نفس کیوں مارا جائے؟
کوئی بھی ایسا عمل جو بار بار کر لیا جائے وہ عادت بن جاتا ہے اورعادت پر قابو نہ پایا جا سکے تو عادت ضرورت بن جاتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ریڈیو نہیں ہوتا تھا۔ ریڈیو آیا تو لوگوں کو ریڈیو سننے کی عادت ہو گئی۔ ریڈیو میں دلچسپی چاہے وہ خبروں سے وابستہ تھی یا موسیقی سننے سے یا دیگر پروگراموں سے بالآخرریڈیو سننے والوں کی ضرورت بن گئی۔ ریڈیو سننے والے تعداد میں بہت زیادہ کبھی نہیں رہے مگر جب معاملہ سمعی سے بصری ہوا تو سامعین کی نسبت ناظرین کی تعداد کئی گنا زیادہ رہی یوں ٹیلی وژن بیشتر آبادی کی ضرورت بن گیا۔ کھیلوں کے شائقین سے لے کر موسیقی کے شائقین تک، معلومات عامہ سے لے کر حالات حاضرہ تک میں دلچسپی کے حامل افراد تک اور عام زندگی سے متعلق کہانیوں کی رسیا خانہ دار خواتین سے لے کر کارٹون دیکھ کر نہال ہوتے بچوں تک کے لیے مورتیں دکھانے والا یہ ڈبہ ضرورت بن گیا۔
زمانہ کچھ اور آگے بڑھا۔ انٹرنیٹ ایجاد ہوا۔ کاروباری لوگوں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کو بھی فوری خط وکتابت کرنے، سودے نمٹانے اور حال دل اپنے چاہنے والوں یا جن کو چاہا جاتا ان تک ترنت پہنچانے کی سہولت میسر آ گئی۔ ایک قدم مزید بڑھا تو سرچ انجن بن گئے۔ درکار معلومات کا آنکھ جھپکتے حصول ممکن ہو گیا۔ طالب علموں سے محققین تک ان سرچ انجنوں سے رجوع کرنے لگے۔ سوشل میڈیا کا تصور، ارتباط کی دنیا میں ایک زقند ثابت ہوا ۔ سوشل میڈیا کے خدماتی شعبے میں ہمہ وقت ترقی نے اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے ایک ضرورت بنا دیا۔ ضرورتوں کو کم کیا جا سکتا ہے لیکن عادت سے پہلو تہی خاصی دشوار ہوتی ہے۔ انٹرنیٹ اورسوشل میڈیا سے استفادہ کرنے والے کے لیے آج کی جدید دنیا کے اس میدان سے ایک دو روز کی دوری اسے تلملا کر رکھ دینے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ ایسا شخص ان سے محروم ہو کر ویسا ہی بے چین ہو جاتا ہے جیسے سگریٹ نوش سگریٹ کی طلب سے بلکہ کچھ تو اسے نشے کی مانند لیتے ہیں اور جلد از جلد اس کو بحال کرنے کی تگ و دو کرتے ہیں۔
ماہرین نفسیات نے انٹرنیٹ اور اس سے وابستہ اعمال جیسے گیمز اور سوشل میڈیا کی جانب انتہائی رغبت کو " نشہ" قرار دے دیا ہے اوراس عادت کو چھڑانے کی خاطر باقاعدہ معالجہ جاتی اعمال مرتب کیے گئے ہیں جن پرعمل بھی ہونے لگا ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی شے پر بہت زیادہ انحصار معمول کے زمرے میں نہیں آ سکتا۔ منشی مواد یا موجب رغبت افعال جیسے انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، ویڈیوگیمز تو اپنی جگہ رہے کسی ایک شخص پر یکسر انحصار بھی انسان کو بیکار کرکے رکھ سکتا ہے۔
دنیا میں انسان کی ضروریات اگر متنوع ہو جائیں تو روحانیت کے راہبروں کے مطابق وہ انسان کو خالق سے دور کرنے کا موجب بنتی ہیں یہی وجہ ہے جہاں ایک طرف عیسائیوں میں رہبانیت، ہندومت میں جوگ اوربدھ مت میں بھکشو کے تصور ابھرے جو دنیاوی ضرورتوں کو کم کرنے اور لذت وعیش کوشی سے اجتناب پر زور دیتے ہیں وہاں مسلمانوں میں بھی صوفیاء نے ریاض کو شعار بنانے کی تلقین کی اوراسے نفس کشی کا نام دیا کیونکہ ان کے نزدیک زندہ رہنے کے لیے سادہ غذا، تن ڈھانپنے کو موٹا جھوٹا کپڑا اور سر ڈھانپنے کو کٹیا کے علاوہ باقی ہر شے کا حصول خواہش ہے، خواہش کرنا دنیا سے وابستہ ہے اور دنیا سے رغبت انسان کو الوہ یعنی خالق سے دور کرنے کا موجب بنتی ہے۔ خالق نے انسان کو اس دنیا میں بھیجا اوراسے سوچ دی جس کی بنیاد پر اس نے ایجادات کیں جو پہلے لوگوں کی رغبت، پھر عادت اور بالآخر ضرورت بن گئیں جن کی تکمیل کی خاطروہ پیسہ اور وقت خرچ کرتا ہے۔ پیسہ کمانے کی غرض سے وہ ایسے کام کرتا ہے جن سے دوسروں کا استحصال ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں ان کے لیے دل آزاری اور تکلیف کا باعث بھی۔ یوں انسان ضرورتوں کا محتاج ہو کر خالق سے دور ہو جاتا ہے جب کہ مذاہب کی رو سے انسان کا مآل حیات بعدالممات ہے۔
دنیا کی تمام سہولتوں سے ہمکنار پڑھے لکھے باشعور انسان سے جب موت جس میں موت سے خوف کا ذکرہوتا ہے، کے بارے میں بات کی جاتی ہے تو وہ جھٹ سے فلسفے یا تصوف میں پناہ لیتا ہے۔ تصوف بھی الوہ کوشامل کردہ فلسفہ ہی ہے۔ اگرچہ ایسا کرتے ہوئے وہ موت سے اپنے خوف کو فلسفی یا صوفی کی بیان کردہ لن ترانی میں چھپا رہا ہوتا ہے ۔ ضروریات سہولت پیدا کیے جانے کی خاطر بڑھتی ہیں۔ آسان سی مثال یوں ہے کہ دیا جلانے کی خاطر پہلے سرسوں یا کسی قسم کی چکنائی کے حامل بیج حاصل کرنے کے لیے فصل بوئی جاتی تھی۔ پانی دیا جاتا تھا۔ سینچائی کی جاتی تھی۔ فصل اٹھائی جاتی تھی۔ بیج چھڑا جاتا تھا۔ کولہو گاڑنا پڑتا تھا۔ بیل پالنے پڑتے تھے۔ تیل نکالنا ہوتا تھا۔ دیے میں ڈالنا ہوتا تھا۔ آگ جلانی پڑتی تھی۔ تب کہیں فتیلا آگ پکڑ کر مدھم سی روشنی دیتا تھا۔ جبکہ بجلی کے لیے بٹن دبایا اورجتنی روشنی درکار ہو اتنے قوی اورزیادہ بلب لگا کرحاصل کرلو۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ پاور ہاوس بنانا پڑتا ہے جس کو چلانے کے لیے ایندھن اور افراد درکار ہوتے ہیں ۔ بات بالکل درست ہے مگر جہاں ایک کسان اور دوسرے تیلی کو روزی ملتی تھی وہاں دو کی نسبت ایندھن تیارکرنے اور بجلی گھر چلانے والے دو سو چھوڑ دو ہزارافراد کی روزی روٹی کا بندوبست ہو گیا اوردیے میں تیل ڈالتے ہوئے آپ کے ہاتھ بھی آلودہ نہیں ہوئے اورآپ کو باربارتیل ڈالنے کی مشقت بھی نہیں کرنا پڑی۔
اسی طرح جتنی بھی نئی ایجادات ہیں وہ انسان کی سہولت میں اضافہ کرتی ہیں ۔ انسان کی جسمانی محنت اورسرکھپائی کو کم کرتی ہیں۔ انسان کوزیادہ وقت میسر آتا ہے جس کے دوران چاہے تو وہ استراحت کرے، چاہے تو کوئی تخلیقی کام اورچاہے تو معبود کی زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے سے بھی اسے کوئی نہیں روک سکتا۔
اگر اس عمل سے کچھ روکتا ہے تو اس کی تنہائی کا احساس جوسہولتیں پیدا ہونے کی وجہ سے، گھر چلانے کی غرض سے جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کے اکٹھے رہنے کی ریت تھی اس کے ٹوٹ جانے کے باعث کچھ حد تک بڑھا تھا جبکہ انٹرنیٹ اورسوشل میڈیا کی ترویج سے ہر شخص کی اپنی اپنی دلچسپی میں اضافہ ہو جانے سے بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اس تنہائی سے چھٹکارہ پانے کو انسان ان جدید ذرائع کے توسط سے پہلے سے شناسا لوگوں اور اجنبیوں کی جانب ملتفت ہوتا ہے۔ کچھ کہتا ہے کچھ سنتا ہے۔ اپنے کہے کی تعریف کا خواہاں ہوتا ہے جو ان ذرائع میں " لائک" کا نام پا چکا ہے۔ چونکہ تاحال "ان فرینڈ" کرنے کی طرح " ان لائک" کرنے کی سہولت بہم نہیں ہے اس لیے مخالفت کرنے والے لکھ کر صلواتیں سنا دیتے ہیں۔ یوں اندازہ ہو جاتا ہے کہ کس کو "ان فرینڈ" کر دیا جائے۔ اس نوع کی دوستی میں نہ دینا لینا پڑتا ہے اورنہ ہی کوئی ذمہ داری نبھانی پڑتی ہے چنانچہ یہ اپنی طرز کی " نفس کشی" ہے۔ پس نفس کشی کیوں کی جائے جب نفس نہ کھانے کی جانب راغب ہے نہ سونے کی جانب نہ ہی مباشرت کے سے انسانی عمل کی جانب، ان سب اغراض کو تخئیل کا عفریت نگلے چلا جاتا ہے۔ کچھ ہی سال گزریں گے کہ سب صوفی ہو جائیں گے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“