چڑیوں کی چہچہاہٹ سے ندیم کی آنکھ کھل گئی وہ کئی دنوں سے نیند بھر سویا نہیں تھا۔ باجی کی سنائی گئی نظم
اماں باجی کہتی ہیں
چاند میں پریاں رہتی ہیں
میں تو آج نہ سووں گا
رات گئے تک جاگوں گا
گذرے چار پانچ دنوں سے اُسے شدت سے یاد آتی رہی۔۔ باجی نے اُسے بتایا تھا کہ چاند کی پریاں رات میں بچوں کے پاس آتی ہیں اور اُنہیں چاکلیٹ آئسکریم اور کھلونے دیتی ہیں۔۔اُسے آج اپنا جسم بہت ہلکا محسوس ہورہا تھا۔۔بڑی بڑی آنکھیں سیاہ گھنگھریالے بال گورا چٹّا سا ندیم کمہلاے ہوئے پھول کی طرح دکھ رہا تھا۔۔۔وہ بوجھل قدموں سے چولہے پر رکھی ہانڈی کے پاس گیا ہانڈی کا ڈھکن ہٹا کر دیکھتا ہے۔ پھر کمزور قدموں سے آکر جھلنگی کھاٹ پر بیٹھ جاتا ہے۔۔
عید کا دن ہونے کی وجہ سے صبح سویرے ہی کارپوریشن کی اعلان کرتی ہوئی موٹر گاڑی اُسکے گھر کے سامنے سے گذرنے لگی۔۔ سفید رنگ کی گاڑی دیکھ کر ایک بار پھر اُسے وہ سفید رنگ کی گاڑی یاد آگئی جو تین دن پہلے ہی گھر کے دروازے سے آلگی تھی اور اُسکی نظروں کے سامنے اُس گاڑی میں اُس کے بابا اور باجی کو پُرسکون نیند جیسی حالت میں ڈالا گیا تھا۔۔وہ سمجھ چکا تھا کہ اَب بابا اور باجی کو بھوک نہیں ستائے گی۔۔ موٹے آنسوؤں کی بہتی لڑیوں کے درمیان وہ سفید موٹر گاڑی کے پیچھے پورے جی جان سے بھاگا تھا لیکن سفید گاڑی اُسکے آنسوؤں کے ساتھ دھندلاتی چلی گئی۔۔۔ندیم بیٹا عید کے دن فرشتے زمین پر اُترتے ہیں اور آپکے جیسے بچوں کو عید گاہ پر دیکھ کر انعام دیتے ہیں۔۔ابھی کچھ مہینہ پہلے ہی تو بابا نے اُسے عید کے بارے میں بہت کچھ بتایا تھا اُسے بابا کی بات یاد آگئی۔۔۔
اچھی بھلی خوش و خرم زندگی تھی۔۔ بابا اور باجی کے ساتھ وہ بھی پھولوں کی چھوٹی سی دوکان پر بیٹھا کرتا تھا۔۔جہاں کے چار پیسوں سے گذر بسر ہوجایا کرتی تھی اور کچھ دبی خواہشوں کی تکمیل باجی کی خوشیاں دینے والی کہانیوں سے ہوجایا کرتی تھیں۔ پھر اچانک شہر میں وبائی بیماری پھوٹ پڑنے سے سارے کام دھندے بند ہوگئے اور لوگ گھروں میں لاٹھی کے زور پر قید کردیئے گئے۔۔ کچھ ہی دنوں میں گھر میں رکھے پھولوں کی طرح بابا اور باجی کے چہرے بھی مرجھاتے گئے۔۔ ان دنوں اکثر ایک وقت کے کھانے میں بابا اور باجی اپنی رکابی اُٹھا کر کبھی دیوڑھی کے باہر بیٹھ جاتے تو کبھی جھلنگی کھاٹ پر اور اُسے ہدایت ہوتی کہ وہ وہیں ہانڈی کے پاس بیٹھ کر کھانا کھاے کھانے میں اکثر دال کھچڑی ہوتی۔۔۔ اب چند دنوں سے صرف چاول ہی ہانڈی میں پڑے ملتے۔۔۔۔
فرشتوں سے ملنے کی آس میں اُس کے جسم میں توانائی دَوڑ گئی اگر فرشتے نہیں ملے تو آج میں پھر نہیں سووں گا اور چاند کی پریوں کا پھر انتظار کروں گا یہی سوچتے ہوئے ٹوٹے نلکے سے منہ ہاتھ دھوتا ہے۔۔ عید کے دن تو سبھی نئے کپڑے پہنتے ہیں اُسے یاد تھا کہ جب پچھلی عید کو وہ بابا کے ساتھ گھر کے سامنے ہی بڑے میدان پر نماز ادا کرنے کے لئے گیا تھا تو بابا اور اُس نے پھولوں سے کڑھائی کی گئی قمیص پہنی تھی ۔۔چھوٹے سے بوسیدہ گھر میں کچھ ڈھونڈنا مشکل نہیں تھا وہ وہی پھولوں سے کڑھائی کی گئی شرٹ کو پہنتا ہے سامنے میدان کی طرف اپنے خوابوں کو پانے کی چاہ میں بڑھتا چلا جاتا ہے۔۔ بابا اور باجی کی یادوں سے گیلی آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھتا ہے۔۔ پھر سڑک اور میدان کی طرف نظریں دوڑاتا ہے اُسے چمکیلے اور سفید کپڑے پہنےہوئے لوگوں کے چہرے بھی اپنی ہی طرح اُداس اور پریشان سے نظرآتے ہیں۔۔ اس بار بھی وہ پیڑوں کی اُس قطار کو ڈھونڈتا ہے جنکے سایے میں شربت، گرم سموسوں اور چائے کی دکانیں چار پہیے کی گاڑیوں پر لگی تھیں۔۔اُسے وہاں ایک چھوٹی دکان دکھائی دیتی ہے اچانک زبان پر پچھلی عید کے گرم سموسوں کی لذت سے وہ اپنی زبان کو ہونٹوں پر پھیرتا ہوا آگے بڑھتا جاتا ہے۔۔بدرنگ تھیلی سے مرجھائے پھولوں کے دو ہار لئے وہ اُچک کر سموسے کی دکان والے بابا کو دینے کی کوشش کرتا ہے۔۔سفید کپڑوں میں ملبوس باریش دکاندار کبھی اُس زرد سے چہرے والے خوبصورت بچے کو دیکھتا ہے تو کبھی اُسکے ننھے ہاتھوں میں دبے مرجھائے سے پھولوں کے ہار کو دیکھتا ہے۔۔بھوک اور سموسوں کی مہک سے ندیم کے ننھے پیر کانپنے لگتے ہیں تبھی اُسکے ہاتھ میں کاغذ کی پیالی میں دوسموسے باریش بابا تھما دیتے ہیں حامد پھولوں کے ہار کو جلدی سے ٹھیلہ گاڑی کے ایک کونے میں رکھ دیتا ہے۔ بھیا مجھے بھوک لگی ہے۔ میٹھی سی معصوم آواز پر حامد مڑ کر دیکھتا ہے تو ایک چھوٹی سی سانولی سی بچی کاندھے پر کپڑے کی پھٹی تھیلی لٹکائے دھوپ کی شدت سے ننھے پیروں کو کبھی سڑک سے اٹھاتی تو کبھی سڑک پر ڈر کر رکھنے کی کوشش کرتی دکھائی دی۔۔ ندیم فوراً اُسکا ہاتھ پکڑ کر ایک درخت کے ساے میں ہولیتا ہے۔۔ اور سموسے کی پیالی اُس بچی کے ہاتھوں میں تھما کرمرجھاے پھولوں کی بچی ہوئی لڑیاں لیکر پھر کسی فرشتے کی تلاش میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔۔