ڈاکٹر فاروق ستار صاحب! آپ نے یہ کیا کیا؟ کیا آپ اس ملک میں نہیں رہتے؟ کیا آپ اس کی تاریخ سے واقف نہیں؟ کیا آپ بچے ہیں؟ افسوس! آپ نے ایسی بات کہی جس نے آپ کو ساری اشرافیہ میں تنہا کر دیا ہے! آپ پر لوگ ہنس رہے ہیں۔ انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ اگر آپ کے یہی طور اطوار رہے تو وہ لوگ جو ایم کیو ایم کو مہاجروں تک محدود کئے جانے پر خوش تھے‘ مغموم ہو جائیں گے۔ وہ اب تصور بھی نہیں کر سکتے کہ ایم کیو ایم کو اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہے اور وہ پورے پاکستان کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھنے لگی ہے۔ڈاکٹر فاروق ستار! آپ کی یہ جرأت کہ آپ نے زراعت پر ٹیکس لگانے کی بات کی اور وہ بھی کس سے؟ محترمہ حنا ربانی کھر سے؟ یہ نصیب اللہ اکبر! لوٹنے کی جائے ہے۔ کیاآپ شہباز کو یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے پنجے سے لہولہان چڑیا کو چھوڑ دے؟ کیا آپ شیر کو یہ تجویز دے رہے ہیں کہ وہ بکری کا خون آلود ڈھانچہ اپنے دانتوں سے رہا کرکے باہر پھینک دے؟ کیا آپ جنگل کو کہہ رہے ہیں کہ اپنے آپ پر شہر کا قانون نافذ کر دے؟ کیا آپ شہنشاہ کو کہہ رہے ہیں کہ وہ تخت و تاج سے دستبردار ہو کر انتخابات منعقد کرائے؟ کیا آپ ناک کٹے غلام کو فوج کا سپہ سالار بنانا چاہتے ہیں؟ اور کیا آپ اس مٹی کی داد رسی کرنا چاہتے ہیں جو پاؤں کے نیچے آتی رہتی ہے؟آپ ان جاگیرداروں کو ٹیکس ادا کرنے کیلئے کہہ رہے ہیں جنہوں نے اپنے نام اور اپنے خاندانوں کے نام سینکڑوں بلکہ ہزاروں ایکڑ زمینیں رکھی ہوئی ہیں۔ جن کا طول و عرض خود انہیں بھی نہیں معلوم! انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ان زمینیوں پر کام کرنے والے مزارع اور ہاری کیا کھاتے ہیں اور کیا پہنتے ہیں؟ آج تک کسی انصار برنی اور کسی ایدھی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ حساب لگائے کہ ہاریوں کی کتنی عورتیں زمینداروں کے بستروں میں ہیں۔ آپ کمال کرتے ہیں ان لوگوں پر ٹیکس نافذ کرنے کی بات کرتے ہیں جو آبرو ریزی کے ہر واقعے پر ہنس کر کہتے ہیں کہ ’’آخر جوان لڑکا ہے‘ اس نے یہی کچھ تو کرنا ہے‘‘آپ نے اس طاقتور لابی کو للکارا ہے جو نہ صرف ملک کی ستر فیصد زرعی اراضی پر قابض ہے بلکہ پانی کی تقسیم اس کی مرضی سے ہوتی ہے۔ کھاد پر اس کا مکمل کنٹرول ہے۔ ٹریکٹروں کی خریداری کیلئے قرضے اس کے حکم سے ملتے ہیں اور وہ کسی بھی کامیاب بنک کو پاکستان میں مکمل ناکامی سے دوچار کر سکتی ہے۔ یہ لابی تحصیل داروں‘ پٹواریوں‘ مجسٹریٹوں اور پولیس کے اہلکاروں کو اپنے ڈیروں پر طلب کرتی ہے۔ یہ لابی سکولوں کی عمارتوں میں اپنے ڈنگر باندھتی ہے۔ استانیوں کو کنیزوں کا درجہ دیتی ہے اور وہ کمی جو پڑھ لکھ جاتے ہیں‘ تضحیک اور اذیت کا نشانہ بنتے ہیں۔ کیا آپ کو اس سوفیصد سچے واقعے کا علم نہیں کہ پڑھا لکھا لڑکا خوشی سے سردار کو ملنے گیا۔ وہ سردار کو اپنے باپ کا اپنے بابا کا درجہ دیتا تھا۔ سردار کو اس کا چپڑا ہوا سر اور اجلے کپڑے دیکھ کر خطرہ محسوس ہوا۔ بالکل اسی طرح جیسے کالا باغ کے نواب کو داؤد خیل کے علاقے میں سکولوں سے خطرہ محسوس ہوتا تھا۔ وہ لڑکا جب باہر نکلا تو اسے پکڑ لیا گیا۔ اس کے ننگے جسم پر گڑ کا شیرہ ملا گیا اور اسے اس غار میں ڈال دیا گیا جس میں لاکھوں چیونٹیاں تھیں! ان لوگوں پر ٹیکس؟ جنہوں نے مسلم لیگ کو آخری وقت قبول کیا تھا وہ مسلم لیگ جس میں محمد علی جناح کے علاوہ سارے کے سارے زمیندار‘ جاگیردار‘ نواب‘ نواب زادے‘ سردار‘ خان اور خان زادے تھے! جو آج بھی اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں اور ان کی اکثریت ہے اور ڈاکٹر فاروق ستار صاحب! آپ نے اگر زراعت پر ٹیکس نافذ کرنے کی بات کو آگے بڑھایا تو آپ دیکھیں گے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی سے لے کر صوبائی بلکہ ضلعی اسمبلیوں تک اکثریت گُڑ کا شیرہ ہاتھوں میں لئے آپ کو پکڑنے کیلئے دوڑے گی! ٹیکس ادا کریں سرکاری ملازم اور پرچون کی دکانوں سے آٹا دال اور گھی خریدنے والے لیکن جن کی شاپنگ اعلیٰ درجے کی شراب اور راتوں کو رنگین بنانے والی ادویات پر مشتمل ہو۔ جن کے کیلی فورنیا‘ کولو ریڈو اور آسٹریلیا میں فارم (RANCH) ہوں اور ملک کے ہر شہر میں محلات ہوں اور لندن اور نیو یارک میں اپارٹمنٹ ہوں‘ انہیں ٹیکس ادا کرنے کی تکلیف دینا گستاخی کی انتہا ہے اور یہ وہ جرم ہے جو اس ملک میں کبھی معاف نہیں ہوا!اور اب تو جاگیرداری ان میں بھی آگئی ہے جن کے پاس جاگیریں نہیں ہیں۔ تہجد پڑھنے والے جاگیردار نے جس کے بارے میں سنا ہے کہ جس گلی میں اس کی حویلی کا دروازہ ہے‘ اس گلی میں اور کسی گھر کا دروازہ بن ہی نہیں سکتا‘ کہا تھا کہ جاگیرداری ایک روئیے کا نام ہے! کیا یہ سچی بات کہی تھی اس نے!خدا کی بے نیازی ہائے مومنہم ایماں لائے ہیں زلف بتاں سےسچ کو کوئی روک سکتا ہے؟ وہاں سے برآمد ہوتا ہے جہاں سے گمان تک نہیں ہوتا۔ جاگیردارانہ نظام۔ زمینوں کے وسیع و عریض رقبوں کا چند ہاتھوں میں ارتکاز۔ ایک ذہنیت کو جنم دیتا ہے جسے جاگیردارانہ رویہ (FEUDAL MENTALITY) کہتے ہیں۔ اس رویے کی تعریف‘ حکما نے یہ کی ہے کہ یہ دو اجزا سے عبارت ہے۔ خود غرضی اور رعونت اس رویے کا منبع۔ مصدر۔ سرچشمہ۔ پھر دو اجزا سے بنا ہے۔ دولت اور طاقت۔یہ رویہ نفرت کرتا ہے محبت سے‘ قانون سے‘ انصاف سے اور دیانت داری سے اور اس کی خاص دشمنی علم سے ہوتی ہے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ زمیندار سب سے پہلے تھانیدار کو ’’قابو‘‘ کرتا ہے تاکہ پولیس انصاف نہ کر سکے۔ پھر وہ اسسٹنٹ کمشنر کے گھر بھینس بھیجتا ہے۔ یہ زمیندار جب دارالحکومت میں ممبر بن کر پہنچتا ہے۔ تو یہ اسسٹنٹ کمشنر وفاقی سیکرٹری بن کر اس کے استقبال کیلئے موجود ہوتا ہے۔ اگر کسی کو بہت تکلیف ہے تو ہم ان وزیروں کے نام لے سکتے ہیں۔ جو نوکر شاہی کے ان کارندوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنی وزارتوں میں سیکرٹری لگاتے رہے جو ان کے ضلع میں ڈپٹی کمشنر اور ان کے ڈویژن میں کمشنر رہے تھے! بات جاگیردارانہ رویے کی ہو رہی تھی۔ یہ رویہ افسوس! صد افسوس! سیاسی جماعتوں میں در آگیا ہے اور مستقبل میں کوئی امکان نہیں کہ سیاسی جماعتیں جاگیردارانہ رویے کے پنجے سے رہا ہو سکیں۔ یہ سیاسی جماعتیں کیا ہیں؟ کیا یہ جاگیریں نہیں ہیں؟ کیا پیپلز پارٹی‘ نون لیگ‘ قاف لیگ‘ اے این پی اور جے یو آئی خاندانوں کی ملکیت نہیں ہیں؟ یہ سیاسی جماعتیں وہ کھیت ہیں جن پر مخصوص خاندان نسل در نسل قابض ہیں۔ کیا ابھی پیپلز پارٹی پر بلاول نے حکمرانی نہیں کرنی؟ کیا دانشور مشاہد حسین لکھنے پڑھنے کا کام جس طرح چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کیلئے کر رہے ہیں کیا مونس الٰہی کیلئے نہیں کریں گے؟ اور کیا آپ نے کل کے قومی اخبارات میں وہ تصویر نہیں دیکھی جس میں برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر مسلم لیگی رہنما جناب حمزہ شہباز کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہے ہیں؟ تصویر کے نیچے یہ وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ وہ مسلم لیگ کے کیا ہیں؟ آخر برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر یہ تبادلہ خیال چودھری نثار علی‘ جاوید ہاشمی‘ احسن اقبال‘ صدیق الفاروق یا اقبال جھگڑا سے کیوں نہیں کرتا جن کے بال سفید ہیں اور جن کی عمریں پارٹی کی خدمت میں کٹ گئیں۔ جو جیلوں میں سڑتے رہے اور جنہوں نے قربانیاں دیں؟ اس لئے کہ نون لیگ بھی موروثی پارٹی ہے۔ قاف لیگ بھی اور باقی پارٹیاں بھی!ڈاکٹر فاروق ستار صاحب! آپ زراعت پر ٹیکس کی بات کرتے ہیں؟ یہاں تو فیوڈل سسٹم سرطان کی طرح ایک ایک شریان میں‘ ایک ایک رگ میں سرایت کر چکا ہے ؎پاپوش کی کیا فکر ہے دستار سنبھالوپایاب ہے جو موج گزر جائے گی سر سے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...