قصبہ کنجروڑ تحصیل شکر گڑھ ضلع نارروال میں یکم جولائی 1997 کو جنم لینے والے خوب صورت خیالات کے حامل نوجوان شاعر ندیم ملک کے والد صاحب کا نام محمد انور ہے ندیم ملک کا اصل نام ندیم انور ہے لیکن انہوں نے اپنا قلمی نام ندیم ملک پسند کیا ہے ۔
ندیم ملک صاحب کی شاعری بہت خوب صورت اور متاثر کرنے والی ہے ۔ وہ غم یار اور غم روزگار کے شاعر ہیں ۔ ان کی شاعری میں ہجر و فراق بھی ہے اپنے محبوب سے بچھڑنے کا دکھ بھی ہے تو عام آدمی کے مسائل اور مشکلات بھی ان کے سامنے ہیں ۔ ان کو عام افراد کی محرومیوں کا احساس ہے تو بچوں کی خواہشات و ضروریات اور ان کی بے بسی بھی ان کو تڑپاتی رہی ہے ۔ ندیم صاحب کا کہنا ہے کہ مجھے بھی اکثر لوگوں کی طرح بچپن سے ہی شاعری کا شوق پیدا ہوا ۔ جب میں چھٹی جماعت میں داخل ہوا تو اس اسکول میں بزم ادب کی محفلیں سجتی تھیں وہیں سے میں بھی شاعری کی طرف راغب ہوا ۔ شعری مجموعے کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ میں نے ابھی اس بارے میں سوچا نہیں ہے جبکہ پسندیدہ شعراء کے سوال پر ان کا بہت دلچسپ جواب ملا کہ اپنے سوا دیگر تمام شعراء اور شاعرات کی شاعری پسند ہیں ۔
ندیم ملک صاحب جس طرح اپنی شاعری میں اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہیں اس سے بڑھ کر معاشرے کے پسماندہ اور محروم طبقات اور بچوں خواہ بوڑھے اور بوڑھی اور بیمار خواتین کا دکھ بھی انہیں شدت سے اپنی طرف کھینچتا ہے ۔ ان کی شاعری کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ قاری اور سامع اس کی شاعری کو مکمل پڑھے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ ان کی شاعری سے کچھ انتخاب آپ کی نذر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
غزل
سُخَن وَری کے کسی بھنور میں نہ تُو رہے گی نہ مَیں رہُوں گا
حقیقتوں کے مہاں سَفَر میں نہ تُو رہے گی نہ مَیں رہُوں گا
……………………………
وہ ریل گاڑی وہ پٹڑیوں کی صدائیں مجھ کو بتا رہی ہیں
کہ اب بچھرنے کے بعد گھر میں نہ تُو رہے گی نہ مَیں رہُوں گا
………………………..
لگے گی آواز تو محبّت کے سب دریچے کُھلے ملیں گے
مگر یہ غم ہے کہ اب نَظَر میں نہ تُو رہے گی نہ مَیں رہُوں گا
………………………….
پڑھیں گے نادِ علی سَفَر میں کریں گے ذکرِ محمّدی بھی
مگر مرے ساتھ رَہ گُزَر میں نہ تُو رہے گی نہ مَیں رہُوں گا
…………………………
ندیم جوگی بنے ہوئے ہیں ندیم حق پر کھڑے ہوئے ہیں
سو چند لمحوں کے بعد گھر میں نہ تُو رہے گی نہ مَیں رہُوں گا
غزل
کسی کی راہ میں پھولوں کی ٹوکری رکھّی
سفر تمام ہوا اور ہتھکڑی رکھّی
تمام لوگ ہی دشمن تھے شہر میں میرے
یہ جانتے ہوئے کمرے میں دیگچی رکھّی
یہ مَصلِحَت نہیں مُطرِب رُباب آنکھوں نے
قَفَس قُبول کیا اور مُنکری رکھّی
کوئی نہیں ہے اکیلا ہُوں اپنے کمرے میں
تو کس نے ذات کے حصّے میں بے بسی رکھّی
دکھا رہا تھا مَیں لوگوں کو حق کی راہ ندیم
اسی لیے تو محبت بھی فاصلی رکھّی
غزل
تمہارے شاعر کو سونے چاندی کا مسئلہ ہے
مگر ہمارا تو صرف روٹی کا مسئلہ ہے
تمہارے گھر میں چراغ ہیں اور جل رہے ہیں
ہمارے گھر میں تو جلتی ٹہنی کا مسئلہ ہے
یہ سوچ کر اُس نے گھر سے رُخصت کیا تھا بابا
کہ آپ کو انتہا کی کھانسی کا مسئلہ ہے
ضعیف بڑھیا سے پوچھ رو رو جو کہہ رہی ہے
کہ میرے بچوں کو صرف روٹی کا مسئلہ ہے
انہیں ہنساو یہ مر نہ جائیں انہیں ہنساو
انہیں تو صرف ایک آدھی ٹافی کا مسئلہ ہے
اگر ہو فرصت تو پوچھ لینا ندیم…………. آ کر
ہمارے گاؤں کو کس اداسی کا…………..مسئلہ ہے
ندیم ملک