نعیم بیگ کا ناول ڈئیوس ، علی اور دیا ایک تاثراتی نوٹ
میرا ماننا ہے کہ ناول کا مستقبل تابناک ہے کیوں کہ یہ ہماری تہذیب کا بہت بڑا عوامی آرٹ ہے اوراس کے ذریعہ زندگی کے اسرار ورموز کی نقاب کشائی بھرپور طورپر ہوتی رہی ہے۔ملک کا تہذےبی پس منظر بھی اس میں ہے ا ور اکیسویں صدی کے مسائل اور زندگی کی تفہیم اردو ناول کے امتےاز مےں شامل ہے۔
نعیم بیگ کا تعلق پاکستان کے ادبی حلقہ لاہور سے ہے۔ آپ ایک معروف افسانہ نگار اور ناول نگار ہیں۔ مختلف اخبارات ، رسائل اور جرائد میںآپ کے مضامین شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان کی پیش نظر کتاب ”ڈئیوس، علی اور دیا“ان کا پہلا اردو ناول ہے۔ اس ناول میں تاریخی حوالوں سے عصری سماجی حالات کی عکاسی کی گئی ہے۔ آپ کے ناولوں کا انداز بیان بہت سادہ ، سلیس اور شگفتہ ہے۔ قاری اس حدتک متاثر ہوجاتا ہے کہ جب کتاب کو ایک بار پڑھنا شروع کرتا ہے تو ختم کرکے ہی دم لیتا ہے۔ اس ناول کا پہلا باب دھوئیں کے پار ہے جس میں انہوں نے خوبصورت استعارات و تشبیہات سے اردو شائقین کو محظوظ کیا ہے۔ پیش خدمت ہے ایک مختصر مگر جامع اقتباس:
”یہ میرا ذاتی خیال ہے ، اگر تم نے محبت نہیں کی، تو تم نے زندگی کا لطف چکھا ہی نہیں۔ تم اسے یوں کہہ سکتے ہو کہ محبت زندگی کا دوسرا نام ہے“
”رکو ، رکونعمان نے اسے وہیں ٹوک دیا۔ تم صرف محبت کو زندگی کا دوسرا نام نہیں دے سکتی۔ زندگی تو کیفیت ہے ، ایک بہاﺅ ہے، جو دیا کی مانند بہتا چلا جاتا ہے اور اس کے راستے میں آنے والے کھیت، کنارے، لوگ ، پتھر ، دوست اور دشمن سبھی اس کے بہاﺅ سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ کم از کم تم اسے صرف محبت تک پابند یا محدود نہیں کر سکتی۔ ہاں محبت اس کی روانی کا موجب ضرور ہے۔“
اس اقتباس کے ذریعہ نعیم بیگ نے زندگی کی حقیقت کو اجاگر کرنے کی بڑی کامیاب کوشش کی ہے۔ زندگی کے کئی مقاصد ہوتے ہیں صرف محبت کو زندگی کا دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا ۔ محبت لفظ کا استعمال وسیع معنی میں کیا جانا چاہئے۔ ہر انسان سے محبت، چرند پرند سے محبت، یہاں تک کے کائنات کی ہر شئے سے محبت کا جذبہ ہونا چاہئے۔
ناو ل کا دوسرا باب ”روشن آسمان“ ہے۔ اس میں مکالمات کا انداز بیان ناول کوآسمان کی بلندی عطا کرتا ہے۔ ان کا جذباتی انداز دیکھیں:
”نعمان کہاں ہو تم؟“
”خیریت ؟کیا ہوا۔“
”اڈیالہ جیل پہنچو۔میں وہیں آرہی ہوں۔“
سارہ نے سگریٹ کا ایک لمبا کش لیتے ہوئے اسے باہر پھینک دیا۔ تیزی سے گاڑی کو سٹارٹ کیا اور ہسپتال سے باہر نکل آئی۔ اس کا رخ جنوب مشرق کی جانب اڈیالہ جیل کی طرف تھا۔“
اگلا باب ”دیوانگی “ ہے۔ انسان عمر بھر انجان رستوں کے سفر پر گامزن ہوتا ہے۔ کبھی کبھی وہ اسے یہ خیال درپیش ہوتا ہے کہ اگر زندگی میں ایسا نہ ہوتا تو وہ ہوتا ۔ا س طرح کے سوالات میں الجھ کر زندگی کی گاڑی مسلسل جاری رہتی ہے۔ ایسے حالات کا نقشہ نعیم بیگ نے بڑی چابکدستی سے کھینچا ہے۔ لکھتے ہیں:
”میں سماج میں پھیلے ان منقسم خیالات پر مبنی توہمات پرستی، انسان دشمنی اور ریتی رواج کا قائل نہیں جہاں انسان پیچھے رہ جائے اور ضابطے سامنے ہوں۔ ضابطے انسانوں کے لئے ہوسکتے ہیں انسانیت کے لئے نہیں۔“
ایک باب ”پہلی بہار “کے عنوان سے ہے جس میں نعیم بیگ صاحب نے ناول میں دلچسپی کی غرض سے رومانیت کی فضا ہموار کی ہے۔ کئی جگہ رومانی جملوں کااستعمال دلفریبی اور کسک پیدا کرتا ہے ۔ ملاحظہ ہو ایک اقتباس:
”شا م کا وقت تھا جب اماں ہمسایہ میں کہیں نکلیں ہی تھیں کہ وہ آن دھمکی۔ اس وقت گھر میں اور کوئی بھی نہ تھا۔ میں اپنے پلنگ پر نیم دراز ایک کتا ب پڑ رہا تھا کہ اس نے شرارت کرتے ہوئے میرے ہاتھ سے کتاب چھین کر ایک جھٹکے سے ہوا میں اچھال دی۔ میں اس کتاب کو اٹھانے کے لئے لپکا تو یہ دانستہ خود بھی کتاب کو تھامنے کے لئے مجھے ساتھ لیتے ہوئے پلنگ پر آن گی۔کنوارے اور نا آشنا جسموں میں سکینڈ کے ملی حصے میں سونامی کی ایک بلند لہر نمودار ہوئی اور دل و دماغ کو تہ تیغ کرتی ہوئی اس مقام پر آن پہنچی جہاں سے واپسی ناممکن ہوجاتی ہے۔“
اس طرح نعیم بیگ کے اس ناول ”ڈئیوس، علی اور دیا“میں سماجی المیوں و اقتدار کی نابرابری میں پائی جانے والی سازشوں کی جھلک ملتی ہے۔ رومان اور جمالیات کی ایک مضبوط فضا قائم ہوتی ہے۔ قارئین کو ایک سبق کے ساتھ لطف اندوزی کا ذریعہ بھی فراہم ہوجاتا ہے۔ امید ہے کہ نعیم بیگ کا یہ ناول فکر و آگہی کے نئے زاویے کھولنے میں معاون ہوگا اور ادبی حلقے میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ نعیم بیگ کا یہ ناول 240صفحات پر مشتمل ہے اور اس کی قیمت 400روپے ہے ۔ نعیم بیگ کی پانچویں کتاب ہے اور اس سے قبل ان کی چار کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“