شام ڈھل رہی تھی جب ہم قصبے میں پہنچے۔ کھانا کھایا۔ میزبان سے گپ شپ کی اور سو رہے!
دوسرے دن علی الصبح اس کام کیلئے نکلے جس کیلئے بلائے گئے تھے۔ ساتھ ایک معروف معمار تھا جو اس قلمکار کا دوست تھا۔ ہمارے میزبان کی، جو دوست بھی تھا، آبائی حویلی کو معمار نے دیکھنا تھا۔ مالک چاہتا تھا کہ تھوڑی بہت مرمت ہو جائے اوررنگ روغن سے اس کی شان و شوکت پلٹ آئے۔
معمار دیکھتا رہا۔ ایک ایک دالان کو، ایک ایک راہداری کو، ایک ایک خواب گاہ کو، ایک ایک ستون کو، ایک ایک چھت کو، ایک ایک ڈیوڑھی کو۔ اس کا چہرہ سپاٹ تھا۔ بہت دیر کے بعد اس نے چائے کی فرمائش کی۔ ہم ڈیوڑھی میں بیٹھ گئے۔ بوسیدہ برقی پنکھے کو ایک طویل ڈنڈا چھت سے جوڑے ہوئے تھا!
’’جناب! یہ صرف معمولی مرمت اور رنگ روغن کا مسئلہ نہیں! سالہا سال آپ نے اس حویلی کو اپنی توجہ سے محروم رکھا۔ اس کی چھتیں سجدہ ریز ہونے والی ہیں۔ اس کے ستون ہل رہے ہیں۔ دیواروں کے پتھر باہر آنے کیلئے بے تاب ہیں۔ اب تو کوئی تجربہ کار مجرم بھی نقب لگائے تو دیوار اس کے اوپر آن گرے‘‘۔
پوری کی پوری حویلی خستہ اور شکستہ ہوچکی ہے۔ کیا دالان کیا برآمدے! تاجروں کو حکومت نے ایک معقول حکم دیا کہ آٹھ بجے کاروبار بند کرو۔ ساری دنیا میں یہی ہوتا ہے۔ نہ مانے۔ بلیک میلنگ شروع ہوگئی۔ حکومت وقت بہرطور، اس طبقے کیلئے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ آٹھ سے دس بجے تک بات پہنچی۔ اس پر بھی عملدرآمد نہ ہوا۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کی اکثریت ٹیکس نہیں ادا کرتی یا لیت و لعل سے کام لیتی ہے۔ خالص خوراک اور خالص دوا خال خال ملتی ہے! تجاوزات ہیں‘ ناجائز قبضے ہیں۔ حلال حرام کی تمیز کم رہ گئی ہے۔ حکومت کی رٹ مانتے ہی نہیں!
کیا دالان کیا برآمدے! طلبہ جن کا تعلق علم سے ہے، ان کی حالت یہ ہے کہ کرایہ مانگا جائے تو کنڈکٹروں کو پیٹتے ہیں، شاہراہیں مسدود کر دیتے ہیں۔ اساتذہ سے یوں مخاطب ہوتے ہیں جیسے وہ ان کے خاندانی ملازم ہیں۔ ان کے لیڈر یونیورسٹیوں میں کینٹینوں سے مفت خوری کے مرتکب ہوتے ہیں۔ مہمان کا ہوسٹل میں رات گزارنا منع ہو تو اپنے ہم عمر کو والد بتاتے ہیں اس لئے کہ والد کو ٹھہرنے کی اجازت ہے! علم انکسار اور تواضع سکھاتا ہے یہاں گدھوں کی پشت پر کتابوں کے انبار لدے ہیں!
کیا دالان کیا برآمدے، الیکٹرانک میڈیا ڈراموں کی آڑ میں ایسا خطرناک کھیل کھیل رہا ہے جس کے نتائج، اردگرد دیکھئے تو، صاف نظرآنے لگے ہیں، معاشقے اور طلاق کے علاوہ ان ڈراموں کا کوئی موضوع ہی نہیں۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب انٹرٹینمنٹ کی فلموں میں بھابی کو ماں کہا، سمجھا اور دکھایا جاتا تھا۔ اب ڈراموں میں ہر تیسرا کردار ، بھابی سے عشق لڑا رہا ہے۔ شوہر، بیویوں کو پیٹ رہے ہیں۔ لڑکیاں والدین سے کہہ رہی ہیں ’’میری اپنی زندگی ہے‘‘ ذرا ذرا سی بات پر گھر اجاڑ دینا دکھایا جا رہا ہے۔ جتنے ناجائز تعلقات ہمارے ڈراموں میں فلمائے جا رہے ہیں اتنے تو لاس اینجلس میں ان لڑکیوں کے نہ ہوں گے جو فلمی دنیا میں قسمت آزمائی کرنے اور ہرحربہ آزمانے ہالی وڈ کے اردگرد منڈلاتی ہیں۔ ٹی وی چینلوں کو ریٹنگ اور لکھنے والوں کو معاوضے کے علاوہ کسی شے کی فکر نہیں۔ انٹرٹینمنٹ انڈسٹری نہ ہوئی، ساہوکارہ ہوا۔
کیا دالان کیا برآمدے! ضلع سیالکوٹ کے ستائیس تھانوں کے ایس ایچ اوز نے اجتماعی استعفوں کا اعلان کر دیا ہے۔ پولیس کا ایک اعلیٰ افسر بھاگا بھاگا پہنچا اور معاملہ موخر کرایا! یہ ’’مذاکرات‘‘ کئی گھنٹوں پر محیط تھے! ان تھانیداروں نے پولیس کے ساتھ روا رکھی جانے والی ’’ناانصافیوں‘‘ کا رونا رویا۔ یہی نہیں، ان حضرات نے تحریری درخواست میں مطالبہ کیا کہ انہیں اختیارات دیئے جائیں ورنہ کام نہیں کریں گے۔
یہ وہ پولیس فورس ہے جو آسمان گر پڑے یا زمین دھنس جائے، استعفوں کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ انہوں نے اس ظلم پر کبھی استعفے نہیں دیے کہ انہیں وی آئی پی کی حفاظت کے نام پر محلات کے دروازوں پر کیوں کھڑا کیا جاتا ہے۔ پولیس کے ہزاروں نوجوان رائیونڈ، ماڈل ٹائون، گلبرگ اور جی او آر کے محلات پر ڈیوٹیاں دے رہے ہیں جو کسی قانون کے زمرے میں نہیں آتیں۔ یہ جوان گھنٹوں… پہروں وی آئی پی موومنٹ کے وقت سڑکوں پر بھوکے پیاسے کھڑے رہتے ہیں مگر ان کے انچارج ایس ایچ اوز کو پروا ہی نہیں ہوتی، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری اس پولیس فورس سے کنٹرول ہونے کی بات تو چھوڑیے، چار دن پہلے دنیا ٹی وی پر اینکرپرسن کامران شاہد نے پوری ذمہ داری سے بتایا کہ فیصل آباد میں پولیس والے خود ان جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں اور یہ اطلاع خفیہ اداروں نے حکمرانوں کودی ہے! دارالحکومت کی ایک نواحی آبادی میں عوام نے متعلقہ ایس ایچ اوز کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ استعفے اس وقت نہیں دیئے جب ذوالفقار چیمہ جیسے دیانتدار پولیس افسروں کو کھڈے لائن لگایا جاتا ہے۔ اب جو قولنج کا درد اٹھا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ دو افراد کو ڈسکہ میں دن دیہاڑے قتل کرنے والے پولیس انسپکٹر کوگرفتار کرلیا گیا۔ اسی پر ’’اختیارات‘‘ کا مطالبہ ہو رہا ہے۔ اختیار سے مراد یہ ہے کہ قتل کرنے پر پوچھ گچھ نہ ہو۔ تھانیدار صاحب کی گرفتاری؟ یہ اس پولیس سٹیٹ میں کس طرح ممکن ہوئی !
آپ کا کیا خیال ہے، دو شہریوں کے قاتل کو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی؟ آپ بھی اس ملک میں رہتے ہیں اور لکھنے والا بھی۔ جواب سب کو معلوم ہے! پنجاب پولیس کے افسران اعلیٰ زیادہ نہیں، صرف گزشتہ تین سال کے اعدادوشمار سے صوبے کے عوام کو آگاہ فرما دیں کہ تھانوں میں ’’تفتیش‘‘ کے دوران کتنے ملزم موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں اور کتنے ذمہ داروں کو آج تک سزا ملی ہے؟انسانی خون داروغہ فورس پر ہمیشہ معاف رہا ہے۔ اور اب استعفوں اور مطالبات کامقصد یہ ہے کہ آئندہ بھی معاف ہی رہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ شوروغوغا اتنا اٹھے کہ حکومت سزا دینے پر مجبور ہوجائے۔
ہم ارباب اختیار سے التماس کرتے ہیں کہ معصوم افسر کو رہا کردیا جائے اور مقتولوں کے لواحقین کو فوراً گرفتار کرکے قرارواقعی سزا دی جائے تاکہ آئندہ کسی تھانیدار کے کسی ایکشن پر کسی کو اعتراض کرنے کی جرأت ہی نہ ہو۔
یار لوگوں کو شکایت ہے کہ نافرمان لوگ
خاندانوں سے الجھنے آ گئے شیطان لوگ؟
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔