باپ کا رویہ عجیب تھا۔ اسے کسی طور بھی نارمل نہیں کہا جا سکتا تھا۔ تین بچوں میں سے منجھلے بیٹے کے ساتھ وہ ترجیحی سلوک کرتا تھا۔ ’’انور نے ناشتہ کیا؟ کیا انور کے لیے عید کے نئے کپڑے آ گئے؟ کیا انور نے ہوم ورک کر لیا؟ کیا انور کے کمرے کی صفائی ہو گئی؟ فلاں شے انور کے لیے الگ کر کے رکھ دو‘‘… اس قسم کے سوالات اور ہدایات تھیں جن سے گھر کے تمام افراد چڑنا شروع ہو گئے۔ بیوی نے کئی بار سمجھایا کہ تینوں بچے تمہارے نزدیک یکساں سلوک کے مستحق ہونے چاہئیں۔ اس نے بتایا کہ وہ تینوں میں سے کسی کے ساتھ ترجیحی سلوک روا نہیں رکھ سکتی اس لیے کہ باقی دو کی دل آزاری ہوگی۔ لیکن ’’عقل مند‘‘ باپ کے بھیجے میں یہ نکتہ نہ سما سکا۔ اس نے انور کے ساتھ خصوصی برتائو جاری رکھا۔
انور کو اس احمقانہ امتیاز کا فائدہ تو کیا ہونا تھا‘ نقصان بہت ہوا۔ باقی دونوں بچے اس سے کھنچنے لگے۔ وہ انہیں بھائی کم اور حریف زیادہ نظر آنے لگا۔ حسد کا عنصر زہر کی طرح سرایت کرنے لگا۔ دونوں‘ نادانستہ طور پر‘ مخالف فریق بن گئے۔ وہ ہر معاملے میں مخالفت کرنے لگے۔ باپ کے غیر دانشمندانہ رویے کی سزا انور کو ملنے لگی… اور تو اور‘ ماں بھی اس کا کام کرتے یا کرواتے ہوئے یہ محسوس کرنے لگی کہ اپنا فرض نہیں ادا کر رہی‘ میاں پر احسان کر رہی ہے۔ جو گرم جوشی دوسرے دو بچوں کے لیے تھی‘ کوشش کے باوجود انور کے لیے پیدا نہ ہو سکی۔ باپ کا ترجیحی سلوک انور کے لیے زندگی بھر کی محرومی کا سبب بن گیا۔
دو دن پہلے شہر کے وسط سے گزر ہوا۔ عین دوپہر کا وقت تھا۔ دفتروں میں کام اور بازاروں میں کاروبار عروج پر تھا۔ کانوں سے جوش و خروش سے بھری ہوئی بلند آواز تقریر ٹکرانے لگی۔ دائیں طرف دیکھا‘ شاہراہ کے کنارے جلسہ تھا۔ کوئی شعلہ بیان مقرر خطاب کر رہا تھا۔ پھر بینروں پر نظر پڑی۔ کئی کئی فرلانگ نہیں تو کئی کئی گز لمبے بینر ہر طرف چھائے ہوئے تھے۔ یہ ایک گروہ کی سرگرمی تھی۔ یہ اجتماع مشرق وسطیٰ کے ایک ملک کے دفاع کے ضمن میں منعقد ہوا تھا۔
سوال یہ ہے کہ کسی ملک کے دفاع کے لیے اگر کوئی مخصوص گروہ یا مخصوص مسلک کے لوگ سرگرمی دکھائیں گے اور اس ملک کو اپنے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کریں گے تو اس ملک کو فائدہ ہوگا یا نقصان؟ اگر اکثریت کا اُس مسلک سے تعلق نہیں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ سرگرمیاں اُس ملک کو بھی ایک مخصوص گروہ یا ایک مخصوص مسلک کے حوالے سے دیکھنے کا سبب بن جائیں۔
سعودی عرب کسی ایک گروہ کی آنکھ کا تارا نہیں۔ وہ تو دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کا مرجع ہے۔ کیا کوئی سنی‘ کوئی شیعہ‘ کوئی اہلِ حدیث‘ کوئی بریلوی‘ کوئی سلفی‘ کوئی دیوبندی‘ کوئی زیدی‘ کوئی مالکی‘ کوئی حنفی‘ کوئی شافعی‘ کوئی حنبلی یا کوئی جعفری ایسا ہے جو سبز گنبد کو دیکھ کر مجسم عقیدت و اطاعت نہ بن جائے؟ کیا ان گروہوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا ہے جو سبز گنبد والے اور کالی کملی والے کا نام نامی اسم گرامی سن کر درود نہ پڑھنے لگ جائے۔ کیا کوئی ایسا ہے جس کی زندگی کی سب سے بڑی آرزو مقامِ ابراہیم کا دیدار‘ حرمِ پاک کا طواف اور ملتزم سے چمٹنا نہ ہو؟ کیا صفا اور مروہ کے درمیان سعی کسی ایک گروہ کے لیے مخصوص ہے؟ کیا زمزم سب کے لیے مقدس نہیں؟ سعودی عرب میں حرمین ہیں۔ جس خاک میں سرورِ کونینؐ محوِ استراحت ہیں‘ وہ خاک ایک گروہ نہیں‘ تمام مسلمانوں کی آنکھ کا سرمہ ہے۔ حضرات ابوبکر صدیقؓ اور عمر فاروقؓ کی مقدس قبور وہاں ہیں۔ وہاں جنت البقیع ہے جہاں خاتونِ جنتؓ آرام فرما ہیں۔ نواسۂ رسول امام حسنؓ وہیں ہیں۔ امام زین العابدینؒ اور امام باقر ؒ ہیں۔ امام ابو حنیفہؒ کے استادِ گرامی امام جعفر صادقؒ کی قبر مبارک ہے۔ مسجد نبوی میں ریاض الجنۃاور منبرِ رسولؐ ہے۔ وہاں وہ مقدس گھر ہے جہاں آمنہؓ کے لالؐ دنیا میں تشریف لائے۔ حرا اور ثور کے مقدس غار ہیں۔ بدر اور احد کے میدان ہیں۔ وہ رہگزاریں ہیں جہاں مقدس پائوں پڑے۔ حجاز وہ مقدس سرزمین ہے جو گروہوں‘ نسلوں‘ رنگوں‘ مسلکوں‘ عقیدوں سے ماورا ہے۔ اللہ کے بندو! کیا تم نہیں دیکھتے کہ مسجدِ نبوی کی آغوش سب کے لیے وا ہے۔ سیاہ فام‘ زرد فام‘ سفید فام سب کو دامن میں سمیٹے ہے۔ ان گنہگار آنکھوں نے ویل چیئر پر ایک سفید فام یورپی مرد کو دیکھا‘ اُس نے پونی رکھی ہوئی تھی۔ عقیدت سے اس کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔ وہاں تو کوئی بھی دھتکارا نہیں جاتا! اس مقدس سرزمین پر کسی مخصوص گروہ‘ کسی خاص مسلک‘ کسی ایک جماعت کی چھاپ نہ لگنے دو۔ احتیاط کرو! کہیں ایسا نہ ہو کہ آبگینے کو ٹھیس لگ جائے۔ خدانخواستہ‘ میرے منہ میں خاک‘ کسی دل میں اس شائبے کا سایہ نہ پڑ جائے کہ یہ ملک تو فلاں مسلک یا فلاں گروہ سے وابستہ ہے ؎
ادب گاہیست زیرِ آسمان از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید اینجا
اور ایران؟ ایران آخر ایک مسلک یا ایک گروہ کی جذباتی ملکیت کس طرح ہو سکتا ہے؟ ایران تو ہماری تہذیب کا گڑھ ہے۔ آٹھ سو سال تک فارسی ہماری سرکاری اور تہذیبی زبان رہی۔ آج بھی وہ ہماری تہذیبی زبان ہے۔ لاکھوں مدارس میں گلستان اور
بوستان صدیوں تک پڑھائی جاتی رہی۔ ان شہرۂ آفاق کتابوں کا خالق‘ بلغ العلیٰ بکمالہٖ‘ کشف الدجیٰ بجمالہٖ‘ حسنت جمیع خصالہٖ‘ صلوا علیہ وآلہٖ جیسی شاہکار سطریں لکھنے والا سعدی ایران ہی میں تو آسودۂ خاک ہے۔ وہ حافظ شیرازی جس کے بارے میں علامہ اقبال کے چند اشعار حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی کی طبع نازک پر گراں گزرے تو روایت ہے کہ علامہ نے وہ حذف کر دیے‘ وہ حافظ شیرازی ایران ہی میں تو آرام کر رہا ہے۔ کیا کوئی اندازہ کر سکتا ہے کہ گزشتہ ایک ہزار سال کے دوران‘ برصغیر کے اطراف و اکناف میں دیوانِ حافظ کے کتنے نسخے طبع ہوئے‘ کتنوں نے مدرسوں‘ خانقاہوں‘ مزاروں‘ مسجدوں‘ حجروں اور آستانوں پر دوزانو ہو کر اسے پڑھایا اور کتنوں نے سبقاً سبقاً لفظ لفظ اسے پڑھا؟ یہ اشعار آخر کس کے لیے اجنبی ہو سکتے ہیں ؎
الا یا ایہاالساقی ادِر کاساً و ناولہا
کہ عشق آسان نمود اول ولی افتاد مشکل ہا
بمی سجادہ رنگین کن گرت پیرِ مغان گوید
کہ سالک بی خبر نبود ز راہ و رسمِ منزل ہا
اور یہ بھی کہ
اگر آن ترکِ شیرازی بدست آرد دل ما را
بخالِ ہندئوش بخشم سمرقند و بخارا را
بدہ ساقی مئی باقی کہ درجنت نخواہی یافت
کنارِ آبِ رکناباد و گلگشتِ مصلیٰ را
اور وہ نیشاپور بھی تو ایران ہی میں ہے جہاں صوفیوں کے صوفی عطار تھے۔ کیا رومی نے نہیں کہا تھا ع
ما از پئی سنائی و عطار آمدیم
اور وہ اصفہان‘ جو نصف جہان تھا اور جو ایرانی نہیں مسلم ثقافت کا ترجمان تھا اور رہے گا ؎
ملیں گے آیندگاں کو تبریز اور حلب میں
گئے ہوئوں کی نشانیاں اصفہاں سے لیں گے
ہم سے تو اُس معیار کی کلیات اقبال بھی شائع نہ ہو سکی جو ایرانی شائع کرتے ہیں۔ کیا طباعت ہے اور کیا اقبال سے محبت ہے اہلِ ایران کو! غالبؔ اور بیدلؔ کا کلام بھی انہی کے دم سے سلامت ہے اور امیر خسرو کا بھی!
سینکڑوں سال خود برصغیر ایرانی شاعروں‘ ادیبوں‘ دانشوروں‘ سپاہیوں کے لیے مقناطیس کی طرح پُرکشش رہا۔ نظیری‘ ابو طالب کلیم‘ طالب آملی‘ صائب تبریزی تو چند نام ہیں۔ آنے والوں اور بس جانے والوں کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔ حیدرآباد دکن میں آج بھی ایرانی گلی موجود ہے۔ برصغیر کے مسلمان اور ایران ایک دوسرے سے الگ کس طرح ہو سکتے ہیں ؎
جو تم ہو برقِ نشیمن تو میں نشیمنِ برق
الجھ گئے ہیں ہمارے نصیب کیا کہنا!
یہ رشتے سیاست دانوں اور حکمرانوں کے مرہونِ منت نہیں‘ نہ ان سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ صفوی‘ قاچاری‘ آریا مہر‘ مغل‘ سب تاریخ کے دھندلکوں میں کھو گئے۔ جو آج ہیں‘ کل وہ بھی نہیں ہوں گے۔ ایران میں صرف حکمران نہیں‘ اور بھی لوگ ہیں۔ مجتہدینِ عرفانیات بھی ہیں! پاکستانیوں کا تعلق حکمرانوں سے نہیں‘ ایران اور اہلِ ایران سے ہے۔ ثقافت‘ ادب‘ زبان اور تہذیب سے ہے اور رہے گا۔ اس میں کسی مسلک یا کسی گروہ کی ملکیت ہے نہ اجارہ داری!
محبت‘ عقیدت‘ ثقافت اور ادب کے رشتوں کو‘ جو صدیوں پر محیط ہیں‘ مسلکوں اور گروہوں کی نذر نہیں کیا جا سکتا۔ سعودی عرب اور ایران دونوں کو اُن نادان دوستوں کی ہرگز ضرورت نہیں جو دوست کے چہرے پر بیٹھی ہوئی مکھی کو پتھر سے کچلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“