اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو، جنہیں بن زیان کا بیٹا ہونے کے ناطے "بی بی" کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے، کے نفسیاتی معالج موشے یاتوم نے گذشتہ ماہ خود کشی کر لی تھی۔ سی این این نے ان کی خود کشی کی وجوہ سے متعلق تحقیق کی تھی مگر "یہودی برادری" کی کوششوں سے یہ رپورٹ ویب سائٹ سے ہٹا دی گئی ہے۔
اپنے پورے کیریر میں ممتاز رہنے والے ڈاکٹر موشے یاتوم کو تل ابیب میں ان کے گھر میں مردہ پایا گیا جنہیں نے خود کو گولی مار لی تھی۔ لاش کے ساتھ ایک رقعہ تھا جس میں لکھا تھا کہ اسرائیل کے وزیراعظم جو گذشتہ نو برس سے ان کے مریض تھے، نے " براہ راست ان کی زندگی جوس لی ہے" ساتھ ہی ڈاکٹر یاتوم نے لکھا تھا، " میں اب اسے مزید برداشت نہیں کر سکتا"
"اس کے نزدیک کسی کو بزور لوٹ لینا مواخذہ ہے،نسلی فساد برپا کرنا آزادی ہے، امن کے لیے کام کرنے والے دہشت گرد ہیں، فلسطینی دراصل اردنی ہیں، کسی کا خطہ ہتھیا لینا اس کے نزدیک اس خطے کی آزادی ہے، اس شخص میں تضادات کا کوئی انت نہیں ہے۔
فرائڈ کا کہنا تھا کہ عقلیت پسندی بالآخر جبلتی جذبات پر غالب آ جاتی ہے مگر بی بی نیتن یاہو کا ابھی تک عقلیت پسندی سے واسطہ نہیں پڑا۔ کل یہ شخص کہہ سکتا ہے کہ لوہے کا مکا گاندھی نے ایجاد کیا تھا"۔
ماہرین نفسیات کو ایسے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے جو جذباتی ہیجان کا اظہار کرنے سے بچنے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں لیکن ڈاکٹر یاتوم یہ جان کر متحیر ہو گئے تھے کہ ان کے ممتاز ترین مریض کے منہ سے "جھوٹ کی آبشار" گرتی ہے۔
ڈاکٹر یاتوم کے ہمسائے یوسی بیچور نے کہا،" میں صدمے کی حالت میں ہوں۔ موشے مضبوط شخصیت کی علامت تھے اور نیتن یاہو سے پہلے بھی وہ "خلل ذہنی " میں مبتلا درجنوں مریضون کا کامیابی کے ساتھ علاج کر چکے تھے۔ بظاہر تو دکھائی نہیں دیتا کہ یہ کیس باقی کیسوں سے مختلف تھا"۔
لیکن یہ کیس مختلف تھا۔ جب ڈاکٹر یاتوم نیتن یاہو کو حقائق باور کرانے میں یکسر ناکامی محسوس کرنے لگے تھے تو وہ مایوسی کے مرض کا شکار ہو گئے تھے ۔ انہیں پر کئی بار عارضی فالج کے حملے ہوئے تھے۔ جن کا ذکر انہوں نے اپنی ذاتی ڈائری میں کیا تھا اور لکھا تھا کہ نیتن یاہو " اپنی نفی آپ کرنے کا بلیک ہول ہے"۔
ان پر فالج کا پہلا حملہ تب ہوا تھا جب نیتن یاہو نے واشنگٹن اور نیویارک پر نائن الیون کو ہوئے حملوں پر تبصرہ کرتےب ہوئے کہا تھا، "اچھا ہوا"۔
دوسرا حملہ تب ہوا جب نیتن یاہو نے ہٹ دھرمی کے ساتھ ایران کو نازی جرمنی کے مماثل قرار دیا تھا۔
تیسرا حملہ تب ہوا جب نیتن یاہو نے ایران کے جوہری پروگرام کو "اڑتا ہوا گیس چیمبر" قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یہودی جہاں بھی ہیں "مستقل طور پر آشوٹز کے اذیتی کیمپ میں ہیں"۔
ڈاکٹر یاتوم کی نیتن یاہو کے ہسٹیریا کو روکنے کی کوششیں جو عموما" ناکام رہیں ڈاکٹر موصوف کو جذباتی طور پر شدید متاثر کر رہی تھیں۔
بظاہر یہ لگتا ہے کہ ڈاکٹر یاتوم اپنی ذاتی ڈائری میں نیتن یاہو سے متعلق لکھی تحریوں کو ایک کتاب کی شکل دینے میں مصروف تھے۔ ان کے گھر سے یہ نامکمل مسودہ ملا ہے جس کا عنوان " سٹیرائیڈز پر ڈلا جنونی" تھا۔ انہوں نے اس میں لکھا تھا:
8 مارچ، سوموار
"بی بی اپنے سہ پہر کے سیشن کے لیے تین بجے کے قریب پہنچا۔
چار بجے اس نے جانے سے انکار کر دیا اور دعوٰی کیا کہ میرا گھر حقیقت میں اس کا گھر ہے۔
پھر اس نے مجھے رات بھر کے لیے تہہ خانے میں مقفل کر دیا اور اوپر گھر میں اپنے دوستوں کی شاندار ضیافت کرتا رہا۔
جب میں نے نکل بھاگنے کی کوشش کی تو اس نے مجھے دہشت گرد کہا اور مجھے زنجیروں سے جکڑ دیا۔
میں رحم کی درخواست کرتا رہا لیکن اس نے کہا میں اس پر جس کا تقریبا" وجود ہی نہ ہو، کوئی رحم نہیں کر سکتا۔"
بن یامین نیتن یاہو کے مرض کا علاج کرنے میں ناکامی پر ڈاکٹر موشے یاتوم کو خود کشی کیے ابھی ہفتہ ہی بیتا تھا کہ نفسیاتی امراض کے ایک اور ممتاز معالج کی خود کشی سے اسرائیل میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔
ڈاکٹر یاتوم کے رفیق کار، اکسٹھ سالہ ییگال پیلیگ جو اسرائیل کے وزیر برائے امور دفاع احود باراک کے " سیکیورٹی ایڈکشن ڈس آرڈر" یعنی "سلامتی کے نشے کا مرض" ( اس میں ہندوستان،ایران، امریکہ اور پاکستان کے بھی بہت سے عسکری اور سیاسی مشاہیر مبتلا ہیں) کا علاج کر رہے تھے، تل ابیب میں اپنے گھر میں مردہ پائے گئے جنہوں نے "والیم" نام کی مسکن دوا کی خوراک سے زیادہ مقدار نگل لی تھی۔ "سلامتی کے نشے کا مرض" میں مرض کے دورے پڑا کرتے ہیں اور اس کا علاج کیا جانا تقریبا" ممکن نہیں ہوتا۔ اس مرض میں دوغلی سوچ کا غلبہ ہو جایا کرتا ہے۔ اسرائیل میں اب بہت سے سرکاری عمال کا نفسیاتی تجزیہ کیا جا رہا ہے کیونکہ اس طرح کی ہی دوغلی سوچ کے خلفشار نے یاتوم اور پیلیگ کی جان لی ہے۔
"صیہونی جنون کاؤچ پر : علاج تلاش کرنے کی کاوش رائیگاں" نامی بے تحاشا بکنے والی کتاب کے مصنف ڈاکٹر رافائیل ایلام کہتے ہیں، "عام لوگ یہ احساس نہین کر سکتے کہ نظریات سے وابستہ ذہنی امراض کا علاج کرنے والوں کو کس شدید ذہنی کرب سے گذرنا پڑتا ہے۔ "سلامتی کے نشے کا مرض" کو ہی لے لیں، ایسے ذہنی مرض میں مبتلا شخص باور ہی نہیں کر سکتا کہ غالب آ جانا اور سلامتی تقریبا" ایک ہی طرح کے اعمال ہیں۔ کسی پر غلبہ پا لینے کو ہی اپنی سلامتی کی ضمانت سمجھ لیا جاتا ہے، چنانچہ جس پر غلبہ پایا جاتا ہے وہ جبلتی طور پر بچنے کی خاطر ہر وہ حربہ اختیار کرتا ہے جو اسے میسّر آ سکے"۔ ایسے لوگوں کو علاج کرنے والے خود ہی اپنا سر کسی چیز سے ٹکرا لیتے ہیں۔ یہی صورت حال " میسیو اٹیک ڈس آرڈر" یعنی بھرپور حملہ کیے جانے کی خواہش پر مبنی مرض کا علاج کرنے میں پیدا ہوتی ہے جو اسرائیل اور اسرائیل جیسے دوسرے ملکوں کے رہنماؤں میں عام ہے۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1461811310511641