ندیم حسین کی تصوراتی باتیں
شام ڈھل چکی تھی ،آفس کا وقت ختم ہونے کو تھا،خواہش تھی کہ آج ایک ایسے دوست کے ساتھ گپ شپ ہو جائے جو کچھ ایسی منفرد و مختلف باتیں کرے کہ دل و دماغ کی دنیا میں سکون و آرام کی لہر دوڑ جائے ۔یہ انسان کی فطرت ہے کہ کبھی کبھاروہ اپنے آپ سے بھی تنگ آجاتاہے اور چاہتا ہے کہ کسی دوسرے انسان کی کمپنی کو انجوائے کرے ۔ کچھ ایسی ہی کیفیت طاری تھی ۔اسی دوران میں نے موبائل میں دوستوں کے نمبر کھنگالنا شروع کردیئے ۔موبائل کی اسکرین پرعلی ریحان کا نمبر نظر آیا ،علی ریحان کے نمبر کو ڈائل کرنے ہی والا تھا کہ موبائل کی گھنٹی بجنا شروع ہو گئی ۔موبائل کو کان سے لگایا ہی تھا تو آواز آئی ،ہیلو،ندیم حسین بول رہا ہوں ،اس نے کہا کہ کیسے ہو دوست ؟میں نے کہا ،ندیم حسین کون ؟وہ مسکرایا اور اس نے کہا ،جانو،تمہارا کلاس فیلو،ندیم حسین ،جسے تم پیار سے لاڈو رانی کہا کرتے تھے۔یہ سننا ہی تھا کہ میں نے قہقہہ لگایا،اور کہا لاڈو رانی کو آج کئی سالوں کے بعد میں کیسے یاد آگیا؟اس نے کہا دوست میں پیپسی فیکٹری کے گیٹ پرتمہارا انتظار کررہا ہوں ۔یہاں سے گزر رہا تھا کہ اچانک یاد آیا ،تمہارا آفس بھی تو قریب ہی ہے ،بس ملاقات اور باتیں کرنے کو دل کررہا تھا،اس لئے گاڑی کو پیپسی فیکٹری کے گیٹ پر بریک لگادی ،جلدی آؤ،اس سے پہلے کہ پیپسی فیکٹری کے گیٹ پر کھڑا سیکیورٹی گارڈ کہیں یہ نہ سمجھ لے کہ میں دہشت گرد تو نہیں اور فیکٹری کو دھماکہ خیز مواد سے اڑانے تو نہیں آیا ۔میں نے کہا دوست پانچ منٹ انتظار کرو،آفس سے نکل رہا ہوں ۔ندیم حسین میرا یونیورسٹی فیلو ہے ،اس کی شناخت یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایک نیا اور مکمل انسان سمجھتا ہے ۔پیسپی فیکٹری کے گیٹ پر پہنچا تودیکھاکہ سیکیورٹی گارڈ بندوق پکڑے الرٹ کھڑا ہے ،مجھے دیکھتے ہی ندیم حسین تیزی سے گاڑی کا گیٹ کھول کر باہر نکل آیا ۔وہ مسکرا رہا تھا ۔ہم دونوں گرم جوشی سے ملے ۔اس نے کہا بھائی جلدی سے گاڑی میں بیٹھ جا،کہیں یہ سیکیورٹی گارڈ ہم دونوں کو خودکش حملہ آور سمجھ کر فائرنگ ہی نہ کرڈالے،اس پر ہم دونوں خوب ہنسے اور جلدی سے گاڑی میں بیٹھ گئے۔گاڑی چل پڑی اور ہم پارک کی طرف روانہ ہو گئے ۔پارک میں خوب گپ شپ کی ۔اسی دوران میں نے سوال کیا کہ،اب بھی نئے اور مکمل انسان ہو یا قدیمی انسانیت کا حصہ بن گئے ہو؟ اس پر اس نے کہا ،اجمل شبیر آج بھی ہر کسی کو نئے انسان اور نئی انسانیت کی بات کرتا ہوں ،اب بھی لوگ میرا مزاق اڑاتے ہیں اور اس بات کو میں خوب انجوائے کرتا ہوں ۔اجمل جی ،یاد رکھو ،نیا انسان اور نئی انسانیت کا دور شروع ہونے کو ہے ۔کیونکہ نیا انسان ہی اس دنیا کا لائف اسٹائل بدلے گا ۔میں نے سوال کیا ،موجودہ انسان کو تم انسان کیوں نہیں مانتے؟اس نے کہا،آج کا انسان کبھی بھی انسان نہیں تھا ،آج کی انسانیت بھی حقیقت میں انسانیت نہیں ہے۔یہ انسان ،انسان نما کوئی اورمخلوق ہے ،آج انسان لبرل ہوگیا ہے ،سیکولر ہو گیا ہے ،مولوی ہوگیا ہے،انتہا پسند اور دہشت گرد بن گیا ہے ، کمیونسٹ ہو گیا ہے ،یہ دہریہ بن گیا ہے ،موجودہ دور کا انسان سنی ،وہابی ،بریلوی اور شیعہ بن گیا ہے ۔اس کی شناخت بطور انسان نہیں رہی۔انسان تو وہ ہوتا ہے جو خوشامد سے دور بھاگتا ہے،منافقت،نفرت اور تعصب سے بھاگتا ہے،نیا اور مکمل انسان مردہ باد ،زندہ باد کا نعرہ نہیں لگاتا ۔لیکن یہ کیسا انسان ہے جو نعروں کی گونج میں اپنے آپ کی شناخت کو برباد کر رہا ہے ۔اس نے کہا بھائی، یہاں کوئی الطاف حسین ہے ، کوئی عامر لیاقت ہے،یہاں کوئی رینجر کا اہلکاراور حکام ہے، تو کوئی جرنیل ،کوئی نوز و عمران و زرداری ہے ،تو کوئی قمرجاوید باجوہ ۔انسان کہیں بھی نہیں ہے ۔ندیم حسین کی باتیں بڑی دلچسپ اور نرالی محسوس ہورہی تھی ،دل کررہا تھا کہ اس نئے اور مکمل انسان سے مزید سوالات پوچھےجائیں ؟ لاڈو رانی ،کیا تمہیں اس انسان نما مخلوق کی اس کیفیت پر پریشانی نہیں ہوتی؟ اس نے کہا،بھیا،اس انسان اور اس نام نہاد انسانیت کے بارے میں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں،بلکہ یہ خوشی کی بات ہے کہ یہ انسان نما مخلوق تباہی و بربادی کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔آج کا انسان جو کررہا ہے ،اسے کرتے رہنا چاہیئے۔پھیلانے دو اسے نفرت ،تعصب اور منافقت ۔اسی طرح تو یہ جلد از جلد بربادہوگا اور پھر اسی بربادی کے سبب نئے انسان اور نئی انسانیت کا جنم ہوگا ۔آج کے انسان کو لڑنے دو اور مرنے دو اور اس کیفیت کو انجوائے کرو ۔کیونکہ اب اس کی موت بہت قریب ہے ۔کرنے دو اس انسان کو مردہ باد اور زندہ باد کا ٹوپی ڈرامہ۔اسے سکھایا ہی یہی گیا ہے کہ پیدائش سے موت تک اس نے یہی کچھ کرنا ہے ۔یہ انسان فیک ہے ، غلام ابن غلام ہے ، قیدی ہے۔اس yes سر کہنے والے انسان کے متعلق پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔یہ سوچنا بھی نہیں کہ آج کا انسان بدلے گا اور کسی قسم کی بہتری آئے گی ۔یہ انسان انسان نہیں اور نہ ہی یہ انسانیت انسانیت ہے، یہ زمین زمین نہیں ،یہ زمین جھنم بن چکی ہے ۔اور یہ سب جہنمی ہیں ۔آگ و خون کا کھیل ہی ان کا مقدر ہے ۔کوئی اونچا ہے ،تو کوئی نیچا ،کوئی اعلی و برتر ہے تو کوئی کمی کمین،کوئی مادہ پرست ہے تو کوئی روحانیت زدہ۔کوئی دنیا دار ہے تو کوئی آخرت کا ٹھیکیدار۔کوئی اچھائی کا ڈرامہ کررہا ہے تو کوئی برائی کے خاتمے کا ڈرمہ رچا رہا ہے،آلودہ نظریات میں الجھا یہ قیدیانسان اپنا حقیقی پوٹینشل کب کا ختم کربیٹھا ہے ۔آج کے انسان کے اندر اور باہر کی توانائی کو ایک خوفناک اسٹریٹیجی کے تحت برباد کر دیا گیا ہے ۔یہ تقسیم در تقسیم انسان ہے۔انتشار میں الجھا ہوا ہے ۔یہ انسان نہیں ہے ،اور نہ ہی پہلے کبھی یہ انسان تھا ۔اپنے جذبات کو دباتا ہے اور اسی وجہ سے پاگل پن کا شکار ہے۔پاگل پن اور زہنی مریض اس انسان کے بارے میں پریشان ہونا چھوڑواور زندگی کو انجوائے کرو ۔یہ انسان کشمکش کا شکار ہے ۔اپنے ساتھ اور دوسروں کے ساتھ لڑنا اس کی زندگی کا مقصد ہے ۔ایسے کند زہن ،خشک انسان کو اب مرنا ہوگا ۔اس کا مرنا ٹھہر گیا ہے ۔یہ مکمل طور پر زندہ بھی نہیں ہے ۔تباہی و بربادی اس کا نصب العین ہے ۔جنگ کرنا اور نعرے بازی کرنا اس کی سرشت میں ہے ۔زات پات اور فرقوں میں تقسیم اس انسان کو زندہ باد مردہ باد کہنے دو ،یہ سندھی ہے،پنجابی ہے،پٹھان ہے ،مہاجر ہے ،پختون ہے،پشتون ہے ،پاکستانی ہے ،لیکن یہ انسان نہیں ہے ۔عظیم بحران میں مبتلا ہے ۔ یہی موقع ہے جب نئے انسان کا جنم ہوگا ۔ندیم حسین کی کائناتی گفتگو جاری تھی۔اسی دوران میں نے یہ سوال کردیا کہ بھائی نیا انسان کیسا ہوگا؟تم نے اس انسان کی اتنی خوبیاں بتادی ہیں ،اب کچھ نئے انسان کے بارے میں بھی بتاؤ؟ندیم حسین نے کہا ،نیا انسان مکمل طور پر ایک مقدس انسان ہوگا ،وہ صوفی ہوگا ،وہ شاعر ہوگا ،وہ سائنسدان ہوگا ۔وہ پرانی اور ماضی کی تقسیم کی پالیسی سے ناواقف ہوگا ۔وہ صوفی ایسا ہوگا کہ کائنات میں خدا کو محسوس کرسکے گا ،لیکن نہ وہ سنی ہوگا ،نہ وہابی اور نہ ہی بریلوی ۔وہ شاعر ایسا ہوگا کہ ہر وقت خدا کی رحمتوں کا جشن منائے گا۔۔۔وہ آدھا نہیں،مکمل ہوگا ۔جذبات کا کھل کر اظہار کرے گا ، فرقوں سے مکمل طور پر ناواقف ہوگا ۔وہ تخلیقی ہوگا ،زہر آلود نطریات اور خیالات سے ماورا ہوگا ۔وہ نام نہاد مشرقی و مغربی اخلاقیات سے بھی پاک ہوگا۔وہ شعور ،بصیرت اور آگہی کو ساتھ لیکر آسمان کی بلندیوں تک بے خیالی کی کیفیت میں پرواز کرے گا ۔بلکل اس طرح جس طرح پنچھی آسمان پر مست و سرود کی کیفیت میں پرواز کرتے رہتے ہیں ۔وہ اخلاقی یا غیر اخلاقی نہیں ہوگا ۔ایماندار اورشفاف ہوگا ،حقیقی ہوگا اور اپنا سچ خود تلاش کرے گا ۔وہ مقاصد کے پیچھے پاگل ہو کر نہیں بھاگے گا ،بلکہ لمحات کو انجوائے کرے گا ۔وہ صرف حال کو جانتا ہوگا ،ماضی اور مستقبل سے ناواقف ہوگا ۔یاد رکھو ،نیا انسان آرہا ہے اور پرانا انسان مررہا ہے۔زندگی کو صرف مکمل انسان ہی انجوائے کرسکتا ہے ،وہ جو آدھا تیتر اور آدھا بٹیر ہو ،اسے کیا معلوم کہ زندگی کیا ہے؟اور کیوں ہے؟نیا انسان اپنے ساتھ آزادی اور محبت لائے گا ۔وہ طاقتور فرد ہوگا ،جسے والدین استاد،لیڈر،مولوی اور جرنیل غلام نہیں بناسکیں گے ۔اور نہ ہی اسے فرمابردار اور قیدی بناسکیں گے ۔وہ تو باغی ہوگا ،وہ تو اس دنیا کو جنت بنائے گا ۔ندیم حسین کی خیالی اور تصوراتی گفتگو کا سلسلہ جاری تھا ،مجھے محسوس ہوا جیسے نیا انسان آگیا ہے ۔اس قدر دلفریب گفتگو دوست نے کی ، ایسے لگا ،جیسے نیا انسان اس انسانیت میں آچکا ہے ۔دوست نے کہا ،چلو یار،میں نے شرقپور شریف جانا ہے ،ایک نئے انسان سے ملنے ۔۔۔اس کی گفتگو یہی پرتمام ہوئی ،ہم دونوں پارک سے نکلے ،اس نے مجھے شادمان مارکیٹ چھوڑا اور شرقپور شریف روانہ ہوگیا ۔اس کے جاتے ہی محسوس ہوا جیسے میں دوبارہ انسان نما مخلوق کا حصہ بن گیا ہوِں۔ سوچ رہا ہوں کہ یہ نیا انسان کیا واقعی کبھی اس کائنات کا حصہ بنے گا، کیا آج کے انسان کی موت کا وقت آپہنچا ہے ۔چلیئے اس سوال پر ہم سب ملکر سوچتے ہیں ،کیا خیال ہے ،نئے انسان کی آمد کا وقت آپہنچا ہے ،یا اب بھی بہت دیر ہے؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔