یہ کائنات اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے۔ اس میں موجود ہر چیز اُسی کی ہی بنائی ہوئی ہے اور وہ ہر شے کو بنانے میں قدرت رکھتاہے۔ کوئی بھی چیز اُس نے بے کار پیدا نہیں کی۔ ہر تخلیق میں اُس کی کوئی نہ کوئی حکمت ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ اُس کی بنائی ہوئی کسی بھی چیز کو فالتو نہ سمجھا جائے۔ بلکہ جو ہمیں اشیاء ہمیں بے کار نظر آتی ہیں اُنہیں کسی نہ کسی طرح استعمال میں لانا چاہیے یا پھر اُنہیں کسی اور کے دے دینا چاہیے تاکہ دوسرا اُن سے فائدہ اُٹھائے۔یہ باتیں دادا ابو اپنے نواسوں اور پوتوں کو بتا رہے تھے کہ معاذ بولا:
ہاں جی ! ہمیں بھی ایسے ہی کرنا چاہیے ۔
دادا ابو نے اُسے کہا کہ بھئی تم کیا کرو گے اس کے لیے؟
معاذ کچھ دیر سوچنے کے بعد بولا کہ آپ ہی بتا دیں ۔
دادا ابو نے اُسے کہا کہ اگلے مہینہ میں آپ سب بچوں کے سالانہ امتحان ہوں گے۔ آپ سب بچے محنت کرو گے اور اپنے اپنے امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد سب بچے اپنی نئی جماعتوں میں منتقل کر دئیے جائو گے۔ نئی جماعتوں میں آپ سب کے پاس نئے بستے ‘ نئی کتابیں و کاپیاں وغیرہ ہوں گی۔
محمد علی بولا کہ ایسا تو ہر سال ہوتا ہے ہم جب بھی نئی جماعت میں جاتے ہیں تو ہمیں ہمارے ابو نئی کتابیں ‘کاپیاں اور بستہ خرید کر دیتے ہیں اور ہم خوشی خوشی نیاکورس پڑھتے ہیں۔
دادا ابو نے پوچھا کہ یہ بات تو ٹھیک ہے لیکن پرانی کتابوں کا آپ لوگ کیا کرتے ہو؟
سبحان نے بتایا کہ وہ تو اپنی پرانی کاپیاں اور کتابیں رَدّی والوں کو دے دیتا ہے۔
احمد علی بولا کہ وہ تو اُن پرانی کتابوں اور کاپیوں کے صفحے پھاڑ کر کھیلتا ہے۔
دادا ابو نے بچوں کو سمجھایا کہ دیکھو بچو! جیسا کہ میں نے بتایا تھا کہ کوئی بھی چیز بیکار نہیں ہوتی۔ ہاں اگر اب یہ کتابیں آپ کے کام میں نہیں آ سکتیں تو کیا کسی اور کے کام بھی نہیں آ سکتیں کیا؟ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی ایسی چیزوں کو جو اب ہمارے کام کی نہیں رہیں اُنہیں اُن
ضرورت مند لوگوں کو دے دیں جن کے یہ مزید کام آ سکتی ہیں تو کتنا اچھا ہو۔
موسیٰ فوراً بولا کہ ہم کیوں اپنی کتابیں کسی کو دیں؟
دادا ابو نے اُسے بڑے پیار سے سمجھایا کہ اسلام ہمارا دین ہے اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ہم غریبوں اور مساکین کی مدد کریں۔ یہی تعلیم ہمیں ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی عملی طور پر دی۔ آپؐ خود بھی غریبوں کی مدد کرتے تھے اور ہمیں بھی
چاہیے کہ ہم بھی غریبوں کی مدد کریں۔
یحییٰ بولا کہ ہم کتابوں سے کیسے غریبوں کی مدد کر سکتے ہیں؟
دادا ابو نے اُس کو بتایا کہ ہم کتابوں سے غریبوں کی مدد کیوں نہیں کر سکتے بھلا؟
سب بچے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگ گئے اور سب کے ذہنوں میں ایک ہی سوال تھا کہ کتابوں سے بھلا کیسے غریبوں کی مدد
کی جا سکتی ہے؟
فاطمہ فوراً بولی کہ ہاں ہم اپنی کتابیں غریبوں کو دے دیں گے اور اُن کی مدد ہو جائے گی۔
دادا ابو نے کہا کہ بات تو تمہاری ٹھیک ہے لیکن کیسے اس پر عمل کیا جا سکتا ہے؟
سب بچے اب غور سے دادا ابو کی طرف دیکھ رہے تھے کہ جیسے اُنہیں کوئی کسی بات کا انتظار تھا۔ دادا ابو بھی سمجھ گئے کہ بچوں کی نظریں اُن پر کیوں جم گئی ہیں ۔دادا ابو نے بچوں کہ بتایاکہ ہم سب مسلمان ہیں اور ہمیں چاہیے کہ اپنے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقہ پرعمل کرتے ہوئے ہم اپنے اِرد گر د کی خبر گیری بھی کریں۔ ہم پر کچھ ایسے فرائض ہیں جنہیں ہم حقوق العباد کہتے ہیں۔ معیز بولا کہ بالکل دادا ابو میں نے اپنی کتاب میں پڑھا ہے کہ یہ حقوق اللہ کے بندوں کے ہیں اور ہمیں چاہیے کہ ہم اُن کو بھی عبادت کے ساتھ ساتھ پورا کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔
دادا ابو نے کہاکہ ہاں اللہ کی مخلوق کی خدمت خود ایک عبادت ہے‘ جس سے انسان کا اپنا اخلاق بھی اچھا ہوتا ہے اور جس کا اخلاق اچھا ہوتا ہے اُس کا ایمان بھی اُسی قدر مضبوط ہوتا ہے۔ تو کیوں نہ ہم بھی ایسے کام کریں جس سے اللہ بھی خوش ہو اور ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی۔ جیسا کہ میں آپ کو بتا رہا تھا کہ کتابوں سے ہم غریبوں کی مدد کیسے کریں گے تو اس کا آسان حل تو یہ ہے کہ جب آپ اگلے ماہ سالانہ امتحانات سے فارغ ہوں اور کامیابی کے بعد اگلی جماعت میں چلے جائیں تو اپنی پچھلی جماعت کی کتب کو سنبھال لیں۔ آپ دیکھیں کہ آپ کے محلہ یا علاقہ میں کوئی غریب تو نہیں ہے جو اپنے بچوں کو کتب نہ دلا سکتا ہویا جس کے پاس نئی جماعت کی کتب خریدنے کے لیے پیسے نہ ہوں۔ آپ انہیں اپنے پرانی کتابیں اور بستہ دے دیں تاکہ وہ اپنی پڑھائی نئے سال میں بھی جاری رکھ سکیں۔ اس طرح اُن کی مدد بھی ہوجائے گی اور اُن کے والدین پر بوجھ بھی نہیں پڑے گا۔ ہمارا دین ہمیں دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور اُن کی مدد کا ہی درس دیتا ہے۔ اس لیے میں آپ سب کو یہ کہتا ہوں کہ آپ اپنی کتب کو صاف رکھا کریں اورجب اُن کی ضرورت نہ ہو تو کسی ضرورت مند کو دے کر اُن کی ضرورت پوری کریں اس سے ہمارا رَب اور ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی خوش ہوں گے۔
مناحل بولی کہ کتابیں اور بستہ تو ہم غریبوں کو دے ہی دیں گے لیکن پھر ہماری کاپیوں کا کیا بنے گا۔ وہ تو پھر بھی بے کا ر ہی رہیں گی۔
داداابو بولے کہ وہ بھی بیکار نہیں ہیں۔
محمد علی نے کہا کہ ہم نے تو اُن پر کام کیا ہوا ہے وہ بھلا کیسے کسی دوسرے کے کام آ سکتی ہیں؟
داداابو نے بتایا کہ یہ بات تو ٹھیک ہے کہ آپ سب بچوں نے اپنی اپنی کاپیوں پر کام کیا ہوا ہے۔ لیکن وہ پھر بھی ضرورت مندوں کے کام آ سکتی ہیں۔
اب سب بچے حیران تھے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ سب ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔
دادا ابو نے بتایا کہ یہ تو آپ سب نے بتا دیا کہ کاپیاں تو کام سے بھری ہوئی ہیں لیکن ان سے مزید کیا کام لیا جاسکتا ہے اب وہ بھی سن لو کہ اُن کاپیوں کو اگر ہم رَدّ ی میں بیچ دیں اور اُس سے جو پیسے ملیں تو کیا اُن پیسوں سے کسی کی مدد نہیں کی جاسکتی ؟ آپ نے اپنے بستے اور پرانی کتب تو ضرورت مند بچوں کو دینے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو کیا یہ بھی اچھا ہو کہ کاپیوں سے حاصل ہونے والے پیسوں سے اگر اُن بچوں کے لیے کچھ کاپیاں یا پھر سٹیشنری کی اشیاء خرید لی جائیں اور وہ بچوں میں تقسیم کر دی جائیں تو اُن کی مزید مدد ہو جائے گی۔اسلام ہمیں اسی اخوت اور رواداری کا درس دیتا ہے تاکہ ایک بہترین معاشرہ قائم ہو۔ جب ایک اچھا معاشرہ قائم ہو گا تو پاکستان بھی ترقی کرے گا اور پاکستان میں بسنے والے لوگ بھی خوشحال ہوں گے۔
سب بچوں نے دادا ابو سے وعدہ کیا کہ وہ اب کسی بھی چیز کو بیکار نہیں سمجھیں گے بلکہ کوشش کریں گے کہ جو چیزیں اُن کے استعمال میں نہ ہوں تو اُنہیں ضرورت مندوں میں تقسیم کیا جائے گا۔سب بچوں نے داداابو کا شکریہ ادا کیا کہ اُنہوں نے اُنہیں نیکی کی بات بتائی ہے۔ جس پر عمل کرتے ہوئے وہ غریب بچوں کی تعلیم جاری رکھنے میں اپنا اپنا کردار نبھاتے رہیں گے۔
سنو بچو! جس طرح ان بچوں نے اپنے دادا ابو سے وعدہ کیا ہے آپ سب کو بھی چاہیے کہ جب آپ اگلے ماہ سالانہ امتحانات سے فارغ ہو اور نئی جماعت میں جائیں تو اپنی پرانی کتابیں اور ایسی چیزیں غریب بچوں میں ضرور تقسیم کریں تاکہ جو ضرورت مند لوگ اپنے بچوں کو بھی تعلیم جیسی نعمت دلوانا چاہتے ہیں لیکن وسائل کی کمی کا شکار ہیں ‘ اُن کی مدد کی جائے۔ ہم سب اپنے اپنے طور پر ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں اور عمل سے معاشرے میں خوشیاں بکھیر سکتے ہیں۔ کسی غریب کے چہرے پر خوشی آنا جنت کے حصول کا باعث بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی خوش ہوتا ہے اور ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم بھی یہی ہے ۔ ایسے چھوٹے چھوٹے کام کرنے سے روح کو بھی سکون ملتا ہے اور پاکستان بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا۔ اس لیے آپ کسی بھی چیز کو حقیر نہ سمجھیں ۔اسی لیے شاعرِ مشرق نے فرمایا تھا کہ:
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں