سوئٹزرلینڈ میں مقیم سیاہ فام امریکی ڈاکٹر ٹی این کو 54 برس کی عمر میں 2004 میں دورہ پڑا جس سے ان کا دماغ متاثر ہوا۔ ان کے ویژوئل کورٹیکس کو نقصان پہنچا۔ یہ وہ حصہ ہے جو آنکھ سے آنے والے سگنل کو پراسس کرتا ہے۔ پانچ ہفتے بعد دوسرا دورا پڑا جس نے دونوں اطراف کے بصری کورٹیکس کو اتنا نقصان پہنچایا کہ ان کو نظر آنا مکمل طور پر بند ہو گیا۔ ان کی آنکھیں بالکل ٹھیک تھیں لیکن وہ حصہ جو ان سے آنے والے سگنل کو پراسس کرتا تھا، ناکارہ ہو گیا تھا۔ اس حد تک کہ وہ روشنی اور اندھیرے کے درمیان تمیز بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ٹی این مکمل طور پر نابینا تھے۔
ان کے کیس نے ڈاکٹروں اور ریسرچرز کو تحقیق کرنے کا ایک موقع دے دیا۔ ان پر ایک دلچسپ تجربہ ان کی بینائی پر کیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک تجربے میں ان کو تصاویر دکھائی گئیں جن میں یا تو دائرہ بنا تھا یا مثلث۔ وہ دیکھ نہیں سکتے تھے لیکن ان کو انتخاب کرنے کو کہا گیا۔ پچاس فیصد اندازے ٹھیک نکلے۔ اتنے ہی جتنی توقع تھی۔ اس کے بعد اس تجربے کو بدل دیا گیا۔ ان کو چہرے دکھائے گئے جن میں لوگ یا تو خوش تھے یا اداس۔ ان کو پہچاننے کو کہا گیا کہ وہ بتائیں کہ جو چہرہ تصویر میں ہے، وہ نظر آیا ہے یا اداس۔ ان کے ٹھیک اندازوں کی تعداد ستر فیصد سے زیادہ تھی۔
چہرے ہمارے لئے شکلوں سے زیادہ اہم ہیں۔ ان کو پہچاننے اور تجزیہ کرنے کے لئے دماغ میں سپیشلائززڈ حصہ ہے جو فیوزی فورم فیس ایریا کہلاتا ہے۔ ہم چہروں سے لوگوں کے موڈ کا اور ان کے رد عمل کا اندازہ لگاتے ہیں۔ کسی سے تعلقات بنانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اس صلاحیت کے بغیر معاشرت نہیں بن سکتی۔
ٹی این کے دماغ میں فیوزی فورم فیس ایریا آنکھ سے سگنل موصول کر کے اندازہ لگا رہا تھا لیکن ٹی این خود اس سے واقف نہیں تھے۔ ان کو تو کچھ نظر ہی نہیں آ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس تجربے کے کچھ مہینے بعد محققین کے ایک گروپ کو ایک بڑا ہی انوکھا تجربہ کرنے کا خیال آیا۔ چہروں کو پڑھنا تو انسان کی ایک ضرورت ہے۔ اس سے زیادہ بڑی ضرورت یہ ہے کہ گرنے سے بچا جائے۔ اگر آپ کسی چیز سے ٹھوکر کھا کر گرنے والے ہیں تو اس سے بچنے کے لئے کی گئی تمام حرکات غیرشعوری طور پر کی جاتی ہیں۔ ٹی این کو کہا گیا کہ وہ ایک ہال میں ایک جگہ سے دوسری جگہ تک چلنے کی کوشش کریں، جبکہ راستے میں جس میں کئی طرح کی چیزیں فرش پر پڑی ہوں۔
ٹی این نے اس میں حصہ لینے سے انکار کر دیا۔ کونسا نابینا انسان کسی رکاوٹوں والی جگہ پر بغیر چھڑی کے چلنا پسند کرے گا۔ لیکن بہت اصرار کے بعد اور اس یقین دہانی کے ساتھ کہ ان کے ساتھ ساتھ ایک شخص ہو گا جو گرنے نہیں دے گا اور ان کو تھام لے گا، انہوں نے حامی بھر لی۔
اپنی چھڑی ریسرچرز کے حوالے کی اور چلنا شروع کیا۔ سب کی حیران نگاہوں کے آگے ٹی این نیچے گرے ہوئے کوڑے کے ڈبے کی سائیڈ سے گزر گئے۔ کاغذوں کے ڈھیر اور کئی ڈبوں سے بچتے ہوئے آگے بڑھتے گئے۔ نہ کسی چیز سے ٹکرائے، نہ لڑکھڑائے۔ اور یہ سب جس تیزرفتاری سے انہوں نے کیا تھا، اس کی توقع ریسرچرز کو بالکل بھی نہیں تھی۔ جب کامیابی سے دوسرے طرف پہنچ گئے تو ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے یہ سب کیسے کر لیا۔ ٹی این کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ انہوں نے اپنی چھڑی واپس مانگی۔
ٹی این نے جس چیز کا ہونا ثابت کیا تھا اس کو بلائنڈ سائٹ کہا جاتا ہے۔ انکو بصارت کا شعوری علم نہیں تھا۔
اس دریافت سے جو ابتدائی ری ایکشن سائنسی حلقوں میں بھی ہوئے، وہ اس کا مذاق اڑانے کے تھے۔ کئی برسوں کے بعد آ کر اس کی موجودگی کو تسلیم کیا گیا ہے۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو اس میں حیران ہونے کی یا اس کو سنتے ہی رد کرنے کی وجہ نہیں تھی۔ دورہ پڑنے نے ان کی جس چیز کو نان فنکشنل کر دیا تھا، وہ شعور کے لئے بصارت کا تجربہ تخلیق کرنے والا آلہ تھا۔ ان کی آنکھیں اور غیرشعوری حصہ کام کر رہا تھا۔ دماغ کی الگ تہیں ایک دوسرے سے آزادانہ کام کرتی ہیں۔
یہ ویڈیو ٹی این کے رکاوٹوں سے بچ کر کمرہ پار کرنے کے بارے میں۔ یاد رہے کہ اس میں سے وہ کچھ بھی نہیں دیکھ پا رہے۔
اس پر آرٹیکل