برصغیر کے مسلمان اپنی نہاد میں دنیا بھر کے مسلمانوں سے مختلف ہیں۔ ان کی انٹرٹینمنٹ بھی مذہب کے حوالے سے ہوتی ہے۔ احراری مقرروں کی سحرانگیز تقریریں رات رات بھر سنتے تھے‘ لیکن غیر سنجیدگی کا یہ عالم تھا کہ ووٹ کسی اور کو دیتے تھے۔ ایک عامل یہ بھی تھا کہ اس وقت ٹیلی ویژن تھا نہ انٹرنیٹ۔ کتابیں ہوتی تھیں یا جلسے جلوس۔ انٹرٹینمنٹ کا ایک ذریعہ مذہبی مناظرے بھی ہوتے تھے۔ سٹیج سجتے تھے۔ دونوں طرف سے مولانا حضرات ، کتابوں کے انبار سامنے رکھ کر ایک دوسرے کو چیلنج کرتے تھے۔ سامعین میں کچھ تو غیر جانب دار ہوتے تھے اور کچھ کسی ایک فریق کے ہم نوا۔ ان دنوں کچھ مصرعے اور کچھ اشعار مناظروں کے دم سے زبان زد خاص و عام تھے جیسے عاب جگر تھام کے بیٹھو مری باری آئیایک اور شعر بہت مشہور ہوا تھا ؎نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سےیہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیںآج یہ شعر یوں یاد آیا کہ ڈاکٹرطاہرالقادری، چودھری برادران اور شیخ رشید کے اتحاد ثلاثہ کی خبر سارے پرنٹ میڈیا کے صفحہ اول پر چھائی ہوئی ہے۔ یہ مناظرے کا ایک فریق ہے۔ دوسرا فریق حکومت وقت ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس اتحاد کی خبر سن کر فریق ثانی کے ساتھ ساتھ عوام بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ یہ تو آزمائے ہوئے بازو ہیں۔ ان سے خنجر اٹھے گا نہ تلوار ! ایک میدان میں نٹ کرتب دکھا رہے تھے۔ تنی ہوئی رسی پرنٹ الٹا لٹکا ہوا تھا۔ نیچے سے اس کا ساتھی پوچھ رہا تھا۔ کہاں ہو ؟ ’’رسی پر الٹا لٹکا ہوا ہوں۔‘‘اس نے جواب دیا۔’’تکلیف میں ہو؟‘‘
’’ہاں تکلیف میں ہوں۔‘‘
’’ سخت تکلیف میں ہو؟‘‘
’’ ہاں سخت تکلیف میں ہوں، لیکن دو بیویوں کے شوہر کی نسبت پھر بھی آرام میں ہوں۔‘‘
پاکستان کے عوام شیخ رشید اور چودھری صاحبان کے زمانۂ اقتدار …بلکہ… زمانہ ہائے اقتدار کا مزا چکھ چکے ہیں۔ یہ تنی ہوئی رسی کا زمانہ تھا جس پر عام پاکستانی الٹا لٹکا ہوا تھا۔ آج بھی اس کا وہی عالم ہے۔ ایک رسی شریف خاندان کی ہے۔ دوسری طرف وہ سیاست دان بلارہے ہیں جن کی رسیوں سے ایک دنیا واقف ہے۔ پوری دنیا میں ان کے کارخانے، کاروبار اور ہوٹل پھیلے ہوئے ہیں۔ چند دن پہلے ایک سفرنامہ ’’سیرِجہاں‘‘ موصول ہوا۔ اس کے مصنف فقیر اللہ خان ہیں۔ کہیں کہیں دلچسپ معلومات ہیں۔ بارسلونا کے حوالے سے لکھا ہے:
’’چوک سے گزرتے ہوئے ایک چودہ منزلہ گول سی عمارت پر نظر پڑی۔ معلوم ہوا یہ ایک ہوٹل ہے۔ ہوٹل کے دروازے پر ایک لمبے تڑنگے اور مونچھوں کو بل دیے سردار جی بھی دربان کھڑے تھے ۔ان سے پوچھا کہ سردار جی یہاں قرب و جوار میں کوئی مسجد ہے۔ پہلے تو سردار جی نے ہمیں اوپر سے نیچے تک غور سے دیکھا اور پھر پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں۔ ہم نے کہا کہ پاکستان سے۔ سردار جی گویا ہوئے کہ جس بلڈنگ کے دروازے پر آپ کھڑے ہیں‘ اس ہوٹل کا مالک بھی ایک پاکستانی ہے۔ ہم نے پوچھا‘ وہ کون سا پاکستانی ہے جس کا یہ چودہ منزلہ ہوٹل ہے؟جواب میں سردار جی نے ایک مشہور و معروف پاکستانی سیاست دان کا نام لیا!‘‘
رہے ڈاکٹر طاہرالقادری ! تو ان کا انقلاب بدلتی رت کی طرح آتا جاتا رہتا ہے؛ تاہم سوچنے کی بات یہ ہے کہ مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنے کی ریت اس ملک میں کب نہیں تھی؟ جماعت اسلامی‘ جے یو آئی اور اس کی متعدد شاخیں،نظام اسلام پارٹی، پوری تاریخ مذہب کے غلط استعمال سے اٹی پڑی ہے۔ مدرسوں کی چٹائیوں میں وہ لطف کہاں جو پجاروگاڑیوں ، منسٹر کالونی کے محلات اور مفت کے غیر ملکی دوروں میں ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ آج تک ایک خاص مکتب فکر کے علم بردار مذہب کے نام پر سیاست کرتے رہے، طاہرالقادری کا تعلق دوسرے مکتب فکر سے ہے۔ اکثریت ملک میں اسی مکتب فکر کی ہے۔ منطق کہتی ہے کہ ایک فرقہ … یا ایک مکتب فکر‘ سالہا سال سے مذہب کے نام پر سیاست کررہا ہے تو دوسرے مکاتب فکر کا، دوسرے فرقوں کا بھی حق ہے۔ گویا طاہرالقادری زبان حال سے اپنے حریفوں کو وہی بات کہہ رہے ہیں جو اقبال کی زبانی مسولینی نے اپنے مشرقی اور مغربی حریفوں سے کہی تھی:
کیا زمانے سے نرالا ہے مسولینی کا جرم؟بے محل بگڑا ہے معصومانِ یورپ کا مزاجمیں پھٹکتا ہوں تو چھلنی کو برا لگتا ہے کیوںہیں سبھی تہذیب کے اوزار تو چھلنی، میں چھاجمیرے سودائے ملوکیت کے ٹھکرائے ہو تم؟تم نے کیا توڑے نہیں کمزور قوموں کے زجاجتم نے لوٹے بے نوا صحرا نشینوں کے خیامتم نے لوٹی کشت دہقاں، تم نے لوٹے تخت و تاجپردۂ تہذیب میں غارت گری، آدم کشیکل روا رکھی تھی تم نے، میں روا رکھتا ہوں آج برصغیر کا مسلمان مذہب کے پھندے میں یوں پھنستا ہے جیسے چوہا پنیر کے ٹکڑے کے لیے کڑکی میں پھنستا ہے۔ تین طبقے ایسے ہیں جو مذہب کے نام پر کروڑوں میں نہیں اربوں کھربوں میں کھیل رہے ہیں۔ سیاسی علماء، گدی نشین اور تاجر۔ سوشل میڈیا میں وہ تصویر کروڑوں لوگ دیکھ رہے ہیں جس میں ملتان کا ایک معروف سیاستدان ، آبائی گدی پر بیٹھا، دستار پہنے ، مریدوں سے نوٹوں کا پلندا وصول کررہا ہے‘ جب کہ ایک اور تصویر میں ایک مغربی ملک کی سفید فام وزیر خارجہ کے ساتھ ریشہ خطمی ہورہا ہے! اقبال نے جس نظم کا عنوان ’’پنجابی مسلمان‘‘ باندھا تھا۔ اس کا عنوان ’’پاکستانی مسلمان‘‘ ہونا چاہیے:
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتاہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلدتاویل کا پھندا کوئی صیاد لگا دےیہ شاخِ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلدتاجروں کا گروہ ان دونوں طبقوں کو مات کرتا ہے۔ پنجابی کا معروف محاورہ یاد آرہا ہے۔ بصد معذرت! شکل مومناں کرتوت کافراں۔ ملاوٹ ، ذخیرہ اندوزی، ٹیکس چوری، ناروا تجاوزات لیکن ظاہر سے کچھ اور۔ دیگیں اور خیرات، عمرے اور زیارتیں، گاہک سودا خرید کر غلطی سے رسید مانگ بیٹھے تو غصے سے چہرے کا رنگ سیاہ پڑ جاتا ہے!
نہیں! ہرگز نہیں ۔ شریف برادران، نہ چودھری برادران… نہیں ہرگز نہیں۔ شیخ رشید، نہ ڈاکٹر طاہرالقادری ۔ ان میں سے کوئی اس ملک کا نجات دہندہ نہیں ہوسکتا! یہ سب چلے ہوئے کارتوس ہیں۔ یہ وہ خول ہیں جن کے اندر کچھ نہیں ! یہ محض چھلکے ہیں۔ بعض پھوک! اس ملک کا نجات دہندہ وہ ہوگا جو ایک عام گھر میں رہے گا‘ جو اپنا سودا بازار سے خود خریدے گا‘ جس کا کھانا اس کی بیوی پکائے گی‘ جس کے بیٹے ، بھتیجے ، سمدھی، داماد، بھانجے ، بھائی، کاروبار حکومت سے کوسوں دور ہوں گے‘ جو اپنا اور اپنے بچوں کا علاج سرکاری ہسپتالوں میں کرائے گا‘ جو فیصلے کچن کابینہ میں نہیں ، کابینہ میں کرے گا‘ جو پارلیمنٹ سے یوں ڈرے گا جیسے پرندہ تیر سے ڈرتا ہے‘ جس کے بیرون ملک ہوٹل ہوں گے نہ کارخانے۔ محلات‘ نہ گراں بہا اپارٹمنٹ !؎فلک کو بار بار اہل زمیں یوں دیکھتے ہیںکہ جیسے غیب سے کوئی سوار آنے لگا ہے
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔