نادؔر کاکوروی اردو کے ممتاز شاعر اور تھامس مور آئرلینڈ کے انگریزی زبان کے شاعر ہیں، دونوں شعرا کی شاعری کے موازنہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ دونوں شاعروں نے اپنی اپنی نظموں میں انسانی جذبات، بچپن کی یادوں، اور ماضی کی تلخ و شیریں یادوں کو انتہائی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نادؔر کاکوروی کی نظم ’’اکثر شبِ تنہائی میں‘‘ دراصل تھامس مور کی مشہور انگریزی نظم کا ترجمہ ہے، لیکن اس ترجمے میں احساسات و جذبات کی وہی شدت اور دلکشی موجود ہے جو اصل نظم میں پائی جاتی ہے۔
دونوں نظموں کا مرکزی خیال تنہائی کے لمحات میں گزری ہوئی زندگی، دوستوں کی محبت اور کھوئے ہوئے لمحات کی یادیں ہیں۔ تھامس مور نے اپنی نظم میں یادوں کو رات کے خاموش اور ساکن لمحوں سے تشبیہ دی ہے۔ اس صورت حال کے دوران گزرے ہوئے لمحات کی یادوں کا سلسلہ ان کے ذہن میں تازہ ہوتا ہے اور وہ ماضی کے خوشی اور غم بھرے دنوں کو یاد کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ نادؔر کاکوروی نے بھی اپنی نظم میں ان ہی جذبات کو پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہے، لیکن نادر کاکوروی نے اردو کے مخصوص انداز اور الفاظ کے استعمال سے اس میں مزید دلکشی اور گہرائی پیدا کی ہے۔
نادؔر کاکوروی کے ترجمے میں جذبات کی مکمل عکاسی کی گئی ہے۔ نادؔر کاکوروی کا ترجمہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اصل نظم اردو میں ہی لکھی گئی ہو۔ انہوں نے نظم کے جذبات، احساسات اور منظر نگاری کو بڑی خوبصورتی سے اردو میں منتقل کرنے کی کوشش کی ہے۔ جہاں تھامس مور نے “Fond memory brings the light” جیسے الفاظ میں ماضی کی یادوں کو زندہ کرنے کا ذکر کیا ہے، وہیں نادؔر کاکوروی نے اردو میں اسے “بنتے ہیں شمعِ زندگی” جیسے خوبصورت الفاظ میں بیان کیا ہے۔ یہ الفاظ نہ صرف ماضی کی خوبصورت یادوں کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ ان کی گہرائی کو بھی بخوبی ظاہر کرتے ہیں۔
دونوں نظموں میں تنہائی اور ویرانی کا ذکر خوبصورتی سے کیا گیا ہے تھامس مور نے اپنی انگریزی نظم میں تنہائی اور کھوئے ہوئے دوستوں کی یاد کو ایک ویران جشن گاہ کی مانند پیش کیا ہے، جہاں تمام چراغ بجھ چکے ہیں اور خوشیاں ماند پڑ چکی ہیں۔ جبکہ نادؔر کاکوروی نے اسی خیال کو اردو میں ایک ویران اور خالی گھر کے طور پر پیش کیا ہے جس کے در و دیوار شکستہ ہیں، کھڑکیاں ٹوٹ چکی ہیں، اور اندھیرے کا راج ہے۔ یہ بیان اردو نظم میں ایک خاص ویرانی اور اُداسی کی فضا پیدا کرتا ہے جو کہ پڑھنے والے کے دل کو چھو لیتا ہے۔
نادؔر کاکوروی نے نظم میں اردو کی خاص تشبیہات، تلمیحات اور استعارے استعمال کیے ہیں جیسے “اک سبزۂ پامال ہے، اک پھول کملایا ہوا، ٹوٹا ہوا، بکھرا ہوا” جو کہ نظم کے اُداسی بھرے ماحول کو مزید گہرا اور دلکش بناتے ہیں۔ جبکہ تھامس مور کی نظم میں بھی ایسی ہی جذباتی تشبیہات موجود ہیں جو وقت کے گزرتے اثرات کو ظاہر کرتی ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ نادؔر کاکوروی اور تھامس مور دونوں نے اپنی نظموں میں تنہائی اور ماضی کی یادوں کے ذریعے ایک گہری جذباتی کیفیت کو اجاگر کیا ہے۔ دونوں شاعروں کی نظموں میں وہی افسردگی، ماضی کی کھوئی ہوئی خوشیاں، اور یادوں کی تلخی و مٹھاس محسوس ہوتی ہے۔ نادؔر کاکوروی کا اردو ترجمہ اصل نظم کے جذبات کی مکمل عکاسی کرتا ہے اور اسے اردو کے قارئین کے لیے ایک یادگار اور دلکش انداز میں پیش کرتا ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے اردو اور انگریزی دونوں نظمیں پیش خدمت ہیں۔
اکثر شب تنہائی میں
کچھ دیر پہلے نیند سے
گزری ہوئی دلچسپیاں
بیتے ہوئے دن عیش کے
بنتے ہیں شمع ِ ذندگی
اور ڈالتے ہیں روشنی
میرے دل ِ صد چاک پر
وہ بچپن اور وہ سادگی
وہ رونا اور ہنسنا کبھی
پھر وہ جوانی کے مزے
وہ دل لگی، وہ قہقہے
وہ عشق ،وہ عہدِ و فا
وہ وعدہ اور وہ شکریہ
وہ لذتِ بزم ِ طرب
یاد آتے ہیں ایک ایک سب
دل کا کنول جو روز و شب
رہتا شگفتہ تھا سو اب
اسکا یہ ابتر حال ہے
اک سبزۂ پا مال ہے
اک پھول کُملایا ہُوا
ٹوٹا ہوا، بکھرا ہُوا
روندا پڑا ہے خاک پر
یوں ہی شبِ تنہائی میں
کچھ دیر پہلے نیند سے
گزری ہوئی ناکامیاں
بیتے ہوئے دن رنج کے
بنتے ہیں شمع ِ بےکسی
اور ڈالتے ہیں روشنی
ان حسرتوں کی قبر پر
جو آرزوئیں پہلے تھیں
پھر غم سے حسرت بن گئیں
غم دوستو ں کی فوت کا
ان کی جواناں موت کا
لے دیکھ شیشے میں مرے
ان حسرتوں کا خون ہے
جو گرد ش ِ ایام سے
جو قسمتِ ناکام سے
یا عیش ِ غم ِ انجام سے
مرگِ بتِ گلفام سے
خود میرے غم میں مر گئیں
کس طرح پاؤں مَیں حزیں
قابو دلِ بےصبر پر
جب آہ ان احباب کو
مَیں یاد کر اٹھتا ہوُں جو
یوں مجھ سے پہلے اُٹھ گئے
جس طرح طائر باغ کے
یا جیسے پُھول اور پتیاں
گر جائیں سب قبل از خزاں
اور خشک رہ جائے شجر
اس وقت تنہائی مری
بن کر مُجسّم بےکسی
کر دیتی ہے پیش ِ نظر
ہُو حق سا اِک ویران گھر
ویراں جس کو چھوڑ کے
سب رہنے والے چل بسے
ٹو ٹے کواڑ اور کھڑ کیاں
چھت کے ٹپکنے کے نشاں
پرنالے ہیں روزن نہیں
یہ ہال ہے آنگن نہیں
پردے نہیں، چلمن نہیں
اک شمع تک روشن نہیں
میرے سوا جس میں کوئی
جھانکے نہ بُھولے سے کبھی
وہ خانۂ خالی ہے دل
پُوچھے نہ جس کو دیو بھی
اُجڑا ہُوا ویران گھر
یوں ہی شب ِ تنہائی میں
کچھ دیر پہلے نیند سے
گزری ہوئی دلچسپیاں
بیتے ہوئے دن عیش کے
بنتے ہیں شمع ِ زندگی
اور ڈالتے ہیں روشنی
میرے دل صد چاک پر
*
English poem by Thomas moore
*
Oft, in the stilly night,
Ere slumber’s chain has bound me,
Fond memory brings the light
Of other days around me;
The smiles, the tears,
Of boyhood’s years,
The words of love then spoken;
The eyes that shone,
Now dimm’d and gone,
The cheerful hearts now broken!
Thus, in the stilly night,
Ere slumber’s chain hath bound me,
Sad memory brings the light
Of other days around me.
When I remember all
The friends, so link’d together,
I’ve seen around me fall,
Like leaves in wintry weather;
I feel like one
Who treads alone
Some banquet-hall deserted,
Whose lights are fled,
Whose garlands dead,
And all but he departed!
Thus, in the stilly night,
Ere slumber’s chain has bound me,
Sad memory brings the light
Of other days around me.