(Last Updated On: )
آخری بار میں نے اس بازار میں قدم کب رکھا تھا یہ تو ٹھیک سے یاد نہیں، بس یہ یاد ہے کہ اس مارکیٹ کی گھٹن نے یہاں آنے کے لیے میرے ارادوں کا کافی سال قبل دم گھونٹ دیا تھا، میں نے پھر یہاں آنے کی شعوری کوشش کبھی نہ کی بلکہ لاشعوری طور پر مارکیٹ کی ان پیچیدہ اور تنگ وتاریک گلیوں سے بچ کر گزرتی رہی۔ انتہائی ضرورت نہ پڑتی تو شاید آج بھی میں یہاں نہ ہوتی۔ شام کو شادی میں جانا تھا۔گلابی بارڈر کی نیلی ساڑی صبح ہی استری کر کے ٹانگ دی تھی۔ میاں اور بچوں کے کپڑے اور ضرورت کا دیگر سامان بھی تیار تھا۔ مجھے بلاؤز کے ساتھ اچھی فٹنگ کا انڈر گارمنٹ چاہیے تھا، پرانے انڈر گارمنٹ کے ساتھ ساڑھی کی ساری خوب صورتی ڈھلک جاتی اور یہ زیادتی کم از کم ساڑھی کے ساتھ کرنے کے میں حق میں نہ تھی۔
قلیل وقت میں انڈرگارمنٹ کی تلاش نے مجھے اسی تنگ و تاریک مارکیٹ میں لا پھینکا اور میں دھوپ کا چشمہ سر پر ٹکائے، ناک سکیڑے، منہہ بنائے مارکیٹ میں گھس کر وہ سیڑھیاں تلاش کرنے لگی جس کے آخری سرے پر مطلوبہ دو چار دکانوں کی موجودگی کا مجھے یقین تھا۔ پان کی پیکوں سے لتھڑی سیڑھیوں اور ان پر بیٹھے فقیروں سے گِھن کھاتے اور بچتے بچاتے میں نے اوپر قدم رکھ کے چاروں طرف نظر دوڑائی تو میرا یقین غلط ثابت ہوا، انڈر گارمنٹ کی وہ دو چار دکانیں بڑھ کر اب آٹھ دس تک پہنچ چکی تھیں۔ ہِلتے ہوئے باریک پردوں کے پیچھے نسوانی ضروریات کا تقریباً سارا سامان شیشے کی الماریوں میں سجا تھا۔ ہر دکان پر عورتیں بھاؤ تاؤ کرکے سامان خریدنے میں مصروف تھیں، جن کی منماتی ہوئی تو کبھی تیز آویزیں دکانوں سے باہرنکل کر کر فلور پر گردش کر رہی تھیں۔ دیگر دکانوں کے چند ایک مرد سلیز مین دَم سادھے اپنی اپنی دکانوں کے باہر سینے پہ ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ ان کی نگاہیں تو ادھر ادھر لیکن کان عورتوں کی باتوں پر لگے ہوئے تھے۔ میں یہ سارا منظر دیکھتے ہوئے جلدی سے پہلی دکان میں ہی داخل ہوگئی۔
تھوڑے سے وقت میں کافی سارا انڈرگارمنٹ نکلوا کر میں اپنے سامنے میں ڈھیر کروا چکی تھی۔ کسی کے رنگ پر آکر اٹک جاتی، کسی کی فٹنگ کا سوچ کر پریشان ہوجاتی اور کسی کی کوائلٹی مجھے مطمئن نہ کرتی۔ اس تذبذب کی وجہ میرا لاشعور بھی تھا، جو مجھے جھنجھو ڑ جھنجھوڑ کر احساس دلا رہا تھا کہ یہ مارکیٹ میرے مزاج اور پسند سے میل نہیں کھاتی اور میں خواہ مخواہ یہاں وقت ضایع کر رہی ہوں۔ لاشعور کی ان باتوں پرکان دھرتے ہوئے میں نے منہہ سڑاتے اور لب سکیڑتے ہوئے ساری بریزیئرز ہاتھ سے ایک طرف کرکے سیلز ورکر کو کچھ اوردکھانے کا کہا۔
” اب بس کر دے یار۔ جان لے گی کیا!! ”
ایک نسوانی آواز پر میں چونک کر پیچھے مڑی تومجھے سنبھلنے کا موقع دیے بغیر وہ میرے گلے آلگی۔
”ہُما۔”
اسے دیکھ کر مجھے خوش گوار حیرت ہوئی۔ کیوں نہ ہوتی۔ پانچ سال بعد اس کی صورت دیکھ رہی تھی۔ ان سالوں نے اسے ذرا نہ بدلا تھا۔ بالکل ویسی ہی تھی۔ دبلی پتلی، صاف رنگ روپ کی اور ویسے ہی محبت سے ملنے والی۔ ہاں، ایک چیز اس میں مختلف سی لگی اور وہ تھی اس کے چہرے پر چڑھی میک اپ کی موٹی سی تہہ۔ جہاں تک مجھے یاد تھا وہ پہلے میک اپ کے نام سے چڑ تی تھی۔ میک اپ سے لپے پُتے چہرے اسے پسند کہاں آتے تھے۔۔ اور اب اس نے خود اپنا چہرہ مختلف تہوں میں چھپا رکھا تھا۔
”کہاں رہ رہی ہو تم۔” میں نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
”امی ابو کے ساتھ ہی جانی، وہ پیپلز چورنگی سے آگے والی سڑک ہے ناں، اس سے دائیں مڑ کر گھر ہے میرا…. کبھی چکر لگا ناں یار۔”
اس نے میرے کندھے پر انگلیوں سے ٹہوکا مارتے ہوئے تفصیل بتائی اور میں اس کے اسٹائل پر حیرت زدہ سی سر ہلاتے ہوئے مسکرا دی۔
” تمہاری بیٹی کیسی ہے؟ ” موبائل میں وقت دیکھتے ہوئے میں نے پوچھا۔
”وہ بھی ٹھیک ہے، میری جان۔ اب تو چودہ سال کی ہوگئی ہے۔ تیرے بیٹے کے ساتھ کی تو ہے، یاد نہیں آگے پیچھے دونوں سہیلیاں اسپتال پہنچی تھیں۔”
زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے اس نے بالوں کی لٹ کو سر کے جھٹکے سے پیچھے کیا۔
میک اپ زدہ چہرے سے زیادہ حیرت انگیز اب میرے لیے اس کایہ اعتماد تھا، جو واقعی قابل دید تھا۔ وہ جو کبھی سہمی ہوئی ہرنی تھی اب بپھری ہوئی شیرنی لگ رہی تھی۔ گزرے پانچ سال اس کو باہر سے تو کم لیکن اندر سے بالکل ہی تبدیل کرچکے تھے۔ پہلے بات کرتے وقت نظر یں ملانے سے بھی گھبراتی تھی۔ کم بولتی اور مسکرانے پر زیادہ اکتفا کرتی۔ کسی سوال کا جواب ہاں ہوں سے زیادہ نہ دیتی اورجب بولتی تولہجہ پیار اور عاجزی کا امتزاج لیے ہوتا۔ اس کی انہی عادتوں کی وجہ سے سب ہی تو اس کے گرویدہ تھے۔ سوائے اس کے سسرال والوں کے۔ مجھے اب تک اس کی ساس کے وہ شکوے یاد تھے جو کبھی ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتے تھے، نہ نندوں کی کاٹ دار زبانوں کے طعنے بند ہوتے۔ شوہر الگ اکھڑا کھڑا اور آپے سے باہررہتا۔ جانے تقدیر کی بھی کیا مصلحت تھی کہ قدرت نے ایک بیٹی سے آگے گود بھی ہری نہ کی۔ بیٹے کی مردانہ خواہش کو طلاق کا اس سے اچھا بھلا کیا جواز ہاتھ لگتا۔ یوں وہ بیٹی کو کلیجے سے لگائے وقت کی دھول میں کہیں گم ہوگئی۔ گلشن ِمعمار چھوڑنے کے کچھ عرصے بعد تک تو وہ رابطے میں رہی پھر زندگی آگے بڑھ گئی اور باقی سب پیچھے رہ گیا۔
تقدیر میں ایک بار پھر اس سے ملنا تھا۔ یوں آج وہ گھڑی کی سوئیوں کی طرح آملی تھی۔
”گزارا کیسے کررہی ہو؟”
جب جب اس کا خیال مجھے ستاتا پہلا سوال یہی ذہن میں کلبلاتا کہ اللہ جانے اپنی بچی کو کیسے پالتی ہوگی؟ خرچے کیسے پورے ہوتے ہوں گے۔ اسی تجسس میں سوال کر بیٹھی۔
” جاب کر رہی ہوں یار۔” اس نے دکان میں لگے شیشے میں اپنا جائزہ لیتے ہوئے یوں بے فکری سے جواب دیا جیسے بالکل عام سی بات ہو۔
”کہاں؟” میرا تجسس بڑھنے لگا۔
جہاں تک مجھے یاد تھا شادی کے وقت وہ بہت کم عمر تھی۔انٹر کا رزلٹ بھی تو نہ آیا تھا کہ ماں باپ نے نکاح پڑھوا کر رخصت کردیا۔ سسرال میں اس نے آگے پڑھنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، لیکن شوہر کی مار نے ساری خواہشوں کی طرح اس خواہش کا بھی بھرکس نکال دیا تھا۔ یوں میرا تجسس بڑھتا جارہا تھا۔ میں ایک بار پھرسر سے پاؤں تک اسے دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ ایک انٹر پاس لڑکی کو کہاں اتنی اچھی جاب مل گئی کہ ذات سے لے کر لہجے تک ہر جگہ اطمینان ہی اطمینان اور بے فکری کا ڈیرہ تھا۔
”جانی تیری دوست ماڈلنگ کرتی ہے ماڈلنگ!! فری لانسر ماڈل ہوں۔”
اب کی بار تو میں حیرت سے گرنے والی تھی۔ میرے چہرے کے تاثرات دیکھ کر آنکھ ماریتے ہوئے وہ زور زور سے ہنسنے لگی۔
بعض ہونٹوں سے نکلی ہنسی ماحول میں کیسی وحشت بڑھا دیتی ہے، اس کا تجربہ مجھے پہلی بار ہوا۔
اس مارکیٹ میں داخل ہوتے وقت مجھ پر سوار ہونے والی کوفت اب مزید بڑھ چکی تھی۔
اس سے پہلے کہ میں ہما سے اور کچھ پوچھتی میری نظریں پھر موبائل کی طرف اٹھیں اور ٹائم دیکھ کر میرے ہوش اُڑ گئے۔
ہم دونوں نے جلدی جلدی فون نمبرز کا تبادلہ کیا اور اوبر بُک کرواکے میں نے گھر کی راہ لی۔
اگلے کئی دن تک ہما کا چہرہ میری سوچوں میں جلتا بجھتا رہا اور اس کی ہنسی تصور میں گونجتی رہی لیکن چاہتے ہوئے بھی میں نے اس سے رابطہ نہ کیا۔
اور پھر ایک دن اسی کا فون آگیا۔
”سُن، تیرے گھر آجاؤں کیاَ؟”
تھوڑی دیر بعد ہی وہ میرے گھر پر موجود تھی۔کھانے کے بعد ہم دونوں اپنا اپنا چائے کا کپ ہاتھ میں تھامے ڈرائنگ روم میں آبیٹھیں۔
”تیری وجہ سے اس علاقے میں پھر قدم رکھا ہے۔ یہاں کے نام سے ہی دم گھٹتا ہے میرا، اس مٹی میں وفا نہیں ہے یار۔”
میں اسے مسلسل تکے جارہی تھی۔اس کی آنکھوں میں چپ چاپ بہتے پانی سے ہر تھوڑی دیر بعد کاجل کی موٹی لکیر بھیگ جاتی۔ جسے وہ بڑے غیر محسوس طریقے سے ٹشو پیپر کے مڑے ہوئے کونے میں جذب کر لیتی۔
میں اس کو خاموشی سے دیکھتی رہی۔بعض اوقات الفاظ اس قدر بے معنی ہوجاتے ہیں کہ ان کا بہترین سے بہترین استعمال بھی بے محل ہوجاتا ہے۔ مجھے گفتگو کے لیے کوئی موضوع بھی سجھائی نہ دے رہا تھا۔
اپنی طرف تکتی میری آنکھوں کے سامنے اس نے دایاں ہاتھ گھما کر چٹکی بجائی تومیں چونک کر مسکرا دی۔
”پہلی بار دیکھ رہی ہے کیا؟”
‘اس ہما کو تو شاید پہلی بار دیکھ رہی ہوں۔”
میرے جواب پہ اس نے جھٹکے سے سر گھمایااور ایک دم نظریں چرا لیں۔
” کیوں؟… کیا ہوا ہے مجھے”
میری طرف دیکھتے ہوئے اس نے ہونٹوں میں دبی سگریٹ سلگالی۔
”کتنا کما لیتی ہو ایسے؟”
”کیسے جانی؟ ” اس نے حیرت سے مجھے دیکھا۔
”اپنا سودا کر کے ”
میں نے اس کے منہہ میں دبی سگریٹ کھینچ کر ایش ٹرے میں ڈال دی۔
”پاگل ہوئی ہے کیا، کیسا سودا؟ بتایا تو تھا میگزینز کے لیے فری لانس ماڈل کے طور پر کرتی ہوں۔ ”
میک اپ کی تہہ بھی ماتھے پر آئے بل نہ چھپا سکی۔ اس نے دوبارہ سگریٹ اٹھائی اور اپنے چہرے پہ آئی ناگواری کو دھوئیں کے پیچھے چھپا لیا۔
“ماڈل یا کال گرل؟” نہ چاہتے ہوئے بھی جانے کیسے میرے منہ سے نکل گیا۔
اس نے میری بات پہ ذراسا سر اٹھا کر مجھے دیکھا اور لب بھینچ لیے۔ کپ میں بچی چائے میں سگریٹ ڈال کر بجھائی اور پرس اٹھاکر تیزی سے گھر کا دروازہ پار کرگئی۔
دن بھلا کس کے انتظار میں رُکتے ہیں۔ تیزی سے گزرتے جا رہے تھے۔ اگلے کئی ماہ تک میری اس سے کوئی ملاقات یا بات چیت نہ ہوئی۔ لیکن یہ نہیں تھا کہ میں اسے بھول گئی ہوں۔ الٹا وہ مجھے اب اور زیادہ یاد آنے لگی تھی۔ دل کو یہ بھی رنج تھا کہ میں اسے مزید تکلیف پہچانے کا باعث بنی۔
اس گھر کے سامنے سے گزر ہوتا جو کبھی اس کا سسرال تھاتوہما کا چہرہ نظروں میں گھوم جاتا۔ اس کی موجودہ زندگی میرے دل کو مزید بوجھل کردیتی اور اس گھرکے مکینوں کے لیے میری نفرت مزید بڑھ جاتی۔ سینے میں اٹھتی ہوک کے ساتھ میں ہما کے ماضی، حال اور مستقبل کی تکون میں الجھ کر رہ جاتی۔ لیکن جانے کیوں میں چاہتے ہوئے بھی اس سے رابطہ نہ کرپاتی۔
دن پُر لگا کر اڑ ے جارہے تھے کہ میرے بیٹے کی سالگرہ آ پہنچی۔ تحفے میں اسے موبائل چاہیے تھا۔ سو اس دن میں گلشن اقبال کی ایک بڑی موبائل مارکیٹ میں موجود تھی۔ کافی مغز ماری کے بعد مطلوبہ قیمت میں خریدا موبائل ہاتھ میں لیے باہر نکلی ہی تھی کہ ایک بار پھر وہ میرے سامنے تھی۔
ہم لکھنے والوں کے ساتھ جانے کیا معاملہ ہے کہ ہم کہانیوں سے بچنا بھی چاہیں تو کہانیاں ہماری جان نہیں چھوڑتیں۔ دوڑی دوڑی ہماری طرف آجاتی ہیں اور ہم بھی ناں ناں کرتے ان کو آغوش میں چھپا لیتے ہیں۔
گلشن اقبال کے مین روڈ پر وہ کہانی کا مرکزی کردار بنی کسی گاڑی سے اتر رہی تھی۔ ہاف وائٹ نیٹ کی میکسی، بلیک ہائی ہیل اور وہی میک اپ کی تہہ میں چھپا چہرہ۔ ان سب کے باوجودوہ اب بھی بلا کی معصوم تھی۔
مجھے دیکھ کر پہلے توتھوڑا سا جھجھکی لیکن پھر تیزی سے دوڑتی ہوئی میرے گلے میں جھول گئی۔ یوں جیسے کبھی روٹھی ہی نہ ہو۔ اس لمحے مجھے اس پر بہت ترس آیا۔ میں نے اس کے گلے میں بازو ڈال کر گال پر بوسہ دیا اور اسے ساتھ لیے نزدیکی کیفے میں جابیٹھی۔
”جانی دوست تھا میرا۔ اسی موبائل مارکیٹ میں بڑا کاروبار ہے اس کا۔ کب سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ بس آج ذرا وقت ملا تو ہم لنچ پر چلے گئے۔”
کافی کے کپ درمیان میں رکھے ہم آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ میرے کسی سوال کے بغیر ہی جلدی جلدی وضاحت دیے جا رہی تھی۔ نیٹ کا سفید دوپٹہ گردن پر پڑے سرخ نشان چھپانے میں اس کے ہاتھوں کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ لیکن اس بار کسی تلخ جملے سے اسے ناراض کرنے کا میرا کوئی ارادہ نہ تھا۔
”طلاق کے بعد تم نے کہیں جاب کیوں تلاش نہیں کی؟ ”
میرے سوال پر اس کی چلتی زبان کو بریک لگ گیا۔ مسکراہٹ چہرے سے غائب ہوئی اور ہاتھ میں پکڑا کپ زور سے میز پر پٹخ دیا۔
”انٹر پاس لڑکی کوکون نوکری دیتا ہے؟؟؟ کنجر بستے ہیں یہاں، سالے حرامی۔ سب دو نمبر۔”
وہ اچھی خاصی تگڑی گالیوں کے استعمال کی عادی ہوچکی تھی۔ میں ایک بار پھر حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگی۔
”کئی جگہ گئی تھی نوکری کے لیے۔ سالے کام کے بہانے دس بارہ ہزار ہاتھ پر رکھ کر جسم نچوڑنے کو تیار بیٹھے تھے۔ ”
پیالی میز پر گھماتے ہوئے وہ ایک لمحے کو جیسے ماضی میں کہیں گم ہوگئی۔ آنکھوں کی سفیدی پریادوں کی زردی پھیلنے لگی۔ آج جانے وہ کس دھن میں تھی کہ بولتی چلی گئی۔
”پہلے ایک فیکٹری میں جاب کی۔ پندرہ دن بعد ہی وہ سالا وہاں کا سپروائزر فریفتہ ہونے لگا۔ حرامی بہانے بہانے سے کمرے میں بلا کر یہاں وہاں ہاتھ لگاتا۔”
بتاتے بتاتے اچانک وہ ہنس پڑی۔۔۔۔ عجیب سی ہنسی تھی ۔۔۔ جسے ہنس کر کر شاید وہ خود کو بہلانے کی کوشش کررہی تھی۔
” اس کی اوپر شکایت کی تو پتا ہے کیا ہوا؟ مجھے نوکری سے نکالا سو نکالا، جتنے دن کام کیا اس کی بھی تنخواہ نہ دی۔”
یہ بتاتے ہوئے وہ اب زور زور سے ہنس رہی تھی۔ درد ہنستے ہوئے بکا جائے تو نہ آنکھیں چمکتی ہیں اور نہ گال مسکراتے ہیں۔
میں کرسی سے ٹیک لگائے چپ چاپ بیٹھی کپ کو گھورتی رہی۔ اس کی کافی کا کپ خالی ہوچکا تھا، لیکن وہ خود بھری ہوئی تھی۔ آج اس کے پاس بَکنے کو بہت کچھ تھا اور میرے پاس سننے کو بہت وقت۔
” پھر بھی جانی تیری دوست نے نوکری کی تلاش ختم نہ کی۔ بہت ماری ماری پھرنے کے بعد ڈیفنس کے ایک دفتر میں ریسیپشنسٹ کی جاب مل ہی گئی۔ میں نے سوچا نوکری معمولی ہے تو میں سالی کون سا ایم اے پاس ہوں۔۔ یہ اطمینان تھا کہ لوگ پڑھے لکھے ہیں تو عزت دیں گے اور ان کے ساتھ رہتے ہوئے کام بھی تو کرنا سیکھ جاؤں گی۔
سچی یہ بڑا سا دفتر، عالی شان فرنیچر، شیشے کے بڑے بڑے دروازے، گٹ پٹ انگریزی بولتے لوگ۔ لیکن… ہاہاہاہاہا…. ہاہاہاہا۔ ”
اس کو ایک بار پھر ہنسی کا دورہ پڑ گیا تھا….میں نے الجھی ہونی نظروں سے اسے دیکھا۔
” ارے ایک تو سالے تم پڑھے لکھے لوگوں کے ہاں ہر چیزبہت بڑی بڑی ہوتی ہے… ہے ناں؟ ”
اس نے ہنستے ہوئے ہاتھوں کو دونوں طرف پھیلا کر خوب کھینچا اور پھر سیدھا ہاتھ واپس لا کر اپنے ماتھے پر مارا۔
…لیکن سوچ…. سالی سوچ… وہی… ہاہاہاہاہا… ننھی سی، چھوٹی سی…”
یہ کہتے ہوئے اس نے مجھے آنکھ ماری۔ مجھے اس کے قہقہوں سے وحشت ہورہی تھی۔ اس کہانی میں ایسے ہنسنے والی تو ایک بات بھی نہ تھی۔ وہ یا توبے حد دلیر ہو چکی تھی یا پھر انتہا کی بے حس…میرے کسی بھی رد عمل سے بے پروا وہ بس بولے جا رہی تھی۔
” تو بابا، آگے کی کہانی یہ کہ دفترکا مالک کچھ دن بعد مجھے کمرے میں بلا کر کہتا ہے۔۔!!۔۔۔۔ بیوی چھوڑکر چلی گئی ہے۔۔۔ میں اپنی بیٹی کو لے کر اس کے گھر شفٹ ہوجاؤں۔ گھر کی نگرانی کروں، ملازموں سے کام کرواؤں اور۔۔ اور۔۔۔ اور خود اس کی۔۔۔ساری ی ی ی ی۔۔۔ضرورتوں کا بھی خیال رکھوں۔ ”
ہونٹوں پہ اب زہریلی مسکراہٹ اور آنکھوں میں شعلے لیے وہ چاروں طرف تک رہی تھی۔ زندگی کے بدترین تجربوں نے آنکھوں کی زبانی ہر بات کے اظہار کا فن اسے سکھا دیاتھا۔ پھراس کی آنکھیں ایک دم میری آنکھوں میں گڑ گئیں یوں جیسے سوال کر رہی ہوں کہ۔۔۔۔اور سنے گی کیا؟؟؟ ۔۔۔میں نے نظریں چرا لیں لیکن کان وہیں لگے رہے۔
” سالے موٹے حرام زادے نے اتنا پرفیوم لگا رکھا تھا لیکن یقین جان کمرے میں مجھے بڑی گندی بدبو کا احساس ہوا۔۔۔مجھے پتا تھا میرے انکار پر یہ کتا اب دفتر میں بھی نہیں رہنے دے گا، سو میں نے اگلے دن بتائے بنا ہی نوکری چھوڑ دی۔”
ہوا سے بال اڑ اڑ کر اس کے چہرے کو گھیر رہے تھے۔ بھلا کون یقین کر سکتا تھا کہ اس خوب صورت چہرے نے زندگی کا کتنا بدصورت سفرطے کیا ہے۔
اس کے بعد بھی بڑی جگہوں پر گئی لیکن تعلیم زیادہ نہیں تھی ناں تو خود کو گروی رکھوا کر مالکوں کے تلوے چاٹنے کی ہی شرط کُھلی ڈَھکی سامنے آتی رہی۔۔۔ مجھ جیسی کم پڑھی لکھی عورت کے لیے جسم فروشی سے پیسے کمانے کے سوا یہ کنجر کوئی دوسرا راستہ نہیں چھوڑتے۔۔ یار دس بارہ ہزار تھما کے ہر بندہ اپنی رکھیل بنانے پر بضد۔ ”
پھر سے ہنس رہی تھی۔۔۔ کسی گریے کی طرح۔۔
”بھلا بتا… ان سالوں کو زیادہ گرمی چڑھی ہے تو کسی کال گرل کے پاس کیوں نہیں چلے جاتے، نوکری دینے کے نام پر ایک عام عورت کو کال گرل کیوں بنانے پر تُل جاتے ہیں؟”
آنکھوں میں امڈ آنے والے پانی کو پوروں کے زور سے اندر دھکیل کر سوال کرتے ہوئے وہ دنیا کی سب سے معصوم عورت لگ رہی تھی۔
” کیا فائدہ وہ ساری نوکریاں چھوڑنے کا؟ کام تو تم اب بھی وہی کر رہی ہو۔” مشکل سے اپنے ڈوبتے دل کو سنبھالتے ہوئے میں نے اسے احساس دلانے کی کوشش کی۔۔۔لیکن وہ اکھڑ گئی۔
”کیا مطلب ہے تیرا؟ تو بس مجھے کال گرل ثابت کرنے پہ کیوں تُلی رہتی ہے؟ بول؟ کیا میں کال گرل دِکھتی ہوں تجھے؟… ا ارے ے ے۔۔ا پنا کام کرتی ہوں… اپنا..۔۔۔تنخواہ لے کر کسی سالے حرام زادے کی غلامی نہیں کرتی۔ سکون سے جیتی ہوں۔”
اور میں سر پکڑے اس کے چہرے پر وہ سکون ڈھونڈنے لگی جس کا ذکر وہ کر تو گئی لیکن مجھے اس کی آنکھوں کی سفیدی سے لے کر لبوں کی مسکراہٹ اور حلق سے ابلتے قہقہوں سے ہاتھوں کی حرکات تک کہیں وہ سکون نظر نہیں آیا۔
یا پھر میری قریب کی نظر واقعی کم زور ہوگئی تھی۔۔۔
” آئے دن کسی نئے آدمی کا ساتھ۔۔ کیا یہی ترا سکون ہے؟”
”ارے یار کون سے نئے آدمی۔۔۔ دوست یار ہیں سب ۔۔۔ مشکل وقت میں بڑا ساتھ دیا ہے انہوں نے میرا۔ کبھی وہ میرے کام آجاتے ہیں اور کبھی میں ان کے۔۔ بس۔۔ اور کیا ہے؟ ”
اس کے پاس اپنی بات کو ثابت کرنے کے بے شمار جواز تھے۔ بہت دلائل تھے اورمیری نظریں دوپٹے کی اوٹ سے جھانکتے اس کی گردن پہ پڑے سرخ نشانوں پہ گڑی ہوئی تھیں۔۔
”نہیں تو اگر تیرے نزدیک ایسی عورت کال گرل ہے تو جانی پھر توہر دوسری عورت کو تو کال گرل ہی سمجھ لے۔۔۔ جس کو ذرا قریب سے دیکھے گی ناں۔۔اسی کے کئی یار نکل آئیں گے۔۔۔۔۔بات کرتی ہے تو بھی۔۔ کال گرل۔۔ اونہہ۔۔” اس نے میری نظریں بھانپتے ہوئے دوپٹہ گھما کر گردن پہ لپیٹا اور دوسرا پلو کندھے پر آگے کی طرف لٹکا لیا۔
”چل جانی اب اٹھ، مجھے دیر ہورہی ہے۔ بیٹی کو بھی کوچنگ سے لینا ہے۔ “
اس نے موضوع سے گویا جان چھڑائی اور ایک ہاتھ سے بیگ اٹھاکر دوسرے سے مجھے کھینچتے ہوئے کھڑا کردیا۔ اس ملاقات میں ایک ہی اچھی بات ہوئی اور وہ یہ کہ اس بار ہما ناراض ہو کر رخصت نہ ہوئی تھی۔
دن پہلے کی طرح ہی سفاکی سے بیت رہے تھے۔ میرا ہما سے رابطہ بہت کم ہوتا، اگر ہوتا تو اس میں میری کسی شعوری کوشش کا عمل دخل نہ ہوتا۔اکثر یوں بھی ہوتا کہ میں موبائل پر آتی اس کی کال جان بوجھ کر نظرانداز کر دیتی، جب کہ میں یہ بھی جانتی تھی کہ آج ہما جس چوراہے پر کھڑی ہے وہ سماج کی طرف سے نظر انداز کیے جانے کا ہی تو نتیجہ ہے۔
ایک لکھاری کی حیثیت سے اس بدبو دار سماج کو بے نقاب کرنے کے باوجود میں اندر سے کہیں نہ کہیں اسی منافق سماج کا حصہ تھی۔
اور پھر ایک دن ہماکا فون آیا اور اسی حبس زدہ مارکیٹ میں اس نے مجھے دوبارہ بلایا…جہاں بچھڑنے کے بعد ہماری پہلی ملاقات ہوئی تھی۔
”تجھے کسی سے ملوانا ہے یار”۔۔ گندی اور پیچیدہ سیڑھیوں پر چڑھتے چڑھتے اس نے مجھے یہاں بلانے کی وجہ بھی بتا ڈالی۔
میرے ماتھے کی سلوٹوں میں سوال دیکھتے ہوئے وہ جلدی جلدی بتانے لگی۔
”جانی ایک دکان ہے اوپر، وہاں شاپنگ کے بہانے سے تجھے لے کر جاؤں گی، باتوں باتوں میں اندازہ لگاکے بتا دکان کا مالک میرے لیے کیسا رہے گا؟”
میرے قدم وہیں جکڑ گئے، ماتھے کی سلوٹوں کے سوالیہ نشان ناگواری کے اظہار میں تبدیل ہو گئے۔ اس سے دوستی کی یہ گھٹیا قیمت ادا کرنے کو میں ہر گز تیار نہ تھی۔ میں نے ہاتھ چھڑا کر واپسی کی طرف قدم اٹھائے ہی تھے کہ وہ کسی بچے کی طرح بلک کر پیچھے آئی۔ میرا ہاتھ تھام کر اپنے ماتھے سے لگا لیا۔
” تری جان کی قسم۔۔ اس سے شادی کرنا چاہتی ہوں یار۔۔۔۔ تھک گئی اس زندگی سے۔ ”
اس نے منت کرتے ہوئے ہاتھ جوڑ دیے۔
”چل ناں ”
وہ جس کا مردوں کے ساتھ گھومتے پھرتے وقت اعتماد دیدنی ہوتا، اس کا یہ انداز میرے لیے قطعی مختلف بھی تھا اور تکلیف دہ بھی۔ زندگی کی تلخ حقیقتوں کا سامنا کرتے ہوئے کسی فیصلے پر پہنچنے تک کا سفر شاید اتنا ہی الم ناک ہوتا ہے۔
اور پھر میں نے کچھ سوچتے ہوئے اس کے پیچھے قدم بڑھا دیے۔
دکان کا مالک یوسف خوش شکل بھی تھا اور خوش اخلاق بھی۔ چند ہی باتوں میں ہما کے لیے اس کی پسندیدگی کو میں نے محسوس کرلیا۔ یوسف شادی شدہ اور دو بچوں کا باپ تھا، لیکن ہما کو اس بات سے کوئی پریشانی نہ تھی۔
”دیکھ جانی، خود اس کے بھی بچے ہیں تو میری بچی کا بھی احساس کرے گا ناں۔”
اس کی بات میرے دل کو لگی اور میں چپ ہوگئی۔
ہما کا زیادہ تر وقت اب یوسف کے ساتھ گزرنے لگا۔ بیٹی کو کوچنگ چھوڑ کر وہ روزانہ اس کی دکان پہنچ جاتی اور کئی گھنٹے اس کی سنگت میں مستقبل کے سپنے بنتی۔ اب اکثر مجھے فون کرتی اور اس کی گفتگو کا زیادہ تر حصہ یوسف، شادی اور اس کے بعد کی زندگی کی منصوبہ بندی پر مشتمل ہوتا۔ میں نے ان دونوں کے درمیان پنپنے والی محبت پر سکون کا سانس بھرا۔ اس سے اچھی بات کیا تھی کہ دردر کی ٹھوکریں کھانے والی کو ایک ٹھکانا میسر آنے کی امید بندھ گئی تھی۔
وقت آگے کھسک رہا تھا۔ ہما شادی کی خواہش میں یوسف کی بے دام غلام بن چکی تھی۔ وہ جوماضی میں زندگی کو عارضی طور پر آگے بڑھانے کے لیے اپنی حدیں بھولتی رہی ہو اس کے لیے تو یہ زندگی بھر کا معاملہ تھا۔ یوسف نے زندگی کے جو خواب اس کو دکھائے تھے وہ ہما کے لیے دنیا کے سارے رنگوں سے زیادہ حسین تھے۔
لیکن ان خوابوں کو تعبیر ملنے میں ہونے والی دیر پر دیر میری سمجھ سے باہر تھی۔ میں ہما سے اپنے خدشات کا اظہار کرتی تو وہ یوسف کے سارے دعوے من و عن دہرا کر مجھے مطمئن کر نے کی کوشش کرتی۔
سارے وعدے اور دعوے ہما کی طرح مجھے بھی اب لفظ بہ لفظ رٹ چکے تھے۔ لیکن معاملہ یہیں تک اٹکا ہوا تھا۔
”ہما! نکاح کے نام پر کہیں یہ ایک نیا خریدار بن کر تو تیرے پاس نہیں آیا؟ ”
میں نے ایک دن باتوں باتوں میں اپنے بدترین خدشے کا اظہار کر ہی ڈالا۔
مجھے اس بات پر ہما سے چھوٹی موٹی خفگی کی امید تو تھی لیکن اس کا ردِعمل اس قدر شدید آئے گا یہ اندازہ نہ تھا۔
اس نے اسی وقت نہ صرف میرا فون کاٹا بلکہ میرا نمبر ہر جگہ سے بلاک بھی کردیا۔
کتنے ہی دن میں لگاتا اس کا نمبر ملاتی رہی، اس امید پر کہ شاید اس کی برہمی ختم ہوجائے اور وہ میرے رابطے میں آجائے۔ لیکن یوسف اس کے لیے زندگی کی وہ امید تھا جس کے آگے کوئی سوالیہ نشان دیکھنا اس کو گوارا نہ تھا۔
اب تو میرے دماغ سے ہما ذرا نہ اتر پاتی۔ میری دعاؤں کا خاص محورہوتی۔
دن بیتتے بیتتے یوں ہی کئی ماہ گزر گئے۔ ایک دن میں بیڈ پر لیٹی کتاب پڑھ رہی تھی۔ فون سائیڈ ٹیبل پر سائلنٹ موڈ میں رکھا ہوا تھا۔ موبائل کی سفید لائٹ بار بار جلنے لگی تو مجھے متوجہ ہونا ہی پڑا۔ کسی اجنبی نمبر سے کال آرہی تھی۔
میں نے بے دلی سے کال ریسیو کی۔
” آنٹی میں یسریٰ بات کر رہی ہوں ” فون پر ہما کی بیٹی تھی۔ میں تقریباً اچھلتے ہوئے بستر سے کھڑی ہوگئی۔ میری چَھٹی حس خطرے کا الارم بجا رہی تھی۔
” مما ہاسپٹل میں ہیں آنٹی۔ آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔” جانے پیروں تلے زمین گھومی تھی یا چاروں طرف تنی کمرے کی دیواریں۔۔۔ کہ میرا سر زور زور سے چکرانے لگا۔۔۔خود پہ بہ مشکل قابو پایا، اپنے حواس بحال کیے اور اسپتال کی طرف دوڑ لگادی۔ میرے دماغ میں آندھیاں سی چل رہی تھیں اوردل بری طرح دھڑک رہا تھا۔
اسپتال پہنچ کرریسیپشن سے ہما کا پتا کر کے تیزی سے کمرے کی طرف دوڑی۔
درواز کھول کر اندر قدم رکھا تووہ سامنے لیٹی تھی۔
جس چہرے پر پہلے میک اپ کی تہیں ہوتی تھیں اس وقت وہاں دنیا جہاں کی زردی پھیلی ہوئی تھی۔
آہٹ محسوس کرتے ہوئے آنکھیں کھول کر اس نے میری طرف گردن گھمائی…ان آنکھوں میں کیا نہیں تھا…. بے بسی تھی… مظلومیت تھی… تاریکی تھی۔
مجھے دیکھتے ہی یہ آنکھیں بہنے لگیں…درد، کرب اور گھٹن سے بھرے گرم گرم آنسو اس کا گریبان بھگونے لگے۔ وہ چیخ چیخ کر روپڑی۔
”تو نے صحیح کہا تھا۔ وہ واقعی نکاح کے راستے مجھے خریدنے آیا تھا۔”
ایک پرانی کہانی تھی جو نیا وجود لیے میرے سامنے رو رہی تھی…. میرا ہاتھ تھامے بلک رہی تھی۔
اور میں اسے ویران آنکھوں سے تک رہی تھی۔ اپنی چیخوں پر قابو پاتے ہوئے اندر ہی اندر گھٹ رہی تھی۔
” اس سے تعلق کے دو مہینے بعد ہی میں امید سے ہوگئی۔ یوسف چاہتا تھا میں ابارشن کروالوں۔” کہتے کہتے ا س نے اٹھنا چاہا تو میں نے سہارا دے کر اسے بیڈکی پشت سے ٹیک لگا کر بٹھا دیا۔
”وہ ہماری محبت کی نشانی تھی۔۔۔میں بھلا کیسے ماردیتی۔۔۔ سنبھال کر رکھنا چاہتی تھی۔ ”
الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر ادا ہورہے تھے اور میں ہمیشہ کی طرح لب بھینچے ساکت بیٹھی اسے سن رہی تھی۔
” پھر میں ایک دن اس کے قدموں میں بیٹھ گئی۔۔۔ پاؤں پکڑلیے۔۔۔۔ جلدی نکاح کرنے کے لیے اس کے سامنے گڑگڑائی۔۔۔ منتیں کیں۔ ”
اس نے چیختے ہوئے گھٹنوں میں سر دے دیا۔
انا کی ساری دیواریں گرا کر قدموں میں آبیٹھنا عورت کی بے بسی کی آخری حد ہوا کرتی ہے۔ اوروہ تو ایک مرد کی خاطر انا کا بت پاش پاش کر بیٹھی تھی۔ اس کا دکھ تو ایسا تھا کہ زمانے بھر میں بانٹ کر بھی کم نہ ہوتا۔
” لیکن۔۔ لیکن اس نے شادی سے صاف انکار کردیا۔ ” وہ میرا ہاتھ پکڑے بچوں کی طرح رو رہی تھی
اس کی رگ رگ میں کرب بھرا ہوا تھا۔ دل پر جیسے دہکتے ہوئے انگارے دھرے تھے۔
”تجھے پتا ہے۔۔۔ اس نے چھوڑ کر جاتے وقت مجھ سے کیا کہا؟” تھک کر اس نے سر بیڈ کی پشت سے ٹکا دیا اور کمرے کی چھت کو تکنے لگی۔
اور پھر…
پھر اچانک سر جھٹک کر وہ زور زور سے ہنسنے لگی۔۔۔ وہی خالی پنجرے جیسی ہنسی۔۔۔۔ ہنستے ہنستے بے دم سی ہوئی تو میری طرف دیکھنے لگی۔۔
”سنے گی اس نے کیا کہہ کر مجھے چھوڑا؟ ” اس کے ضبط کی ساری حدیں ٹوٹ چکی تھیں۔۔۔
”کہنے لگا۔۔۔ کال گرل سے بھلا کون نکاح کرتا ہے؟”
اتنا کہہ کر وہ تکیے پہ ڈھے گئی۔