا ہے۔ بیوروکریسی ضوابط، چیکس، منظوریوں، اپروولوں، انسپیکشنوں، مختلف ڈیپارٹمنٹوں کی مداخلت کا نظام پیچیدہ سے پچیدہ کرتی چلی جاتی ہے۔ اس احمق قوم کو پتا نہیں لگتا، کہ اس طرح ہم نیک ہونے کے چکر میں پورے سسٹم کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔ اس سے کام ہی انتہائی سست ہو جائے گا۔۔۔رکاوٹیں، اور اداروں کی Requirements ہی بے شمار ہوچکی ہونگی، کہ کسی پراجیکٹ کی تکمیل ہی سالہا سال پرٹل جائے گی، اور مزے کی بات کہ کرپشن پہلے سے بھی زیادہ ہوچکی ہوگی۔۔کیونکہ افسرون اور محکموں کا دخل ہی بڑھ چکا ہوگا۔ پراجیکٹوں کے بجٹ Laps ہوجاتے ہیں۔ اور وہ اگلے سال پرپڑ جاتے ہیں۔ اب عمومی طورپر ایک پوری کرپٹ اور نالائق قسم کی قوم ہے۔وہاں یہ سب کچھ ہورہا ہے۔ ہوگا یہ کہ ڈیلیوری والی سائڈ انتہائی متاثر ہوکررہ جائے گی۔ کچھ بھی ہوتا نظر نہ آئے گا۔
اس پچیدیگی سے نکلنے کے لئے شہباز شریف نے یہ حل نکالا، کہ سروس میں موجود سرکاری افسروں پر مشتمل سیمی حکومتی کارپوریٹ قسم کی کمپنیاں بنائی۔ ان کو تنخواہوں کے علاوہ معقول اضافی پیکیج دیئے۔ وہ جو پچیدہ قواعد و ضوابط، کلئیرنسیں وغیرہ تھی، کچھ کوبائی پاس کیا، کچھ ذاتی اثر رسوخ سے جلدی کلئیر کرایا۔۔ تاکہ جو بھی پراجیکٹ ہے، وہ چند مہینوں یا ایک دو سال میں بن کرتیار عوام کے سامنے ہو۔ اس کا نام رکھا گیا۔ 'شہباز شریف سپیڈ'۔ پنجاب میں جتنا بھی پچھلے چند سال میں دکھائی دینے والا انفراسٹرکچر کا کام ہوا ہے۔ وہ اسی 'سپیڈ' کی دین ہے۔
ورنہ یہ سارا بجٹ ہضم بھی ہوجانا تھا، اور بننا بھی کچھ نہ تھا۔ میں اسی لئے کہتا ہوں، کرپشن پر لعنت بھیجو، کام، ڈیلیوری، پرفارمنس، نتیجہ مانگو،
اب عمران جیسے نیکی کے پیغمبروں نے کرپشن، لوٹ مار، چور، ڈاکو کا اتنا شور برپا کردیا۔ جنرل تو چاہتے ہی سویلین سائڈ کو زلیل کرنا۔ انہوں نے سپریم کورٹ اور نیب کو بھی اسی ایجنڈے پرلگا دیا۔ نہ صرف حکومتی بساط لپیٹی، سیاسی قیادت پرمقدمے پرمقدے پیشیوں پرپیشیاں، بیوروکریسی کی گرفتاریں، انکوائریاں، پرانی ادا شدہ تنخواہوں کی واپسی کے ظالمانہ دباو۔۔ نتیجہ کیا۔ آپ سوچ نہیں سکتے، کہ آپ نے نہ صرف ملک کے سسٹم کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔بلکہ اب اس ملک میں کوئی پراجیکٹ بھی نہیں چلے گا۔ کون ادارہ ہوگا، کونسی بیوروکریسی ہوگی، جو کام کرے گی۔ ہر آدمی ڈرچکا ہے۔ بس ڈیوٹی پرآو، چالو فائلوں پردستخط کرو۔ جہاں کھا سکتے ہو، کھاو۔ چپ کرکے گھر چلے جاو۔ کوئی initiative نہیں لے گا، کوئی اضافی دلچسپی نہیں دکھائی گا۔ روٹین میں چیزیں چلیں گی، بجٹ لیپس ہوتے رہیں گے۔ اگر آپ سسٹم کو اتنا کرخت اور میکانیکل بنا دیں گے۔ اور ہرجگہ ایک بابو کھڑا آپ کو زلیل کررہا ہوگا۔ تو کام کہاں ہوگا۔
یاد رکھو، انسانی مزاج، سائیکی بڑی پچیدہ چیز ہے۔ نام نہاد کرپشن اور رشوت، یا قوائد کی نظراندازی معاشروں کے لئے مفید بھی ثابت ہوتے ہیں۔ دنیا میں کوئی صراط مستقیم نام کی چیز نہیں ہوتی، آگے درخت یا دیوار سے ٹکرا جائیں گے، انسان کا 'کچھ برے' کام کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“