(قسط نمبر تیرہ)
ہزاروں میل دور برف سے ڈھکے شہر ماسکو میں سوویت اہلکار مکہ میں ہونے والے واقعات کو خاموشی سے دیکھ رہے تھے۔ ایک باکسر کی طرح جو حریف کی کمزوری پکڑ لے۔ امریکہ اور ایران کی بڑھتی کشیدگی ان کے لئے پہلے ہی باعثِ اطمینان تھی جس کا ذکر برژنیف نے مشرقی جرمنی میں اپنے دورے کے دوران بھی کیا تھا۔ مسجدالحرام کا محاصرہ اب اس خود اعتمادی کو مزید بڑھا رہا تھا۔ اس خطے میں امریکہ کا ایک ساتھی، ایران، پہلے ہی ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ سعودی عرب اور پاکستان بھی اب پکے ہوئے پھل کی طرح لگ رہے تھے۔
پاکستانی حکومت کمزوری کا شکار تھی۔ اس کا امریکہ کے ساتھ تعلقات میں تناوٗ عروج پر تھا۔ امریکہ اپنا زیادہ تر سفارتی عملہ بھی نکال چکا تھا۔ مکہ اور مشرقی سعودی عرب میں ہونے والی بغاوت مزید حوصلہ افزا تھی۔ سعودی عرب کمیونزم کا اس قدر مخالف تھا کہ اس نے سوویت یونین سے سفارتی تعلقات قائم کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ سعودی ریاست کی غیرمتوقع اور اچانک نمایاں ہو جانے والی یہ کمزوری کریملن کے لئے بڑی اچھی خبر تھی کیونکہ سعودی اپنی دولت اور اثر کا ایک حصہ اس جگہ پر خرچ کر رہے تھے، جو سوویت یونین کے لئے ایک مسئلہ تھا ۔۔ افغانستان۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی مہینوں سے کابل میں سوویت حمایت یافتہ حکومت کے خلاف افغانستان میں مزاحمت جاری تھی۔ افغان حکومت مارکسزم کے نفاذ کے لئے اور مذہب کی بیخ کنی کے لئے سخت اقدامات کر رہی تھی۔ پاکستانی اور سعودی انٹیلیجنس اس حکومت کے خلاف مزاحمت کاروں کو سپورٹ کر رہے تھے اور ان کی مدد کی جا رہی تھی۔ مزاحمت کار ملک کے ستر فیصد حصے پر قابض تھے۔ امریکہ ابھی تک اس معاملے سے الگ تھا۔
سوویت یونین کیلئے افغانستان کے کمیونسٹ صدر حفیظ اللہ امین کا رویہ پریشانی کا باعث تھا۔ سوویت صدر کی رائے میں وہ مخالفین کے خلاف بہت زیادہ سختی کر رہے تھے اور ان کا اسلام کا مذاق اڑانے والا رویہ مزید مسائل کا باعث بن رہا تھا۔ کے جی بی کے چیف نے افغان صدر کی تبدیلی کے لئے کارروائی کرنے کی تجویز دے دی۔ “امین نہ صرف ظالم ہے بلکہ قابلِ بھروسہ بھی نہیں۔ ملک اس کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ ہمیں افغانستان میں عملی اقدامات کرنے چاہیں۔ یہ معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لینے کا وقت ہے”۔ یہ انہوں نے اپنے وزیرِ دفاع ڈمٹری اوسٹینوف کو کہا۔ وزیرِ دفاع پہلے اس پر قائل نہیں ہوئے تھے۔ انہیں خدشہ تھا کہ تنازعہ محدود نہیں رہے گا۔ لیکن اب پچھلے کچھ دنوں میں پے در پے رونما ہونے والے واقعات نے ان کا ذہن بدل دیا۔ سعودی عرب اور پاکستان کے حالات اور امریکہ کی خطے میں عدم دلچسپی نے ان کا فیصلہ بدل دیا۔ روسی بھالو شکار کرنے کے لئے تیار تھا۔
محاصرہ ختم ہوئے ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا۔ 10 دسمبر 1979 کو اوسٹینوف نے سوویت چیف آف سٹاف کو بلایا اور انہیں ستر سے اسی ہزار کی فوج افغان بارڈر پر اکٹھی کرنے کی ہدایت کی۔ دو دن بعد سوویت پولٹ بیورو میں سینئیر ممبر اکٹھے ہوئے۔ ہاتھ سے لکھی خفیہ قرارداد کا نام “الف میں صورتحال” تھا۔ اس میں افغان جنگ کی منظوری دے دی گئی۔ وہ جنگ، جس نے اسلامی دنیا کو بھی بدل دینا تھا اور خود سوویت یونین کو بھی منتشر کر دینا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آمو دریا کو سوویت فوج نے 25 دسمبر 1979 کو پار کیا۔ کابل میں کے جی بی کے کمانڈو افغان فوج کی یونیفارم پہنے لڑتے ہوئے صدارتی محل میں داخل ہوئے۔ حفیظ اللہ امین کو قتل کر دیا۔ ان کی جگہ ایک اور افغان کمیونسٹ کو اقتدار تھما دیا گیا۔ نئے افغان صدر ببرک کارمل تھے۔
کارمل نے پہلا خطاب “بسم اللہ الرحمٰن الرحیم” سے شروع کیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو ایک خون آشام قصائی سے نجات مل گئی ہے۔ قید، جلاوطنی، بے رحمانہ تشدد، دسیوں ہزار باپوں اور ماوٗں، بہنوں اور بھائیوں، بیٹوں اور بیٹیوں کے قاتل امین اب نہیں رہے۔ نئی افغان حکومت سیاسی قیدیوں کو رہا کرے گی اور اسلام کے مقدس اصولوں کی پرواہ کرے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکہ کے لئے یہ پیشرفت خطرے کے گھنٹی تھی۔ خلیج فارس میں تیل کی سپلائی اور امریکہ کے اتحادی تھے۔ وائٹ ہاوٗس میں میٹنگ میں خبردار کیا گیا کہ افغانستان سے سوویت لڑاکا طیارے آبنائے ہرمز تک بآسانی آ سکتے ہیں۔ سوویت فوج بحیرہ عرب تک صرف دس سے بارہ روز میں پہنچ سکتی ہے۔ سعودی اور کویتی تیل تک رسائی حاصل کر سکتی ہے۔ برزنسکی نے امریکی صدر کو 26 دسمبر میں لکھے میمو میں خبردار کیا کہ سوویت اگر افغانستان میں کامیاب ہو گئے اور پاکستان بھی اسی بلاک میں شامل ہو گیا تو سوویت عرب اور عمان کی خلیج میں ہوں گے۔
سعودی اس سے بھی زیادہ خوفزدہ تھے۔ وہ خود کو اگلا ٹارگٹ سمجھتے تھے۔ تیل کے ذخائر کا افغانستان سے فاصلہ زیادہ نہیں تھا۔ جدہ سے خلیجِ فارس کا فاصلہ، افغانستان سے خلیجِ فارس کے فاصلے سے زیادہ تھا۔ اس سے صرف دو ہفتے قبل سعودی عرب نے امریکی افواج کے اس خطے میں موجودگی کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ اس سے امریکہ مخالف جذبات میں اضافہ ہو گا۔ اس کے بجائے امریکہ کو مقامی افواج کی صلاحیت میں اضافہ میں مدد کرنی چاہیے۔ سوویت اقدام نے اس سوچ کو بدل دیا تھا۔ ولی عہد شہزادہ فہد نے اب خود امریکی ملٹری اتحاد بڑھانے کی درخواست کر دی۔
پاکستانی حکومت بھی اس نئی پیشرفت سے پریشان تھی۔ اس نے پہلے بھی امریکہ کو افغانستان میں مداخلت کے لئے کہا تھا۔ لیکن دونوں ممالک کے تعلقات کی سردمہری اور امریکہ کی خطے میں پالیسی کی وجہ سے بات آگے نہیں بڑھی تھی۔ اب معاملات بدل گئے تھے۔ پاکستان ایران سے پینگیں بڑھانا بند کرنے پر بھی آمادہ تھا۔ امریکی وزیرِ دفاع نے اپنے صدر کو کہا، “ہمیں پاکستان میں وہ غلطی نہیں کرنی چاہیے جو ہم نے شاہِ ایران کے ساتھ کی۔ ہمیں پاکستان میں صدر کی پوزیشن کو اور ان کے اقتدار کو پوری سپورٹ دینی چاہیے اور اس مدد میں صدر کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنوری 1980 کو امریکی صدر کارٹر نے سرکاری طور پر سٹیٹ آف یونین کے خطاب میں اس خطے میں پالیسی کا اعلان کر دیا۔ “میں اپنی پوزیشن بالکل واضح طور پر بیان کرنا چاہوں گا۔ کسی بھی قوت کی طرف سے خلیجِ فارس تک پہنچنے یا اس کا کنٹرول لینے کی کوئی بھی کوشش امریکہ پر حملہ تصور ہو گی۔ اس کو ہر ممکن طریقے سے روکا جائے گا، خواہ اس کے لئے عسکری قوت استعمال کرنی پڑے”۔ اس وقت سے لے کر آج تک یہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کا ایک ستون ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے کچھ ہی عرصے میں افغانستان میں نئی صف بندی ہو گئی۔ نئے کھیل کی بساط بچھ گئی۔ اس میں حصہ لینے کے لئے شاہی خاندان سے بہت قریبی تعلقات رکھنے والے متمول گھرانے سے تعلق رکھتے والے ایک پتلے دبلے بائیس سالہ نوجوان نے سعودی عرب سے افغانستان کی طرف کا رخ کیا۔ اس نوجوان نے مسجدالحرام میں ہونے والے واقعے کو بڑی قریب سے دیکھا تھا۔ محمد بن عوض بن لادن نے اپنی گیارہویں بیوی سے ہونے والے اس بیٹے کا نام اُسامہ رکھا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔