امریکی گلوکار اور نغمہ نگار باب ڈلن کے لئے ادب کا نوبیل انعام
اس برس ادب کا نوبیل انعام پچھتر سالہ امریکی گلوکار اور نغمہ نگار باب ڈلن کو دیا گیا ہے۔ نوبیل انعام کی تاریخ میں وہ پہلے موسیقار، گلوکار اور نغمہ نگار ہیں جنہیں ادب کا یہ سب سے بڑا انعام دیا گیا ہے۔ اس اعلان پر دنیا بھر کے ادبی حلقے حیران ہیں لیکن سویڈش اکیڈمی کا کہنا ہے کہ باب ڈلن نے اپنے نغموں کے ذریعے شاعری کو اظہار کی نئی جہتوں سے روشناس کرایا ہے۔ باب ڈلن کے بعض نغمے بہت مشہور ہوئے تھے اور جنگ مخالف اور شہری حقوق کے ترانے بن گئے تھے۔
امریکی نغمہ نگار، گلوکار اور آرٹسٹ باب ڈلن، اصلی نام رابرٹ ایلن زمرمین، 24 مئی 1941 میں پیدا ہوئے۔ 1960 سے پاپ میوزک میں ان کا نام بننا شروع ہوا اور کم و بیش پانچ دہائیوں تک امریکی ثقافت و موسیقی اور پاپ میوزک میں ان کا شہرہ رہا۔ ان کے ابتدائی دور کے گیت "Blowin' in the Wind" اور "The Times They Are a-Changin'" امریکہ میں شہری حقوق اور جنگ مخالف تحریکوں کا ترانہ بن گئے۔ باب ڈلن نے اپنے گیتوں میں سیاسی، سماجی، فلسفیانہ اور ادبی موضوعات کا بڑی فنکاری سے احاطہ کیا ہے۔
باب ڈلن نے امریکی لوک ثقافت، گلوکاری اور نغمہ نگاری کی روایت کا بنظرِ غائر مطالعہ کیا اور اسے نہ صرف اپنے دور سے ہم آہنگ کیا بلکہ امریکی گیت نگاری کی روایت کے اندر رہتے ہوئے اسے نئے شعری اسلوب اور اظہار کے نئے شعری سانچوں میں ڈھالا۔ باب نے فوک، بلیوز، کنٹری سے لے کر گوسپل، راک اینڈ رول اور جاز تک میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ آلاتِ موسیقی میں وہ گٹار، کی بورڈز اور ہارمونیکا "منہ باجا" کا استعمال کرتے تھے۔ باب کی اپنی پیشہ وررانہ زندگی میں ایک ریکارڈنگ آرٹسٹ کے طور پر مرکزی حیثیت رہی لیکن ان کا اصل بڑا کام ان کی گیت نگاری سمجھا جاتا ہے۔ باب ڈلن کے ایک سو ملین سے زیادہ ریکارڈ فروخت ہوئے۔ یوں انہیں سب سے زیادہ فروخت ہونے والے آرٹسٹ کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
گریمی ایوارڈ، گولڈن گلوبل ایوارڈ اور اکیڈمی ایوارڈ یافتہ باب ڈلن کو 2012ء میں امریکی صدر بارک اوباما نے صدارتی میڈل آف فریڈم دیا۔ 1994ء سے اب تک باب کی ڈرائنگز اور پینٹنگز کی چھ کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں اور دنیا کی بڑی اور نامور آرٹ گیلریز میں ان کے مصوری کے کام کی نمائش ہو چکی ہے۔ اب 2016ء میں بہترین نغمہ نگاری پر انہیں ادب کا نوبل انعام بھی مل گیا ہے۔ باب کو یہ انعام ملنے سے ادب کے نوبیل انعام کا دائرہ وسیع ہوا ہے اور نئے راستے کھلے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ادبی مباحث کا ایک نیا در بھی وا ہوا ہے۔
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1200970589964402&id=100001544169182
“