ارنسٹو کارڈینل (Ernesto Cardenal) نکاراکوا کے اہم شاعر ہیں۔ ’’ٹائمز‘‘ کے ادبی صفحے نے ان کے لیے لکھا کہ وہ معاشرتی طور پر سپانوی امریکہ کے غیر معمولی طور پر وابستہ شاعر ہیں۔ وہ سپانوی زبان کے سب سے پڑھے جانے والے شاعر بھی ہیں۔ وہ اپنے طور پر حقیقت پسند ہیں۔ دراصل یہ ردِعمل لاطینی امریکہ کی موضوعی روایت کے خلاف بغاوت تھا۔ وہ انسانی عظمت اور سماجی عدل کے خواہش مند ہیں۔ ان کی شورع کی نظمیں رومانی نوعیت کی ہیں جو عورت سے شروع ہو کر خدا پر ختم ہوتی ہیں۔ کہا جاتا ہے ان کی شاعری صرف اور صرف محبت کی تلاش ہے۔
ارنسٹو کارڈینل کی شاعرانہ زندگی کا آغاز ۱۹۴۰ء سے شورع ہوا جو ۱۹۴۶ء میں آ کر ختم ہوا۔ یہ ان کی شعری زندگی کا پہلا حصہ تھا۔ جب ان کی شاعری کی بازگشت اہم لاطینی امریکی شعراء کے درمیان سُنی گئی۔ ان کے بقول ’’میں اٹھارہ برس کا تھا، اس وقت نرودا کا مجھ پر اثر تھا۔ بعد میں والیجو (Vallejo) نے میری ادبی فکر پر گہرا اثر ڈالا۔ یہ اثر میری روح پر ہوا۔‘‘ ان کی شروع کی نظمیں روایتی شاعر کی ہیئت میں ہیں۔ چالیس کی دہائی میں انھوں نے آزاد نظمیں لکھیں جس میں گیتوں کا داخلی انداز ملتا تھا۔ ان نظموں میں رومانی موضوعات کو جذباتی اور بیانیہ انداز میں برتا گیا۔
ان کی شاعری میں اہم تبدیلی اس وقت آئی جب وہ نیویارک آئے۔ جہاں انھوں نے ۴۷ء سے ۴۹ء تک کا عرصہ کولمبیا یونیورسٹی میں گذارا۔ وہاں انھوں نے شمالی امریکہ کی شاعری کا گہرا مطالعہ کیا۔ خاص طور پر وہ ولیم، فیرنگ، فراسٹ اور سینٹ برگ کی شاعری میں ڈُوب سے گئے۔ مگر انھوں نے سب سے زیادہ اثر ایزرا پاؤنڈ سے لیا۔ بقول کارڈینل ’’وہ ان کے بنیادی استاد ہیں۔‘‘ اسی عرصے میں انھوں نے کئی شاعرانہ تکنیکیں اختیار کیں اور اپنا جداگانہ شعری اندازِ فکر تشکیل دیا۔
نیویارک کے قیام کے دران وہ بارہ منزلہ عمارت کی بارہویں منزل کے اپارٹمنٹ میں رہتے تھے۔ جو کولمبیا یونیورسٹی کے قریب تھی۔ ان کے کمرے میں کتابیں، جرائد اور کاغذ بکھرے رہتے۔ میکسیکن تصاویر کے عکس اور نکارا گوئے کے تانبے کی دستکاری دیواروں پر آویزاں رہتی۔ ایک ٹائپ رائٹر تھا اور ایک چھوٹا ریڈیو بھی۔ جو ان کی کل دنیا تھی۔ بعد میں انھوں نے ’’بین الاقوامی گھر‘‘ کے قریب ایک چھوٹا کمرہ کرائے پر لے لیا۔ جہاں ان کے گھر کے غربی علاقے میں امریکن گریجویٹ طالب علم رہتے تھے۔ یہاں ان کی مصروف ترین معاشرتی زندگی کا آغاز ہوا۔ اور ان لڑکی سے ان کی دوستی ہوئی۔ ان کے بقول لڑکیاں نوجوانی کا سب سے بڑا حصہ ہوتی ہیں اور زندگی کے اس حصے کو ’’لو افیر وِد لو‘‘(Love Affair With Love) کہا جاتا ہے۔ انہی دنوں انھوں نے ’’نیویارک کے سفر پر نظم لکھی۔ کولمبیا میں انھوں نے اپنے اساتذہ لولیوں تھریلنگ۔ کارل وین ڈورین اور بوبوٹی ڈیوچ سے امریکی اور انگلستانی ادب پڑھا۔ اسی زمانے میں ان کی شناخت بحیثیت شاعر ک ہوئی۔‘‘
جولائی ۱۹۵۰ء میں وہ دوبارہ نکار گرا آئے۔ اس وقت ان کی عمر ۲۵ سال تھی۔ انھوں نے مانا گوا میں قیام کیا۔ یہ نکار گوا کا صدر مقام ہے۔ یہاں اُنھوں نے اپنی مشہور نظم ’’واکر کے ساتھ نکار گوا‘‘ لکھی۔ یہ نظم فلیسڑ کی جنگ (۱۸۵۵-۵۷) کے مرکزی کردار ولیم واکر پر تھی جو امریکی ریاست ٹینیسی کا رہنے والا تھا۔ جس کو امریکی تاریخ نے فراموش کر دیا۔
۱۹۵۴ء میں کارڈینل سیاسی ایکٹیوسٹ کے روپ میں اس وقت سامنے آئے جب ان کی اس چار سالہ جدوجہد کا علم لوگوں کو ہوا۔ جو اس وقت کی حکومت کو تبدیل کر دینا چاہتی تھی۔ اس ناکام کوشش کو ’’اپریل سازش‘‘ کا نام دیا گیا۔ کیونکہ جب کارڈینل اور ان کے ساتھیوں نے ۱۳ اپریل کو صدارتی محل پر حملہ کیا تو اس سے چند منٹ قبل سازش کا راز فاش ہو گیا۔ اس سازش کے الزام میں ان کے کئی ساتھی پابندِ سلاسل ہوئے اور کئی ہلاک کر دئیے گئے۔
۱۹۷۰ء میں وہ ایک شعری مقابلے میں حصہ لینے کے لیے کیوبا گئے۔ ویسے تو وہ رومن کیتھولک عیسائی مبلغ ہیں مگر انھوں نے کیوبا کے معاشرے کو ’’مثالی قرار‘‘ دیا اور خاصی حد تک اشتراکی ریاست سے متاثر ہوئے۔ انھیں ۱۹۷۷ء میں انقلابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی پاواش میں جبرا! کوسٹ ریکو جلا وطن ہونا پڑا۔
فلپ زورلینگ نے پچھلے دنوں ارنسٹو کارڈینل سے ایک انٹرویو کے دوران سوال کیا۔ ’’آپ کیتھولک پادری ہیں اور ایک سرکاری وزیر اور آپ نے خود اپنے مارکسٹ ہونے کا اعتراف کیا۔ آپ میں ایک مجرو فرد کے اتنا عجیب مکسچر کیوں ہے؟‘‘ کارڈینل نے جواب دیا ’’میں پادری ہوں جو محبت کا غلام ہے۔ میں شاعر ہوں جس کی شاعری محبت کی خدمت کرتی ہے۔ اس انقلاب میں سرکاری وزیر ہوں اور لوگوں کی خدمت کرتا ہوں۔ جیسے میں محبت کا غلام ہوں، میں ایک مارکسٹ ہوں کیونکہ میں نے مارکزم میں معاشرے کے مطالعے کے لیے کئی طریقہ کار تسخیر کیے۔ جو معاشرے میں سرمایہ دارانہ نظام کا بدل ہیں۔ اس تمام زمین پر خدا کی حکومت ہے جیسا کہ یسوع مسیح نے انسانیت کا اعلان کیا۔ ایک خدا کی سلطنت جس میں عدل ہے اور طبقات اور استبداد کا اختتام۔ میرے لیے ان تینوں چیزوں میں کوئی اختلاف نہیں۔ اور مجھے اپنے پر اعتماد ہے جو میں ہوں۔‘‘
اب تو یہ کہا جا رہا ہے کہ کارڈینل، نرودا کے بعد سپانوی امریکہ کے سب سے اہم شاعر ہیں۔ ۱۹۸۰ء میں انھیں جرمن ناشروں کی جانب سے ’’امن انعام‘‘ دیا گیا۔ کارڈینل لاطینی امریکہ کے پہلے شاعر ہیں جن کو اس انعام سے نوازہ گیا۔ انھوں نے کہا یہ انعام مُجھے نہیں نکاراگوا کے عوام کو دیا جا رہا ہے۔
انھوں نے ۱۹۶۶ء میں نکاراگوا جھیل کے قریب ایک مذہبی کمیونٹی۔ Archi Pelago of Solentinom کی بنیاد رکھی۔ یہ وہ وقت تھا۔ جب نکارا گوا کے نوجوان تیزی سے اس کمیونٹی میں شمولیت اختیار کر رہے تھے۔ اسی زمانے میں ایف۔ ایل۔ ایس۔ این (نکارا گوا کی سابق بر سر اقتدار پارٹی) کے نوجوانوں نے اپنے آپ کو منظّم کیا۔ ۱۹۷۷ء میں اس جماعت کے نوجوانوں نے سان کارلوس کے مقام پر نیشنل گارڈ کے بیرکوں پر حملہ بھی کیا۔
ارنسٹو کارڈینل کی آٹھ نثری اور شعری تصانیف شائع ہو چکی ہیں۔ ۱۹ جولائی ۱۹۷۹ء میں ساندنستہ (Sandinista) انقلاب سے لے کر اسی حکومت کے اختتام تک وہ کابینہ میں ثقافت کے وزیر تھے۔ ان کے ایک بھائی بھی کابینہ کے وزیر تعلیم تھے۔ ان کی ۳۳ سالہ بیٹی روزی روما ریلز بھی خود شاعرہ ہیں اور ادیبوں کی یونین کی صدر بھی رہ چکی ہیں۔ ان کی شاعری کی چار کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ اور نکار گوئے کے سابق صدر ڈینیل اوٹیکا کی بیوی ہیں۔ کارڈینل نے پچھلے دنوں برکلے یونیورسٹی (کیلی فورنیا) میں نظمیں سنائیں۔ دیکھنے میں وہ مست ملنگ قلندر قسم کے آدمی لگتے ہیں۔ بہت محبت سے ملتے ہیں۔ احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ لاطینی امریکہ کے گنے چنے چند شعراء میں سے ہیں جن کو ’’زندہ شاعر‘‘ کہا جا سکتا ہے۔
عورتیں ہم پر نظریں رکھتی ہیں
ایک دوپہر جب ہم پھلوں کے پیڑوں سے گھرے ہوئے قصبے میں آ رہے تھے
وادی کے وسط میں
رہنے والے بہت پُر امن تھے کہ نہ ہی آواز سُنی اور نہ ہی کوئی ہنگامہ آرائی
نہ ہی وہ جھگڑا کرتے تھے نہ ہی چلاتے تھے، مگر دھیمی آواز میں ایک دوسرے سے باتیں کرتے تھے
وہ ایسا سماں بناتے تھے کہ جیسے یہاں کوئی نہیں رہتا
وہ عموماً رات کو باہر جاتے اور چاند کی روشنی میں گاتے
اور جیسے وہ ناچتی ہواؤں کے بجنے والے ساز ہوں
اور وہ عموماً استدعا کرتے کہ وہ ان کے ساتھ گائیں اور ناچیں،
اور کبھی وہ یہ کر پاتے
اور وہ نہ ہی بڑی مسکان کے لیے قہقہہ لگاتے اور یہ دیکھتے
کہ وہ ہمارے گیتوں کے الفاظ کو سمجھنا چاہتے ہیں
عورتیں ہم پر نظریں رکھتی تھیں
کچھ ہمارے پاس آتی ہیں اور ہم سے پوچھتی ہیں
اگر عورتیں ہمارے ملک میں ہیں تو کیا ان کا جسم اور جلد ہم جیسی ہے؟
۔۔۔۔
ہون رولوس اسنٹراڈا
(تمام جلا وطن نکارا گوئیں کے لیے)
وہ چالتیوا سڑک سپانوی گورنر کے خلاف لڑا
اپریل ۱۸۱۶ء کا ناکام باغی
اس کی کوئی شان نہ تھی، جب وہ لڑکا تھا
اور دوسرے باغی لیڈر تھے
اس نے بعد میں ینکیز۱؎ کوساں حنیتو کے مویشی پال کھیت میں شکست دی
وہ اس وقت عام آدمی تھا، مگر عزت اس کے قریب آئی
سپاہی اور مزارئیے بھی لڑے
اب ایک نوجوان آدمی جلا وطنی میں ہے، اس لیے کہ اس نے دوبارہ انتخاب سے اختلاف کیا
صدر سے (جو اسکا قریبی دوست ہے)
اس نے اپنے دوستوں کو کوسٹ ویکو سے لکھا:
’’میں ایک چھوٹے سے قطعے کو صاف کر رہا ہوں
اگر دیکھو۔ میں کچھ تمباکو کے پودے اگا سکتا ہوں‘‘
اور وہ اس کے لیے بڑی عزت تھی
کیونکہ یہ اس کے لیے مشکل معرکے تھے اور وہ ان میں ایک اکیلا لڑا،
نہ ہی کسی سپہ سالار کے، نہ ہی سپاہی، نہ ہی بگل نہ ہی فتح کے۔
(۱؎ Yankees کے معنی شمالی امریکہ کا رہنے والا۔ اس لفظ کے معنی یہ بھی ہیں کاروباری دُنیا‘ کاروبار ہی سب کُچھ ہے۔ امریکہ میں ’’میرین کور‘‘ والوں کو بھی Yankees کہتے ہیں۔ (ا۔ س)
واٹر کلر
سنہری جھونپڑی کے جنگلے گوکھروں کے ساتھ
سور سڑک پر،
یک ویگن کا پہیہ
جھونپڑی کے پہلو میں
گھر کے باہر احاطے میں
ایک لڑکی پانی کا مرتبان بھرتی ہے
اور موموٹمبو۱؎
نیلا، روشن ہوتے پھولی ہوئی سانسوں میں باہر ٹکا ہے
پیلا، سفید، گلابی۔۔۔۔۔۔
(۱؎ Momotombo، نکارا گوا کا سب سے مشہور آتش فشاں۔ جہاں چار ہزار ایک سو نینانوے قدم جتنا مخروطی انکارہ ہے۔ یہ آتش فشاں اس انکارے کو دھکیل کر مانا گوا جھیل میں گرا دیتا ہے۔(ا۔ س)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔