نفس انسانى قران كى روشنى ميں۔
خدا كا قانون مكافات أيك اٹل حقيقت هے۔ انسان کا ہر عمل ايک نتيجه. پيدا كرتا هے ،جو اس عمل کے ساتھ ہی مرتب ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ کبھی يه اس دنيا ميں ہی سامنے ا جاتا ہے ۔
قرآن جب انسانی زات کی قلب کی بات کرتا ہے تو اس کی شہادت ميں نفس لوامہ کو پيش كرتا هے۔
يه نفس جب انسان كے ضمن ميں آتا ہے تو اس کے متعلق کوی حتمى راے نہی دی جا سکتی کہ يه كيا هے۔
يونانى مكتبه فكر ميں soul ،روح كها ،عباسيت ميں اسے sprit کا نام ديا گيا . اس كے بعد جب۔ نفسيات ،psychology.كى دنيا آئی تو اسے mind يا سايكى psyche كها گيا.
ايک تو انسان کا مادی جسم ہے طبيعى جسم جو حيوانى سطح كى چيز هے اور اسکے تقاضے وہی ہيں جو ہر حيوان كے ہيں ۔
دوسری چيز جو انسان كو جانداروں سے الگ کرتی ہے وہ ہے اس کا اختيار أور اراده.
يه جو نظريه ہے کہ انسان کے اندر ايک قوت ايسى پیدایشی طور هے جسے ضمير يا conscious كهتے ہيں ،جو حق أور باطل ميں فرق کرتی ہے يه نظريه قران كى رو سے درست نہی۔
انسان کے اندر کوی ايسى قوت پيدايشى طور پر نہی رکھی گی جو مطلق حق أور مطلق باطل ميں فرق کر سکے۔
يه چيز انسان وحى خداوندى كى مدد سے سيکھتا هے ۔
حيوانات ميں جبلت instinct ہوتی ہے وہ انہیں أيك هى راستے پر جو ان ميں وديعت كيا هوتا هے اسی پر چلنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔
انسان کو اختيار أور اراده كى صلاحيت سے نوازا گيا هے اور اسے دونوں راستے دکھا دئے ہیں ،وحى كى رو سے بتا ديا هے دو ميں سے أيك راسته اختبأ كرے اور دوسرا چھوڑ دے۔
انسان کو اختيار ديا هے کہ وہ جو چاہے راستہ اختيار كرے ۔ مگر وحى نے اسے بتا ديا كه كونسا راسته حق هے ۔
قرآن کہتا ہے کہ انسان کو اللہ نے اپنی روح ميں سے ايک شمہ ديا ،يعنى اپنی روح (توانائی) دی جس نے اسے اس قابل بنا ديا كه اب وه اپنے ارادے اور اختيار ميں مختار هے ۔اس توانائی يا روح كو قران نے "نفس" سے تعبير كيا هے۔
يه نفس هے جو انسان کا کوئی کام يا عمل كى زمىيدارى ليتا هے۔
نفس يعنى فيصله كرنے والا۔ارادہ کرنے والا۔ جسے عرف عام ميں ،"ميں يا آئی "کھا جاتا ہے۔ قرآن اسے نفس کہ کر پکارتا ہے۔
يهى “ميں” انسان میں ہے ہوتی ہے جو ہر کام کی زمہ داری ليتى هے۔مسلاً هم جو كهتے ہیں ميں نے يه كيا،بس يهى ميں ہی نفس ہوتی ہے۔
قرآن کھتا ہے کہ يه نفس ،جسم کی موت کے ساتھ نہی مرتا بلکہ اپنی ساری زمہ داريوں کی گانٹھ اٹھایے ان کے نتائج بھگتنے کے لے آگے چلا جاتا ہے۔
قرآن انسانی نفس کو تين درجوں ميں بتاتا ہے۔
سيكالوجى كے ماہر نفس کی ان قسموں سےاچھی طرح واقف هيں۔
نفس امارہ۔
نفس لوامہ۔
نفس مطمئن ہ۔
دراصل يه تين الگ نفس نہی بلکہ أيك هى نفس كى الگ الگ خصوصيات هيں ۔ جو مختلف حالات ميں افعال ہوتی ہیں ۔
مگر ہوتا وہی أيك نفس هى هے۔
نفس امارہ ۔انسان کو برائی يا باطل كت لے آمادہ کرتا ہے۔
نفس لوامہ انسان کو برائی سے روکتا ہے يا پھر اس بات پر ملامت کرتا ہے ۔
نفس مطمئنہ وہ کفيت هے جہاں انسان کو اضطراب أور كشمكش سے سکون ميں لے آتی ہے،
قران نفس امارہ كى مثال سورة يوسف ميں عزيز كى بيوى سے منسوب کرتا ہے۔
"ان النفس لامارة بلسوء الا ما رحم ربى" عزيز كى بيوى نے جب اپنی لغزش كا اعتراف كيا تو اس نے کھا تھا کہ"ما ابریءُ نفسی"
ميں اپنے آپکو بری الذمہ قرار ديتى.
يه جو نفس هے يه برائی کے لیے آمادہ کرتا رہتا ہے،اکساتا رہتا ہے۔
يهاں قرآن نے أيك يه بات بھی بتائی ہے کہ يه نفس بنيادى طور پر ہميشه برائی کی طرف نہی لے کر جاتا۔قرآن نے کھا ہے يه جو نفس هے وہ برائی کئ طرف بھی لے جاتا ہے مگر جس پر خدا کی رحمت هو يعنى جو الله كت قوانين كى پاسداری کرتا ہو اسے يه برائی کی طرف نہی لےجاتا۔
امارہ کے معانی ہوتے ہيں بڑی شدت سے امر کرنے والا۔اکسانے والا۔
جب انسان۔ کوی برائ کرتا ہے تو أيك چيز جو اسے يه احساس دلاتى هے کہ اس سے برائی سر زد ہوی جسے ہم ضمير كى أواز كهتےہیں قرآن اسکو نفس لوامہ کہتا ہے۔
کسی انسان کا تزکيه،پاکيزگی، سيرت كى بلندى هى قران كا مقصود هے۔
لوامہ کے معنی ہوتے ہيں ملامت کرنے والا۔
قرآن۔ کی رو سے انسان کے اندر کوی ايسى چيز پيدايشى طور پر نهي هوتی جس سے وہ حق أور باطل كى تميز كر سکے،وہ يه چيز خارجى دنيا سے وحى كى رو سے سيکھتا هے۔ اگر يه چيز انسان كے اندر از خود هوتى تو پھر اسے نا کسی وحی کی ،نا کسی ہدایت كى أور نا رسول كى ضرورت هوتى.
ايک چيز هوتى هے جسے کسی معاشرہ يا ماحول كے رسم و رواج کے مطابق اچھا يا برا سمجها جاتا هے اسے relativeکہتے ہيں ۔اور أيك هوتى هے جسے حقيقتاً اچھا يا برا سمجها جاتا هے ،اس ميں معاشرہ يا ماحول كوى اهميت نهي ركھتا ، يه هوتا هے مطلق سچائی يا absolute truth.
جيسے خير أور شر.جيسے أيك چيز حقيقتاً غلط هے ،يا حق هے ۔دوسری چيز هوتى ہے جس کا کسی چيز كا صحيح يا غلط اس موقع كى مناسبت سے ہوتا ہے۔
مطلق خير أور مطلق شر كا علم. صرف أور صرف وحى کے زريعے سے حاصل هوتا هے۔ اس کا علم انسان کو اندر سے نہی ملتا ۔يه صرف وحى کے ذريعے سے رسولوں کی وساطت سے ملتا ہے۔
پيدائش كے اعتبار سے ہر انسانی بچہ واجب التکريم هوتا هے ،انسان ہونے کے ناطے تکريم اس كا حق هے۔
جس ماحول ميں وہ بچہ پرورش پاے گا وہ اس ماحول كا اثر لے گا اور اس ماحول كى اچھی يا بری باتيں اس کے ضمير كى اواز بن جايُں گئیں۔
جسے ہم انسان کے ضمير كى أواز كهتے ہيں وہ حق أور باطل كا فيصله كرنے کا معيار نهي هوتى،جس قسم كے معاشرے ميں کوی پروان چڑھے گا اسی قسم کی اسکا ضمير هو جاے گا۔ يا اس بات كو ايسے سمجھ ليا جاے کہ اگر وحی کا علم انسان کی زندگی ميں سے خارج هو تو،انسان کا نفس لوامہ اس کو ان باتوں ہر ملامت کرنے کو کہتا ہے جن کے متعلق اسے شروع سے بتايا جاتا هے کہ وہ بری ہيں۔
نفس لوامه كي يه خصوصيت هے کہ جس چيز كو وه برا سمجتها هے اس پر ملامت کرتا ہے .
نفس مطمئنہ، يهاں پہنچ کر آنسان کی زات مکمل ہو جاتی ہے۔
قرآن کے مطابق يه وه نفس ہے جو انسان کو جنت يعنى اگلی کامياب ذندگی کے قابل بناتا ہے۔
اس لیے قرآن کہتا ہے"يايتها النفس المطمئنة، ارجعى الى ربك راضية مرضية، فادخلى فى عبدى ، وادخلى جنتى".
89/27-30.
يه هے نفس مطمئنہ کی ،balanced personality or mind, کا وہ مقام جھاں پہنچ کر کوی اضطرار أور كشمكش نهي رهتى.انسان كو زهنى اطمئنان حاصل هو جاتا هے اس نے اس زندگی میں صحيح فيصلے کئے ہیں،صحيح روش پر چلا اور صحيح مقام حاصل كيا.يهى وه مقام هے کہ جس کو وہ کہتا ہے کہ جنت ميں جانے کا اہل ہو گيا.
وه شخص جس نے قانون الہی کے اتباع سے دل کا اطمينان حاصل كر ليا13/28.
يعنى جس كى زات كى صحيح نشو نما هوى أور ذات کا پورا توازن قائم ہو گيا 91/9 اس سے کہا جاے گا تيرى ذندگی قوانين خداوندى سے ہم اہنگ رہی اس لئے تيرى زندگی خوش گواريوں کی حامل هو گی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔