لوگوں کو تلخ معاشرہ بناتا ہے، معاشرے کے لوگ بناتے ہیں، لوگوں کے رویے بناتے ہیں، رویوں کی سختی بناتی ہے، سختی میں چھپی حقارت بناتی ہے، اس حقارت کی شدت بناتی ہے۔ کوئی بھی شخص دل جلا پیدا نہیں ہوتا، کوئی بھی اکتائے ہوئے رہنے کا ذوق نہیں رکھتا، کوئی بھی محبتوں کے جھرمٹ سے کنارہ کشی پسند نہیں کرتا، کوئی بھی چاہتوں کے پھول بکھیرنے سے انکاری نہیں ہوتا۔ مگر ہم ہی ہوتے ہیں جو انسان کو مجبور کرتے ہیں۔ انسان ہی انسان کو خود سے دور کرتا ہے، انسان ہی انسان کو نفرت سکھاتا ہے، انسان ہی انسان کو تنہا کر دیتا ہے۔ اندر کی تنہائی بظاہر تنہائی سے کہیں زیادہ بری ہوتی ہے، جان لیوا ہوتی ہے، امراض کی وجہ ہوتی ہے؛ ذہنی و جسمانی۔ انسانی بے حسی کا سلسلہ اسقدر متواتر ہے کہ ایک حساس شخص کو ذہنی مریض بنا دینے کے بعد بھی جاری ریتا ہے۔ ماہر نفسیات کے ذیر علاج افراد کو معاشرہ پاگل سمجھتا اور کہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ نفسیاتی مسائل میں دھنستے جاتے ہیں مگر ماہرِ نفسیات کی جانب رجوع کرنے سے گھبراتے ہیں اور ایک دن آتا ہے جب ایسے لوگ مکمل نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں جو اکثر شجوفرینیا کے مرض کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔
افسوسناک المیہ یہ ہے کہ اس کے بعد بھی ایسے مریض کے ساتھ لوگوں کی جانب سے کیا جانے والا برتاؤ اسکے مرض کو دن بدن بڑھا دینے کا ذریعہ ہی ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے محلے میں ایک شخص نفسیاتی مرض کا شکار تھا جو گلی میں بلا ضرورت تیز رفتار چکر لگاتا اور خود سے کلام کرتا رہتا جس میں محض لوگوں کے تلخ رویوں کا ذکر ہوتا۔ کچھ لوگ اُس پر ہنستے اور بیشتر اُسے پاگل کہہ کر ہمدردی کا اظہار کرتے۔ خیر اُسکا مرض اسقدر بڑھ چُکا تھا کہ ادویات کے بغیر کوئی اور حل ممکن نہ رہا تھا۔ اول تو ہم ترش و تلخ رویوں کی وجہ سے دوسروں کو اس حد تک پہنچاتے ہیں کہ اُنھیں ماہرِ نفسیات سے رجوع کرنے کی ضرورت درپیش ہو جاتی ہے۔ ثانی ہم اُنکو اتنی عنایت و رعایت بھی فراہم نہیں کرتے کہ وہ بلا خوفِ تشنیعی رویہ ماہرِ نفسیات سے رجوع کر سکیں۔ پاگل کہلانے کے ڈر سے وہ ایسا نہیں کرتے، اور مسئلہ جہاں صرف ماہرِ نفسیات سے گفت و شنید سے حل ہو سکتا تھا وہیں اب حل کے لیے ضرورتِ ادویات تک آ پہنچتا ہے۔ اگر کوئی ذہنی طور پر اچھا نہیں محسوس کر رہا تو یہ بات بہت اہم ہے کہ وہ سائیکالوجسٹ کے پاس جائے۔ بالکل اسی طرح جیسے جسمانی طور پر خود کو بیمار محسوس کرنے پر ڈاکٹر کے پاس جایا جاتا ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ ذہنی مرض کو ایک عام بیماری ہی سمجھا جائے۔ اور جس شخص میں اس کا عنصر دیکھا جائے اس کے ساتھ پیش کیے جانے والے رویوں میں بہتری لائی جائے، اُسے سائیکالوجسٹ سے مشورہ کرنے کو کہا جائے۔ انفرادی و اجتماعی سطح پر پائی جانے والی یہی لاشعوری کئی لوگوں کی پوری زندگی اثر انداز کردینے کا باعث بنتی ہے۔ نفسیاتی مریض پاگل نہیں بلکہ وہ ہمارے رویوں کے ہاتھوں تعمیر کیے گئے مرض میں مبتلا ہوتا ہے جسکی زد میں اکثر حساس لوگ آتے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...