فیصل آباد سے متعلق جدید اردو شاعری میں نادر جاجوی ایک مضبوط ، پختہ فکر اور جانی پہچانی آواز تھی ۔ان کے ہاں استادانہ شکوہ اور کلاسک کی سی رفعت خیال پائی جاتی تھی ۔بندش الفاظ و تراکیب کے ماہر مانے جاتے تھے۔ انھوں نے اپنی غزل کا خمیر میر درد ، میر تقی میر ،سودا، مصحفی ،داغ ،ذوق، اور مرزا غالب کی روایت سے اٹھایا ہے ۔جانشین مرزا ، داغ دہلوی اور علامہ نوح ناروی کے لائق ترین تلامذہ میں سے ہیں ۔ہر صنف سخن پر مہارت نامہ رکھتے تھے ۔ان کے ہاں مضامین آفرینی کے بہت نادر نمونے ملتے ہیں۔ دلکش اور دل موہ لینے والے انداز میں بلند پایہ مضامین بیان کرتے تھے ۔زبان کی نزاکتوں سے مکمل واقف و آشنا اور الفاظ کی نشست و برخاست سے مکمل آگاہ تھے ۔۔قدرت نے انھیں زبان کی مہارتوں کا خاص ملکہ عطا کیا ہوا تھا ۔۔
نادر جاجوی 6/ ستمبر 1934 پنجاب کے ایک قدیم ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ (پاکستان) میں چودھری غلام محمّد کے گھر پیدا ہوۓ ۔میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی اسکولآدھی وال ، جھنگ سے پاس کیا ، بعد ازاں 1963 کو لالہ موسیٰ سے او- ٹی کا کورس پاس کیا ۔۔اس کے بعد پنجابی فاضل کا امتحان لاہور بورڈ سے پاس کیا ۔بطور استاد اپنی سروس کا آغاز 1953 میں ریلوے ورک شاپ تعلیم بالغاں کے کیا۔ 1954 کو ایم سی ہائی اسکول تاندلیانوالا میں ٹراسنفر کروا لی۔1956 کو صابریہ سراجیہ ہائی اسکول جھنگ ،1958 کو فاروق ہائی اسکول لائل پور, 1970 کو اسلامیہ زمیندارا ہائی اسکول دسوھہ اور 1970 تا وقت ریٹائرڈ منٹ 7/ ستمبر 1994 تک پڑھاتے رہے ۔۔۔۔
انھوں نے فن کو اپنا خون جگر پلایا ہے ، اسی وجہ سے انھوں نے اردو اور پنجابی میں منفرد اور ممتاز مقام حاصل کیا ہے ۔۔انھوں نے اس وقت پنجابی لکھی جب سب لوگ اردو لکھ رہے تھے اور پنجابی لکھنے میں عار محسوس کرتے تھے ۔۔انھوں نے ریڈیو پاکستان لاہور اور پی ٹی وی لاہور کے لیے ڈرامے لکھے اور خود اپنی تخلیقات پیش کیں ہیں ۔۔
انھوں نے اپنے اظہار کے وسیلے سے وقت اور واردات قلبی میں ایک آہنگ کو دریافت کیا ہے جو اپنے کوائف میں ننگی آنکھ کا پہلا شعور ہے ۔۔نادر جاجوی کرب انگیز اور برہم آفرین واقعات کو دیکھتا ہے لیکن خود برہم نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔اور شدت احساسات کے باوجود متانت اظہار کا رویہ اختیار کرتا ہے ۔وہ جانتا ہے کہ برائی پہ نکتہ چینی کرنا کوئی متوازن اور نتیجہ خیز عمل نہیں بلکہ مناسب یہ ہے اس برائی کو احتساب کرنے کے ساتھ ساتھ ایک مثبت اور تعمیری رویے کے ساتھ نیکی کی مثال قائم کی جاۓ ۔۔یہ عمل گھپ اندھیروں میں ایک ننھا سا دیا جلانے کے مترادف ہے ۔۔کس طرح سورج کی پہلی نرم سی ،ہلکی سی کرن فاتح ظلمت شب بن جاتی ہے ، اسی طرح نیکی ۔۔۔۔۔۔۔۔خواہ وہ کتنی ہی کم مقدار میں ہو ۔۔۔۔۔۔۔بدی کے پہاڑوں سے ٹکرانے اور انھیں ریزہ ریزہ کرنے کی استعداد رکھتی ہے
نادر جاجوی کی مطبوعات میں چشم نم (اردو شاعری 1965) ،ہتھ نوں ہتھ نہیں دسدا (پنجابی شاعری 1975)،اضطراب (اردو شاعری )، رکڑ رڑے تندور (پنجابی شاعری 1986)،تحریم رسول (سیرت النبی 1987), نذرانے () اردو شاعری 1988),ہدیے (1989)، سورج دی سیدھ (پنجابی غزل)، پنجاب دے لوک ناچ (ضخیم کتاب)…..شامل ہیں
نادر جاجوی کا مطالعہ بہت وسیع تھا ۔۔انھوں نے تمام کلاسک اساتذہ کو پڑھاہوا تھا ۔نوح ناروی ان کے استاد تھے ۔۔بے خود دہلوی اورسائل دہلوی کے علاوہ نوح ناروی بھی داغ دہلوی کے جانشینوں میں سے تھے نادر جاجوی صاحب جب کبھی کسی کو اپنی زبان سے ناس آشنا دیکھتے تو بہت کرب سے کہتے کہ ۔۔۔"۔اس عہد کے الفاظ اب تاریکی میں جا چکے ہیں ۔۔اب قدریں ٹوٹ پھوٹ اور شکست و ریخت کا شکار ہو چکی ہیں ، نئی نسل الفاظ آور حرمت الفاظ سے کوسوں دور جا چکی ہے ۔۔اب نہ پڑھنے کا زمانہ رہا ہے اور نہ ہی کسی سے سیکھنے کا"
صائم چشتی کا اپنے دوست کے بارے میں یہ خیال تھا کہ"" نادر جاجوی اردو دہلی والی لکھتے ہیں اور پنجابی سنٹرل پنجاب والی ماجھے دی پنجابی ""۔۔۔۔۔۔۔۔
اظہار کی سچائی نے نادر جاجوی کو اپنے ہم عصر شعرا کرام سے اس اعتبار سے ممتاز کیا ہے کہ وہ سوچ سمندر میں اٹھتی ہوئی بے اختیار لہروں کو مصلحت یا کسی سیاسی نظریے کے ساحل پر اترنے نہیں دیتے اور مسلسل ہیجان کے درمیان بڑے سلیقے سے گہری سانس لیتے ہوۓ ان پانیوں کی سمت بڑھ جاتے ہیں جن کی رمزیت ایسی گہرائی ہے اور اس گہرائی میں ایک سکون ہے جس کے سینے میں ہزار ہا لہروں کے ہیجان دفن ہیں ۔۔۔۔۔
حکیم رمضان اطہر ، نادر جاجوی کو نادر الخیال ، نادر الکلام کے تحت منظوم نذرانہ پیش کرتے ہیں ۔۔ ان سے چند اشعار ۔۔۔
سخن وروں کی صف میں اس کا معتبر مقام ہے
وہ نادر الخیال ہے ، وہ نادر الکلام ہے
محاسن ادب سے ملا مال شعر و فکر ہے
کہ رنگ جہت شاعری نگاہ میں تمام ہے
ریاض فن ہے مشکبار تازگی لیے ہوۓ
کہ نرم مثل برگ گل بہار کا پیام ہے
۔
جہاں تک نادر جاجوی کی نظموں کا تعلق ہے وہ زیادہ تر ترقی پسندی کی روایت میں ہیں اور اس میں احتجاج اور مدافعت کے رویے خاصے نمایاں ہیں مگر انھی میں ہجرت جیسی نظمیں بھی نظر آتی ہیں، جو موجودہ دائرہ گفتگو میں باطن کا اظہار ہیں ۔
عہد گزراں کی زبوں کاری اور حالات کے ہاتھوں مصلوب ہونے کا کرب نادر جاجوی کو قدیم روایت سے منحرف اور جدید طرز احساس اور نئے تجربے کے عمل سے آشنا کرتا ہے اور وہ کسی فرد جمیل کی سراپا نگاری کے بجائے معاشرے کی زبوں کاری پر قلم اٹھاتا ہے۔۔۔قدم قدم پر صلیبی گڑی ہیں لیکن وہ حق گوئی و بے باکی کے ساتھ معاشرے کے جسم کے ایک ایک زخم کی نشاندہی کرتا ہے اور ایک ایک داغ پر انگلی رکھتا ہے ۔اس کے سامنے سماج کی بد ہیت تصویر کا ایک ایک زاویہ نمایاں ہے اور وہ کہیں بھی وقتی مصلحتوں کی زد پر نہیں آتا ۔۔کہیں بھی " اخفا"اور پردہ داری نہیں کرتا بلکہ واضح اور واشگاف لفظوں میں ہر برائی اور بد نمائی کو پوست کندہ کرتا چلا جاتا ہے ۔۔۔۔
ان کی شاعرانہ خوبیوں کے متعلق خوبوں مرتضی برلاس لکھتے ہیں
"فیصل آباد کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے نادر جاجوی نے تو سچائیوں کو اپنی شاعری میں ڈھال کر پیش کیا ہے اور کام بھی وہ کر دکھایا ہے جس کے لئے ہمت کی ضرورت ہوا کرتی ہے ورنہ بے مقصد اور بے سمت شاعری کے دریا تو ہر طرف ٹھاٹھیں مارتے نظر آتے ہیں۔لیکن زندگی کا کوئی نصب العین سامنے رکھ کر جی داری سے شعر کہنا نادر جاجوی جیسے شعراء ہی کا کام ہے ۔"
مری زبان پہ بہت مصلحت کے تالے ہیں
ترے ادب کا تقاضا ہے تیرا نام نہ لوں
ممتاز محقق ڈاکٹر عاصی کرنالی ان کے مجموعہ کلام "اضطراب" کے دیباچے نادر جاجوی کی شاعری کے متعلق لکھتے ہیں ۔
"نادر جاجوی کی شاعری اسی عہد گزران کی شاعری ہے۔ اس لئے ان کے شعروں میں عصری فضا موجود ہے ۔ ماضی سے انہوں نے فنی تلازمات لیے ہیں اور انہیں پوری جمالیاتی حس کے ساتھ برتا ہے ۔لیکن مسائل و افکار اور موضوعات و مضامین اپنے زمانے سے لیے ہیں۔ زندہ رہنے والی شاعری کی ایک علامت یہ ہے کہ اس کا پیش منظر اور اس کا پس منظر یعنی سارا تناظر لمحہ موجود سے ابھرتا ہے۔میں نے نادر جاجوی کے تخلیقی عمل کو عہد موجود سے وابستہ کیا ہے"
اور وہ خود فرماتے ہیں
نادر ہیں فقط میرے قبیلے کے وہی لوگ
ہر عہد میں جو سوچ کا انداز نیا دیں
نادر جاجوی نے اپنی شاعری میں حقیقت نگاری کا اعلیٰ ترین معیار پیش کیا ہے ۔ان کی شاعری تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کی مظہر ہے اس لیے اس کا مطالعہ کرتے وقت تاریخی تناظر پر بھی نظر رکھنی چاہیے ۔یہ بات درست ہے کہ انھوں نے بالعموم زندگی کے تضادات کو موضوع بنا کر حریت فکر کا علم بلند رکھنے کی سعی کی ہے ۔وہ افراد اور معاشرے کی خوبیوں اور خامیوں پر بہ یک وقت نگاہ ڈالتے ہیں ۔اس عمل میں وہ تعمیری اور اصلاحی پہلو کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے ہیں ۔حرف صداقت لکھنا ہمیشہ ان کا نصب العین رہا ۔ان کی شاعری کے موضوعات آفاقی نوعیت کے ہیں ،جن کا جغرافیائی حدود سے کوئی تعلق نہیں ۔سارے جہاں کا درد ان کے جگر میں سمٹ آیا ہے ۔ان کی شاعری میں قلبی ،روحانی اور وجدانی کیفیات کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ایک حساس تخلیق کارکی حیثیت سے انھیں زندگی کی وہ تمام درخشاں اقدار و روایات دل و جاں سے عزیز ہیں جو حق گوئی و بے باکی ،عدل و انصاف ،خلوص و مروت ،ایثار اور دردمندی ،حسن فطرت اور حسن وجمال کی اساس پر استوار ہیں ۔زندگی کے جملہ ارتعاشات اور نشیب و فراز پر وہ اس سلیقے سے اظہار خیال کرتے ہیں کہ قاری چشم تصور سے وہ تمام مناظر دیکھ لیتا ہے جن کی لفظی مرقع نگاری کی گئی ہے ۔اس طرح یہ شاعری ایک ایسے جام جہاں نما کی شکل اختیار کرلیتی ہے جس میں تمام واقعات کی پر چھائیاں قلب و نظر کو مسخر کر لیتی ہیں ۔۔ لکھتے ہیں ۔
یہ جسم جنگل کا اک محل ہے ہمیشہ سنسان پڑا رہے گا
جو اس میں پتھر کا شاہزادہ ہے دیر تک بے صدا رہے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترے مزاج غرور سے میں نباہ کا فیصلہ تو کر لوں
مگر مجھے اپنی لغزشوں کا عجیب سا غم سدا رہے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گرا شجر تو نہیں اس کا کچھ الم نادر
ہوا کا زور بھی کچھ دیر کو تو ٹوٹے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جان نادر کھینچے کھینچے نہ رہو
آؤ تجدید دوستی کر لیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عاصی کرنالی ' "اضطراب " کے دیباچے میں رقمطراز ہیں کہ
" مجھے نادر کے یہاں ایک خوبصورت بات یہ معلوم ہوئی کہ وہ بدی کے ماحول کو ایک طلسم کے سیاق میں دیکھتا ہے۔اس کے خیال میں بدی کے تمام مظاہر آسی صاحب وطلسم سے ابھرے ہیں ۔اور ان پر جادوگر ارواح خبیثہ کی گرفت ہے ۔۔اسے یقین ہے کہ خدا کی رحمت اور انسان کے عمل خیر کے طفیل ایک روز یہ جادو برباد ہو جائے گا اور یہ طلسم پاش پاش ہو جائے گا اور پتھر کی مسحور مورتیاں دوبارہ زندہ ہو کر اپنی اصلی ہیئت اور سیرت کو پا لیں گی۔"
میں کب سے کوہ ندا پر تجھے پکارتا ہوں
فریب جاں کے لیے تیری اک صدا بھی نہیں
تمہارا اسم ہے جس وقت سے بھی درد زباں
کوئی الم بھی مجھے منتشر نہیں کرتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نادر جاجوی سے جب یہ سوال کیا جاتا کہ آپ کی شاعری میں ایک مخصوس طبقے اور ایک مخصوص رہتل کی نمائندگی ہوتی ہے اس کی خاص وجہ کیا ہے ؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا
" میں اپنی سوچوں کو کسی خاص مشن یا تحریک کے لئے Channelize کرنے کے حق میں بالکل نہیں ہوں البتہ دیہات کی تہذیب و تمدن اور رہتل میں دھرتی کی خوشبو اور فطرت کا نور ہنستا مسکراتا ملتا ہے ، اس لیے ممکن ہے اس کے اظہار نے میرے لہجے کو کوئی مخصوص نمائندگی دے دی ہو ورنہ میرا موضوع تو صرف انسانیت ہے، کوئی خاص طبقہ نہیں ۔۔کیوں کہ میں محدود سی بات کی نسبت پورے گلوب کی بات کرنا زیادہ پسند کرتا ہوں ۔""
ان کی شاعری کے متعلق ممتاز شاعر محمّد شیر افضل جعفری لکھتے ہیں ۔
" نادر جاجوی نے اپنی جتن سے جیون جگنی کو چندر کونس اور جے جے ونتی کی سنگت سونپ رکھے ہے ۔۔اس کی نرمل غزل ادب کی جھیل ڈل کا جھلمل کنول ہوتی ہے ۔۔میٹھے مصرے اور شیریں شعروں کے سر سنگھار میں کاٹھ کوئیں کا جھنکار پڑھنے سننے والوں کو آنکھ ' مارتا ہے ۔اس کی برہ کا بادل ڈل کے تھل پر جل تھل برسنے کا رسیا نہیں ، یہ اپنے پیار کو پھوار پھوار پڑنے کی رفتار عطا کرتا ہے ۔۔۔۔باباے ملت کا یہ بی بیبا بالا علامہ اقبال کا متوالا بانکا بھی ہے۔۔اس کی نزہتیں نظمیں سوجھ اور سرت کی سدا سہاگ سہیلیاں ہیں جنہوں نے دیس پریت سوز سنگیت اور پیت پریت کے چیت چیت پھولوں سے اپنے چمن چمن جوبن کو اردو کا شالا مار بنا دیتا ہے ۔""
نادر جاجوی "اضطراب" میں یوں اظہار کرتے ہیں ۔
پناہ دے کے بھی بیکس پناہ سوچتے ہیں
کہیں گناہ نہ ہو ، کجکلاہ سوچتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قرار جاں کی بشارت جہاں سے مل جاۓ
وہ کون سی ہے کوئی بارگاہ سوچتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے خیال کے دھارے بدل گئے نادر
مرے کریم ، مرے خیر خواہ سوچتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عاصی کرنالی "اضطراب کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ
"نادر جاجوی نے برائی کا احتساب کرنے کے ساتھ ساتھ ایک مثبت اور تعمیری رویہ کے ساتھ نیکی کی مثال قائم کی جائے ۔۔یہ عمل گھپ اندھیروں میں ایک ننھا سا دیا جلانے کے مترادف ہے۔
لوگوں کے لئے سائے کے اسباب بنا دیں
آ جلتے ہوئے شہر میں کچھ پیڑ لگا دیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدت سے خنک سانولے بادل نہیں آئے
جو خشک زمینوں کو گلابوں کی ردا دیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم جو چاہو تو بصیرت کے ہیولے لاؤں
شہر تاریک میں سورج نہ اگاتا جاؤں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نادر جاجوی کے شعری محاسن میں ایک حسن اس کی دل آویز اور معنویت لفظی ترکیبوں سے ابھرتا ہے ۔یہ تراکیب اس کی اپنی ایجاد ہیں۔دوست کی نئی طرز احساس کا ثبوت بھی ہیں اور نئے معانی کے افق در افق تلاش کرنے کی شعوری کوشش بھی ۔۔مثال کے طور پر ۔۔۔۔۔۔خشک سانولے بادل ۔۔منطقہ اوج فلک ۔۔۔۔بصیرت کے ہیولے ۔۔۔۔کریم تعلق ۔۔۔خوشبو کا اہتمام سفر ۔۔۔۔کف ہوا ۔۔۔۔شہید اذن کرم ۔۔۔فراز شب وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔
کبھی وہ یاد بھی آئے تو گنگناؤں اسے
یہ ربط ہے تو میں کس طرح بھول جاؤں اسے
وہ فاصلہ مرے مابین ہے کہ سوچتا ہوں
بچھڑ گیا ہے جو مجھ سے کہاں سے لاؤں اسے
کسی ورق پہ لکھا اس کا نام مل جائے
میں طاق دل میں رکھوں شوق سے سجاؤں اسے
مرے خلوص کا معیار جانچنے والا
فریب ذات سے نکلے تو آزماؤں اسے
پیام لے کے بھی نادر چلی نہ باد شماں
میں اپنے درد کا احوال کیا بتاؤں اسے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موت سے کسی کو رستگاری نہیں ۔رخشِ حیات مسلسل رو میں ہے ،ہر شخص بے بسی کے عالم میں زندگی کے کٹھن اور صبر آزماسفر میں کیسے اپنی باری بھر رہا ہے یہ راز کسی کو معلوم نہیں۔ کیسے کیسے نابغہء روزگار لوگ اس راہِ جہاں سے گزرے ،جی چاہتا ہے کہ اُن کے نقش قدم دیکھ کر اپنی حقیقی منزل کی جستجو کی جائے ۔زندگی کے اسرار و رموز کی گرہ کشائی ممکن ہی نہیں۔تقدیر کے چاک کو سوزنِ تدبیر سے کسی طور بھی رفو نہیں کیا جا سکتا۔۔ان کی عظیم الشان علمی ،ادبی اور قومی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھاجائے گا۔تاریخ ہر دور میں ان کی فقید المثال ادبی کا مرانیوں،اشہبِ قلم کی جو لانیوں اورمستحکم شخصیت کی اعجاز بیانیوں کی بنا پر اُن کے نام کی تعظیم کرے گی۔ان کے بعد بھی ہر بزمِ وفا میں ان کی عظمت ِ خیال ہی کو موضوع گفتگو کی حیثیت حاصل رہے گی۔ان کے زندہ الفاظ اُ ن کے منفرد اسلوب اور ابد آشنا تخلیقی وجود کا اثبات کریں گے۔ یہ سچ ہے کہ زندگی ایک فریب نظر کے سوا کچھ بھی نہیں لیکن اردو زبان و ادب کے قارئین اپنے دلوں کوان کی یاد سے آباد رکھنااپنا مطمع نظر بنائیں گے اور یوں اپنی انجمنِ خیال سجائیں گے۔۔
کہکشاں کا سماں بنا دوں گا
میں ترا راستہ سجا دوں گا
کاسہ درد ہو گیا خالی
میں ترے نام کی صدا دوں گا
قربت یار تیری چاہت میں
وقت کے فاصلے بڑھا دوں گا
نغمہ جاں سے روشنی ہو گی
ظلمت روح کو ضیا دوں گا
اک ترا غم قبول کر نادر
ہر غم زندگی بھلا دوں گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔
انسانی کردار اور عظمت کا پیکر یہ مخلص ،درد آشنا اور وضع دار انسان اب ہمارے درمیان موجود نہیں ہے ۔ایسے نایاب اور وضع دار لوگ مُلکوں مُلکو ں ڈھونڈنے سے بھی نہ مِل سکیں گے
۔ علم و ادب کی یہ قندیل 15 مارچ 2013ء کو ہمیشہ کے لیے بجھ گئی ۔۔آپ کو منصور آباد ، فیصل آباد کے شہر خاموشاں نے ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چھپا لیا ۔۔۔اللہ کریم ان کی مغفرت فرما کر انھیں درجات کی بلندی سے نوازے ۔۔آمین۔