بادی النظر میں نیب میں لوٹ مار اور کرہشن کے جو الزام ہیں ان میں مبینہ رقم کو ٹوٹل کر لیا جائے تو اس رقم سے کم و بیش لاکھوں گنا زیادہ پاکستان کا نقصان موجودہ نام نہاد ایماندار حکومت کر چکی ہے۔
کاش کوئی ماہرمعاشیات اس کا درست درست حساب کر کے اس قوم کے سامنے رکھ سکے۔
کسی نے کسی کو کہہ دیا کتا تمھارا کان لے گیا۔ اس بیوقوف نے اپنا کان تو نہ دیکھا مگر کتے کے پیچھے دوڑ لگا دی۔
پراپیگنڈہ کے زیر اثر جاہل طبقے کا اسی بیوقوف والا حال ہے جس نے اپنا کان دیکھے بغیر کتے کے پیچھے دوڑ لگا دی۔ اس پراپیگنڈہ نے پاکستان کو کھربوں روپے کا نقصان دیا ہے۔
اس حال میں بھی پراپیگنڈہ کرنے والوں یا پراپیگنڈہ پر یقین کرنے والوں کو بھی شرم نہیں آتی کہ ہمارے ملک میں 97 ارب سے 3 میٹرو بن چکی ہیں جبکہ ایک BRT جو کہ میٹرو ہی ہے اس 100 ارب سے زائد لگا کر مکمل نہ کر سکنے والے ہی الزام لگانے والے ہیں۔ کیا شرم نہیں آنی چاہئے؟
اس الزام لگانے والے نے 126 دن تک ڈی چوک میں اودھم مچائے رکھا کہ اس کے پاس 35 پنکچر کی ٹیپ ہے۔ مگر جب 126 دن کا یہ کنسرٹ ختم ہوا تو اس سے پوچھا گیا جناب وہ 35 پنکچر کی ٹیپ کدھر ہے جس کے لئے آپ ملک بند کروا رہے تھے۔ تو اس بےشرم نے کہا کہ وہ تو صرف ایک سیاسی بیان یعنی جھوٹ تھا۔
ابھی چند دن پہلے اس 126 دن والے کنسرٹ کے سپانسر جہانگیرترین نے کہا ہمیں معلوم تھا کہ ہمیں اتنے ووٹ ہی نہ ملے تھے۔ تقریبا وہی الفاظ جسٹس وجیہہ نے کہے ان الفاظ کو تسلیم کیا گیا مگر بےشرموں کو پھر شرم نہیں آتی پھر بھی اس جھوٹے نکمے پر یقین کرتے ہیں جو اپنے جھوٹ کو یوٹرن کہتا ہے۔
پھر اس گھٹیا انسان نے 70 دن میں خیبرپختونخواہ میں کرپشن ختم کرنے کا وعدہ کیا اور کم و بیش ایک سال بعد خیبرپختونخواہ میں "صوبائی احتساب کمیشن" بنایا اور اس کا سربراہ اپنے ایک دوست جنرل حامد خان کو لگایا۔ جنرل حامد خان نے جب احتساب کمیشن کا سربراہ بن کر کام شروع کیا تو انھوں نے کہا کہ خیبرپختونخواہ میں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے یہاں ترقیاتی کاموں کا %60 حکومتی ارکان کی جیب میں جا رہا ہے جبکہ بقایا %40 میں سے سرکاری لوگ اپنا حصہ وصول کر کے کام کر رہے ہیں۔
یہ باتیں آن ریکارڈ ہیں۔
پھر جنرل حامد خان نے اپنا کام جاری رکھا تو اس کو پتہ چلا کہ خیبرپختونخواہ کے اس وقت کے وزیراعلیٰ پرویزخٹک اسپیکر اسد قیصر اور پوری کی پوری کابینہ کرپشن میں ڈوبی ہوئی ہے۔ بہت ممکن تھا کہ کچھ دن میں جنرل حامد خان اس وقت کی خیبرپختونخواہ کی پوری حکومت کو ہتھکڑیاں لگا کر جیل میں بند کر دیتے۔ پرویز خٹک اور پوری کابینہ بنی گالا میں عمران نیازی کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
عمران نیازی نے جنرل حامد خان کو جو کہ خود اس کا لگایا ہوا احتساب کمیشن کا سربراہ لگایا ہوا تھا نرمی کے لئےکہا مگر جنرل حامدخان نے کسی بھی قسم کی نرمی کرنے سے انکار کر دیا۔ جس پر بنی گالا میں بیٹھ کر انھوں نے فیصلہ کیا کہ کسی طریقہ سے جنرل حامد خان سے جان چھڑائی جائے۔
یاد رہے کہ پرویزخٹک حکومت کے پاس خیبرپختونخواہ میں اتنی اکثریت نہ تھی کہ وہ صوبائی اسمبلی میں ایسی آئین سازی کر سکتے جس سے صوبائی احتساب کمیشن کے اختیار کو کم کیا جا سکتا۔ اس کے لئے پرویزخٹک کو کہا گیا کہ وہ دوسری جماعتوں سے رابطہ کرے تا کہ اس بل میں ترمیم کی جا سکے۔
پرویز خٹک نے صوبائی اسمبلی میں ترمیم میں حمایت حاصل کرنے کے لئے آفتاب شیرپاؤ سے رابطہ کیا تو آفتاب شیرپاؤ نے پرویزخٹک سے کہا کہ میں کیسے بھول سکتا ہوں کہ آپ کے کپتان نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر کہا تھا کہ میں نے "آفتاب شیر پاؤ جیسا چور زندگی میں دیکھا ہی نہیں"
پرویزخٹک نے یہ بات آکر عمران نیازی سے کی اور کہا کہ آپ کو اپنے الفاظ پر آفتاب شیرپاؤ سے معافی مانگنی ہو گی۔ کپتان جو کہ یوٹرن میں ماہر پرویزخٹک کے ساتھ معافی مانگنے آفتاب شیرپاؤ کے گھر پہنچ گیا اور اپنے الفاظ پر معافی مانگی۔ مگر آفتاب شیرپاؤ نے کہا نہیں جناب نیازی صاحب معافی ایسے نہیں مانگی جاتی۔ ہمارے ہاں معافی مانگنے کا طریقہ کار یہ ہے کہ آپ کو مجھے سب سے بڑا چور کہنے پر معافی "جرگہ" میں مانگنی ہو گی۔ عمران نیازی جرگہ میں معافی مانگنے پر تیار ہو گیا۔ اور پھر "جرگہ" مقرر ہوا "جرگہ" کے سامنے عمران نیازی نے آفتاب شیرپاؤ سے معافی مانگی جس کا خیبرپختونخواہ کے ہر سیاستدان کو معلوم ہے۔ اس "جرگہ" کی خبر میڈیا پر رپورٹ یوئی۔
یہ ہے ثاقب نثار کے لاڈلے صادق اور امین کی اصلیت اور یہ ہے طارق جمیل کے اکلوتے ایماندار کی اوقات افسوس جاہلوں کو پراپیگنڈہ پر بھروسہ سے سچ سے تکلیف ہوتی ہے۔ پھر آفتاب شیرپاؤ کے حمایتی ایم پی ایز نے اسمبلی میں اس بل میں ترمیم میں ساتھ دیا۔ جو ترمیم کچھ یوں تھیں کہ "صوبائی احتساب کمیشن" کا سربراہ وزیراعلیٰ اور اسپیکرصوبائی اسمبلی کی اجازت کے بغیر کوئی انکوائری نہ کرے گا۔ کسی بھی الزام پر 30 دن سے زیادہ انکوائری کی اجازت نہ ہو گی۔ اگر کوئی کرپشن 90 دن پرانی ہو گی تو اس کی انکوائری نہ ہو سکے گی۔
یہ باتیں آن ریکارڈ اور پختونخواہ اسمبلی کا حصہ ہیں جس پر حامدخان نے بد دل ہو کر "احتساب کمشن" کی سربراہی سے استیعفا دے دیا۔ بعد ازاں خیبرپختونخواہ کا "صوبائی احتساب کمشن" بذات خود کرپشن کا گڑھ بن کر بند ہو گیا۔ موجودہ صوبائی حکومت نے اس کو ختم کر دیا ہوا ہے۔ یہ سب کچھ ناقابل تردید سچ ہے جس کو کوئی پراپیگنڈہ بھی جھوٹ ثابت نہ کر سکتا ہے۔
اب یہ بتائیں کہ یہ سب کچھ جان کر بھی جو لوگ اس فراڈئیے زکواۃ چور کو اکلوتا ایماندار سمجھتے ہیں ان کے ضمیر زندہ ہیں؟ ہرگز نہیں یہ محض مردہ ضمیر مفاد پرست بغض میں بھرے ہوئے لوگ ہیں۔
اپنے اپنے مفادات اور اپنے اپنے بغض کے شکار لوگوں نے اکٹھے ہو کر پاکستان کے 22 کروڑعوام کےساتھ ظلم کیا اور اچھا بھلا ترقی کی منازل طے کرتا ہوا پاکستان تباہی کےدھانےمیں گر رہا ہے۔
خدارا ہوش کریں وطن فروشوں ضمیرفروشوں کے پراپیگنڈہ کا شکار ہو کر ملک دشمنی سے توبہ کرلیں
اللہ ہدایت دے