میرا ملک جل رہا ہے۔ نفرت میرے ملک کی سڑکوں پر رقص کر رہی ہے۔ میرے ملک کے بچوں کے ہاتھ میں کتاب نہیں پتھر اور ڈنڈے ہیں۔ میرے ملک کی سڑکوں پر ناموس رسالت کے لیے پرتشدد مظاہرے جاری ہیں۔ جس میں دو پولیس اہلکار شہید ہوۓ اور تین سو سے زائد زخمی اسپتالوں میں پڑے ہیں۔ ایمبولینس میں موجود مریض بھی اس نفرت کا شکار بن رہے ہیں۔ پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنا کر لبیک یا رسول اللہ کے نعرے لگواۓ جاتے رہے۔ یہ منظر دیکھ کر مجھے پڑوسی ملک بھارت میں ہونے والے اس واقعہ کی ویڈیو یاد آ گئ جہاں ایک مسلمان کو بالکل اسی طرح مجبور کیا جا رہا تھا کہ وہ جے شری رام کے نعرے لگاۓ
ریاست اور انتظامیہ اس معاملے میں بے بس رہی اور اسکی زمہ داری حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے جس نے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا وعدہ کیا اور پھر وعدہ خلافی کی۔ جب حکومت معاہدہ کر رہی تھی تو کیا حکومت کو اندازہ نہیں تھا کہ ہمارے سر پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹک رہی ہے۔ کیا حکومت کو اندازہ نہیں تھا کہ اس سب کے بعد پاکستان گرے لسٹ سے بلیک لسٹ تک جا پہنچے گا۔ کیا حکومت کو نہیں معلوم کے ہم اربوں ڈالرز کے مقروض ہیں۔ ماضی میں بھی 2017 سے اب تک تحریک لبیک کے ساتھ معاہدے کیے جاتے رہے۔ 2017 میں اس وقت جب ن لیگ کی حکومت تھی تو تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف تحریک لبیک کا بھرپور ساتھ دیا۔ اب 2021 میں وہی منظر ہے لیکن تحریک انصاف اقتدار میں ہے اور ن لیگ حزب اختلاف میں ہے۔ آج تحریک انصاف نے ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دے دیا ہے اور ن لیگ نے تحریک لبیک کے ان غیر قانونی اور انتہا پسندانہ اقدامات کی بالکل بھی مذمت نہیں کی۔ یعنی نہ تو حکومتی اور نہ ہی حزب اختلاف کی صفوں میں کوئی روشن خیال سوچ موجود ہے۔ اپنے مفادات اور حالات کے مطابق یہ جماعتیں موقف تبدیل کرتی رہی ہیں۔ تحریک لبیک نے 2017 میں فیض آباد میں دھرنا دیا۔ اس کے بعد نیشنل کاؤنٹر ٹیررزم اتھارٹی نے اپنی رپورٹ میں تحریک لبیک کو معاشرے کیلئے خطرہ قرار دیا۔ رپورٹ کے مطابق تحریک لبیک معاشرے میں متشدد سوچ میں اضافے کی وجہ بنے گی اور دیگر فرقہ وارانہ جماعتوں کو بھی فساد کا موقع ملے گا۔ 2019 میں فیض آباد دھرنے کیس کا فیصلہ سنایا گیا۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے فیصلے میں لکھا کے اس دھرنے سے شہری نظام مفلوج کیا گیا اور معاشرے میں نفرت کا پرچار کیا گیا۔ مزید اس فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا کہ حفیہ ادارے کی رپورٹ کے مطابق موجودہ وزیر داخلہ شیخ رشید، اعجاز الحق اور تحریک انصاف کے علماء ونگ نے آڈیو پیغامات جاری کیے۔ فیصلے میں مزید لکھا گیا کہ اس سارے معاملے میں مذہب کو استعمال کر کے سیاسی فوائد حاصل کیے گئے۔
اسی طرح 2017 سے 2021 تک تحریک لبیک کچھ ایسی ہی سرگرمیاں کرتی رہی اور ریاست سرنڈر کرتی رہی۔ آج حکومت نے تحریک لبیک کو کالعدم قرار دے دیا ہے اور تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی کے اثاثے منجمد کرتے ہوۓ ان کا نام دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔ لیکن کیا اس جماعت پر پابندی معاشرے میں متشدد سوچ کا خاتمہ کر دے گی۔ دراصل یہ حکومت معاشرے سے متشدد سوچ کا خاتمہ چاہتی ہی نہیں۔ اگر ایف اے ٹی ایف کی تلوار نہ لٹک رہی ہوتی تو آج یہ جماعت کالعدم نہ قرار دی جاتی ۔ اور کیا یہ پابندی بھی مؤثر ہے یا نہیں۔ ماضی میں بھی عالمی دباؤ کیوجہ سے ایسی تنظیموں اور جماعتوں پر پابندیاں لگتی رہی اور وہ جماعتیں روپ بدل کر پھر سے سیاسی نظام کا حصہ بن گئ۔ 2017 میں سیاسی نظام کا حصہ بننے والی جماعت اس قدر مقبول ہو گئ کہ 2018 کے انتخابات میں پنجاب میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی جماعتوں میںں غالباً تیسرے نمبر پر رہی۔ کیا اس مقبولیت کی وجہ تحریک لبیک کا بیانیہ تھا جس کی بنیاد مذہب تھا یا تحریک لبیک کے پیچھے کوئی ایسی قوت تھی جو اس ملک میں جو چاہے کر سکتی ہے۔ تحریک لبیک نے مذہب کے نام پر بھرپور سیاست کی اور اپنی طاقت کا مظاہرہ دھرنوں کے ذریعے کیا۔ صورتحال کچھ ایسی معلوم ہوتی ہے کہ جیسے کسی نے سانپ پالے تھے اور اب وہ سانپ پالنے والوں کو ہی کاٹ رہے ہیں۔ لیکن پالنے والوں نے اب کی بار سانپوں کو نیم بے ہوش کرنا شروع کر دیا ہے۔ لیکن یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ پالنے والوں کا موڈ ہوا تو اپنے سانپوں کو ہوش میں لے آئیں گے۔ خیر سانپ جانیں اور وہ۔ مجھے تو اس بات کا دکھ ہے کہ میرے ملک کے بچوں کے ہاتھ میں کتاب نہیں پتھر ہیں۔ ہماری نسلیں آرٹ، فلسفے اور سائنس سے ناواقف ہیں۔ وہ مذہبی جنون کا شکار ہیں جو بہت خطرناک ہے۔ یہ مذہب سے محبت اور برداشت نہیں انتہا پسندی سیکھ رہے ہیں۔ ہمارے علماء منبروں پر بیٹھ کر گردنیں اڑانے کا درس دیتے ہیں۔ وہ جسے چاہیں واجب القتل اور کافر قرار دے دیتے ہیں۔مشعال جیسے چراغ بجھا دیے جاتے ہیں۔ سوالات مار دیے جاتے ہیں۔سوچ اور نظریات دفن کر دیے جاتے ہیں لیکن مذہب کے نام پر نفرت پھیلانے والوں کا سلسلہ یونہی جاری ہے۔ کیا ہم کبھی تلوار پر کتاب کو ترجیح دیں گے۔ ہم کبھی نفرت پر محبت کو ترجیح دیں گے۔ کیا ہم امرجلیل کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے سے پہلے فن کی گہرائیوں کو سمجھنے کی کوشش کریں گے یا ہم یونہی استعمال ہوتے رہیں گے۔
اس ملک میں دو بیانیے بہت عام ہیں ایک یہ کہ اسلام خطرے میں ہے اور دوسرا یہ کہ پاکستان خطرے میں ہے۔ اسلام کے مخافظ بھی ہمارا لہو پی رہے ہیں اور پاکستان کے مخافظ بھی۔
ہمارا خون پینا چاہتے ہیں
عناصر ہیں جو جینا چاہتے ہیں
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...