ندیم افضل چن بھی چلے گئے۔۔۔۔
جوں جوں الیکشن قریب آرہے ہیں ،پاکستانی سیاست میں جوڑ توڑ کی سرگرمیاں شدت اختیار کرتی جارہی ہیں ۔۔۔پیپلز پارٹی کے ایک جیالے ہوتے تھے ،جن کا نام ندیم افضل چن ہے،سنا ہے وہ بھی آصف علی زرداری کو چھوڑ کر عمران خان کے کیمپ کا حصہ بن گئے ہیں ۔۔یا یوں کہہ لیں کہ مسکراتی شخصیت جناب افضل ندیم چن صاحب مسکراتے مسکراتے عمران خان کی تحریک انصاف میں چلے گئے ہیں ۔۔۔گزشتہ سال ہی سے یہ باتیں ہورہی ہیں کہ ایک وقت آئے گا جب ندیم افضل چن جیسا عظیم جیالا بھی تحریک انصاف میں شامل ہو کر انصافی بن جائے گا ۔۔۔۔۔وہی ہوا چن صاحب جیالا کلچر کو چھوڑ کر انصافی کلچر کا حصہ بن گئے ۔۔۔ایک سال پہلے چن صاحب کے دو جیالے چاچے جناب نذر گوندل اور زوالفقار گوندل تحریک انصاف میں شامل ہو گئے تھے ۔۔۔پھر کچھ عرصہ بعد چن صاحب کے چھوٹے اور لاڈلے بھائی وسیم افضل چن صاحب بھی تحریک انصاف کو پیارے ہو گئے ۔۔
یہ وہ دور تھا جب جناب ندیم افضل صاحب پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے جنرل سیکریٹری تھے ۔۔۔انہوں نے جب دیکھا کہ ان کا سارا خاندان ہی تحریک انصاف کو پیارا ہو گیا ہے تو میڈیا پر آکر انہوں نے اعلان کیا کہ اب وہ پیپلز پارٹی پنجاب کے جنرل سیکریٹری نہیں رہ سکتے۔۔کیونکہ ان کا سارا خاندان ہی پی ٹی آئی میں چلا گیا ہے ،اس لئے اخلاقی طور پر انہوں نے یہ عہدہ چھوڑ دیا ۔۔اس وقت سے یہی قیاس آرائیاں شروع ہو گئی تھی کہ چن صاحب بھی عمران خان صاحب کی تحریک انصاف میں شامل ہو جائیں گے ۔۔۔آخر کار وہ ہوگیا ۔۔۔چن صاحب کی ایک تصویر گزشتہ روز سے سوشل میڈیا پر گھوم رہی ہے جس میں وہ عمران خان کی طرف دیکھ رہے ہیں اور مسکرا رہے ہیں ،عمران خان بھی شرارتی انداز میں مسکراتے نظر آرہے ہیں ۔۔اب سنا ہے 25 اپریل کو عمران خان صاحب چن صاحب کے حلقے میں جائیں گے ،وہاں پر تقریب ہو گی ،جلسہ ہوگا اور جناب چن صاحب پاکستان تحریک انصاف میں باقاعدہ شمولیت کا اعلان کریں گے ۔۔۔۔پھر نعرے گونجیں گے عمران تیری عظمت کو سلام ۔۔۔۔۔۔۔جس تیزی سے پیپلز پارٹی کے عظیم جیالے تحریک انصاف میں جارہے ہیں ،لگتا ہے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے پاس ٹکٹیں تو بہت زیادہ ہوں گی ،لیکن انہیں امیدوار نہیں مل پائے گا ۔۔کسی نے آج سوشل میڈیا پر لکھا کہ جس دن قائرہ صاحب اور جناب چوہدری نثار صاحب پی ٹی آئی میں چلے گئے ،تب اس بات کی تصدیق ہو جائے گی کہ اپنے خان صاحب ہی پاکستان کے اگلے وزیر اعظم ہوں گے ،لگتا ایسا ہی ہے کہ معاملات اس طرف ہی بڑھ رہے ہیں۔۔سنٹرل پنجاب کے علاقہ منڈی بہاوالدین گوندل فیملی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے ۔۔ندیم افضل چن سمیت ان کی فیملی کے بہت سے افراد کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ electable ہیں،کوئی انہیں ٹکٹ دے یا نہ دے ،یہ اپنی سیٹیں نکال لیتے ہیں ۔۔۔گوندل فیملی کا پیپلز پارٹی کے ساتھ پرانا رشتہ رہا ہے ۔۔لیکن پیپلز پارٹی بھی کیا شاندار سیاسی جماعت ہے ،کوئی آئے یا کوئی جائے ،زرداری صاحب کو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔بس زرداری صاحب اور بلاول صاحب ہمیشہ یہی کہتے رہتے ہیں اگلی باری ان کی ہے ۔۔۔ان کی گیم سیٹ ہے ۔۔۔۔زرداری صاحب تو درجنوں مرتبہ فرما چکے ہیں کہ اگلی حکومت ان کی ہو گی ،سیاست کا نیلسن منڈیلا اب اگر ایسا کہہ تو ماننا تو پڑے گا ،لیکن حقائق کچھ اور ہی ہیں ۔۔۔جنوبی پنجاب سے پیپلز پارٹی کے بہت سے لوگ چلے گئے ،چن فیملی چلی گئی ،لیکن پیپلزپارٹی کو اس لئے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اگلی حکومت تو ان کی ہے ۔۔۔وہ جو یہ کہتے ہیں کہ اس باری پیپلز پارٹی کی حکومت بنے گی ،ان کی گیم سیٹ ہے ،ایسا وہ کیوں کہتے ہیں ،مجھے تو سمجھ نہیں آتی ۔۔۔وہ سیاسی جماعت جس کا نام پیپلز پارٹی ہے ،ضمنی انتخابات میں ان کے امیدواروں کی ضمانتیں ظبط ہوئی ،کیسے یہ پارٹی حکومت بنائے گی ؟لوگ پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر جارہے ہیں ،زرداری صاحب فرما رہے ہیں کہ پارٹی درست سمت میں جاری ہے ۔۔۔۔۔ایسا لگتا ہے کہ آصف زرداری صاحب کے فرشتانہ خیال کو لوگ سمجھ نہیں رہے ،اصل میں وہ کہہ یہ رہے ہیں کہ سندھ میں اگلے الیکشن میں بھی ان کی حکومت ہوگی ۔۔۔۔ایک زمانہ تھا پنجاب پیپلز پارٹی کا گڑھ تھا ۔۔یہ زمانہ زوالفقار بھٹو کا زمانہ تھا ۔۔۔بی بی زندہ تھی تو پنجاب میں پھر بھی پی پی پی کسی حد تک مضبوط رہی ۔۔زرداری صاحب آئے تو پیپلز پارٹی پنجاب سے غائب ہو گئی ؟ایسا کیوں ہوا؟پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ نے کبھی اس پر سوچا ہی نہیں ۔۔۔ان کے پاس چند نعرے ہیں زندہ ہے بھٹو زندہ ہے ،یا اللہ یا رسول بے نظیر بے قصور ،اسی پر معاملات چلائے جارہے ہیں ۔۔۔زرداری صاحب بھٹو تو زندہ ہے لیکن پیپلز پارٹی مر رہی ہے ۔۔پنجاب سے تقریبا پیپلز پارٹی انتقال کرچکی ،خیبر پختونخواہ میں آخری سانسیں لے رہی ہے ،بلوچستان تو ہے ہی گوادر والوں کا ۔۔ایک بچہ سندھ جہاں پیپلز پارٹی شاید زندہ ہے ۔۔۔۔اور شاید برسوں تک زندہ رہے گی ۔۔۔۔اس لئے اب پیپلز پارٹی والوں کو ایک ہی نعرہ لگانا چاہیئے ۔۔مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں ۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔