بار بار مسیج آیا کہ آپ آئیں گئے میرے پروگرام میں میں نے ٹالا اپنی سستی کے سبب پر یہ بندہ خدا مسلسل مسیج کرتا رہا پھر فون کیا اب ہاں کرنے کے سوا کوئی راہ نہیں تھی اس لئے اتوار کی صبح سرینگر کی اور رخ کرلیا اور پہنچا احمد کدل کے ایک ہوٹل میں جہاں کتاب کی رسم اجرائی تھی ہر طرف نوجوان صورتیں تھیں اپنے چہرے پر مسکان سجائے ہزاروں خواہشیں دل میں بسائے بڑے ہی مؤدب بیٹھے ہوئے ان سے بات چیت کے دوران یہ محسوس ہوا کہ سلیقہ مند نسل سے ہم ابھی محروم نہیں ہیں کیونکہ ایک بڑی تعداد ایسے نوجوانوں کی ہے جو علم سے شغف رکھتے ہیں
ان جگر کے ٹکڑوں کے نام
نہیں ہے نا اُمید اقبال اپنی کشت ِویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
میں نے اسی مجلس میں ایک خوب رو نوجوان کو سنا شاعر ہیں شہباز شاہی نام مصنف ہیں پر شاعری سماج سوسائیٹی معاشرے کے آس پاس کے حالات و حوادث کی عکاس تلفظ کمال کا اردو زبان کے شوقین پر زبان میں وہ جادو کہ اہل مجلس کی آنکھیں بھیگ گئیں کلام شاہی سنتے سنتے ایسے ہی کوئی معصوم سی لڑکی اٹھی اور چند اشعار اپنے لکھے سنائے تو اردو زبان کی بقاء کی امید جاگی ہم محو سماعت ہی تھے کہ کشمیر کے ادبی افق کے سفیر مسکراہٹ ڈاکٹر ریاض توحیدی ادب کے راجہ راجہ یوسف ادب کے راہی طارق شبنم فیض قاضی آبادی داخل محفل ہوئے گرچہ ہر کسی سے واقفیت ہے پر یہ ادب کے راجہ جو ہیں ان کی دید کی تمنا تھی سو پوری ہوگئی پھر ان کی کتاب کا تحفہ ان سے ملا تو ان کا قد مزید بڑھ گیا میری نظر میں لگا کہ بڑے ہی منکسر المزاج ہیں جناب والا خیر یہ وہ باتیں تھی جو مجھے کتاب کی رسم اجرائی تک جانے میں اچھی لگیں اب مصنف کے بارے میں
شاہین تیری پرواز سے جلتا ہے زمانہ
تو قوت بازو سے اسے اور ہوا دے
نام ساحل احمد لون
برپورہ پلوامہ
انگلش آنآرس
میں اس نوجوان میں محنت ادب دوستی کتابوں کے تئیں اس کا شوق دیکھ کر محسوس کر رہا ہوں کہ وادی کے افق پر چھا جائے گا اک روز چھوٹی سی عمر میں ہی وہ امیدیں جگا رہا ہے کہ جہاں بڑی عمر کے اہل سوچتے بھی نہ ہوں ایک بار ملنا چاہا میں سرینگر میں ہی تھا کہ ایک طرف سے جہانگیر چوک سے ہانپتا کانپتا نوجوان نہیں نوجوانی سے کم ہی عمر کا ایک لڑکا آتا دکھائی دیا آتے ہی باتیں شروع میں دیکھتا ہی رہ گیا کہ یہ ساحل ہے جو ادب کے افق پر اپنی حیثیت مضبوط کئے جارہا ہے جس کی ستائش اہل ادب شوق سے کر رہے ہیں میں تو سوچ رہا تھا کوئی موٹا تکڑا آدمی ہوگا پر یہ تو اس عمر کا ہے جب ہمیں ادب کیا پڑھائی بھی بوجھ لگتی تھی اور یہ ہے کہ ایسی کتابوں پر تبصرے کر رہا ہے جنہیں ہم پڑھنے کے لئے سوچتے ہی رہتے ہیں خیر مجھے اس نوجوان کی آنکھوں میں بلا کا سکوں نظر آیا اس کی امیدیں بلندیوں کا طواف کر رہیں ہیں اس کی خواہشات علم پانے کی مچل رہی ہیں یہ جو نسل نو کا اک حسیں گلدستہ میسر آیا تو میں نے اسے مضبوط جکڑ لیا اس کا سنتا رہا اس کی شکل کو دیکھ کر سوچ رہا تھا او بھائی تیرا رب تیرا حامی ہو تو کمال کا ہے کہ اس کچی عمر میں اور ایسے پریشان کن ماحول میں تو مجھ جیسے طلبہ کی امید ہے بس التماس یوں ہے کہ
حیاء نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی۔۔
خُدا کرے تیری جوانی رہے بے داغ۔۔۔
کتاب سول سروسز رہنما
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں۔
نظرآتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں۔
کتاب سول سروسز نامی امتحان کے بارے میں تحریر کی گئی ہے گرچہ اس امتحان کی تیاری کے لئے مختلف کتابیں پائی جاتی ہیں پر زبان یار میں ( اردو ) یہ اولین کوشش ہے ہاں برصغیر میں گر کسی صاحب نے اس سلسلے میں کوئی کام کیا ہو پر کم از کم ریاست میں ایسی کوئی کتاب اردو زبان میں میسر نہیں ہے کتاب امتحان کا طریقہ سمجھاتی ہے امتحان میں معاون اخبارات و رسائل و جرائد کی رہنمائی کرتی ہے ان کتب کی نشاندہی جو اس امتحان میں معاون ہوں کا ہلکا پھلکا تعارف اور ساتھ میں جہد مسلسل کی ترغیب کامیابی کی خاطر ایک اقتباس آپ کی نظر کچھ یوں بھی ہوجائے
کامیابی منزل پر پہنچنے کا نام نہیں بلکہ منزل کی جستجو میں لگن کا نام ہے
کوئی بھی انسان بڑا نہیں ہوتا ہے بلکہ اُس کا کردار اور مقصد اُسے بڑا بنا دیتا ہے۔کائنات کی ہر چیز دو بار بنتی ہے، پہلی بار انسان کے دماغ میں اور دوسری بار حقیقت میں۔ اگر ہم نے کامیاب ہونے کا کوئی خواب نہیں دیکھا، ہمارے دماغ میں کامیابی کی کوئی تصویر ہی نہیں۔ تو ہماری ناکامی سو فیصد ہے ورنہ خواب بنئے اور کسی نہ کسی رنگ میں کامیابی پائے
ہار ہو جاتی ہے تب جب مان لیا جاتا ہے
جیت تب ہوتی ہے جب ٹھان لیا جاتا ہے
جو لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھے یہ سوچتے ہیں کہ کامیابی کا راستہ ہمارے ہی گھر سے جاتا ہے اس لئے محنت کی کوئی ضرورت نہیں انہیں غلط بتایا گیا ہے کتاب میں ایسے ہی وہ جو کسی جوتشی کے چکر میں آکر اپنی کامیابی کی امید توڑ دیتے ہیں اور پھر صرف اپنی یاس و حسرت کی داستانیں سناتے ہیں اپنی محنت پر سے کامیابی کا بھروسہ ٹوٹنے والوں اور ناکامیوں سے دوچار لوگوں کو حوصلہ دیتی کتاب ہے کتاب کیا ہے بس یوں سمجھیں اک حسیں تحفہ ہے پورے برصغیر کے اردو دان طبقہ کے لئے جو چاہیں اس سے مستفید ہوکر اپنی کامیابیوں کا لوہا منوا سکتے ہیں پورے ملک میں ہاں جس کی امیدیں بکھر جائیں جن کے حوصلے ٹوٹ جائیں ان کا مستقبل تابناک نہیں بلکہ اکثر ہیبت ناک ہوکر رہ جاتا ہے ۔ یاد رکھیں
جن کے خواب بڑے ہوتے ہیں
اور خوابوں کو پانے کے لئے ارادے مضبوط ہوتے ہیں
اور ہر وقت خوابوں کو حاصل کرنے کیلئے محو جستجو ہوتے ہیں وہ کبھی بھی بے مقصد اپنے وقت کا ضیاع نہیں کرتے بس اپنے خواب بنتے رہتے ہیں اور انہیں پانے کی طلب میں محو پرواز رہتے ہیں
تو وطن عزیز کے عزیز طلباء کرامو منزلیں کتنی بھی دشوار ہوں کس قدر بھی کٹھن اور سخت ہوں پر ان ہی راستوں پر چل کر کامیابی قدم چومتی ہے اور جو سربراہ اپنی تھکان اپنے حوصلے بکھیر دیں ان کا قدم منزلیں نہیں چومتیں بلکہ وہ اندھیروں کے اندر کھو جاتے ہیں جن کی پھر کوئی منزل ہی نہیں رہتی یہ چیز بڑے ہی خوبصورت طریقے سے ہمارا ساحل مسلسل سمجھا رہا ہے اپنی تحریرات کے ذریعہ اور اس کتابی کاوش نے تو اس کی پہچھان مزید وسیع کردی کہ اک معصوم سی صورت معصوم ہاتھوں سے لرزتی انگلیاں خون جگر سے بگو کر کیسے کیسے ادب سیرت یا معاشرے کا معاون بن جایا کرتا ہے یہ ساحل بتا رہا ہے
کامیاب لوگ
کامیاب لوگ چھوٹے چھوٹے تجربات سے بڑےبڑے سبق سیکھتے ہیں
ہمارے معاشرے میں لوگوں کو جب کوئی بات بتائی جاتی ہے تو وہ یہ کہتے ہیں ہمیں یہ پہلے سے ہی معلوم تھا جبکہ سمجھ دار کہتے ہیں کہ ،بےشک یہ بات مجھے سو فیصدی پتا ہے۔لیکن میں اس نصیحت پر کتنے فیصدعمل کررہاہوں؟؛ اس خودکلامی یا ہم کلامی کی وجہ سے کامیاب لوگوں کی ذاتی بہتری کا عمل جاری رہتا ہے ۔کچھ لوگ اندھیروں میں راستہ تلاش کرلیتے ہیں اورکچھ اجالوں کےمیلے میں صرف دیکھتے رہ جاتے ہیں کچھ کر دکھانے والے لوگوں کے پاس راستے بےشمار جبکہ سست اور کاہل گھر میں رہنے کیلئے پیدایوتے ہیں ۔عظیم لوگ خطرہ مول لینے کا حوصلہ رکھتے ہیں ۔وہ خود کوایک مسافر سمجھتے ہیں اور زندگی کو ایک سفرجانتے ہیں ۔وہ اپنی انفرایت کو ظاہر کرنے کیلئے اور دنیا کو یہ بتانے کیلئے کہ ہم بھی اس دنیا میں آئے تھے کچھ خاص کرجاتے ہیں اورامر ہوجاتے
دوپہر کے بعد کچھ حسیں یادوں کے ساتھ اس پروگرام سے کتابی تحفے وصول کرتے ہوئے میں اپنے انتہائی مشفق و مہربان صاحب ادب کی خدمت میں حاضر ہوا جہاں نمکین چائے اور دو عدد خوبصورت کتابیں وصول کیں اور ان کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی گھر کی منزل پر رواں دواں ہوا اسی معصوم نوجوان کے خیالوں میں کھویا ہوا
مزید ترقی کی دعا کے ساتھ فی امان اللہ
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...