ولادت:-8.جولائی 1913 میرٹھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.وفات:- 22.ستمبر 2000. کراچی
نعت کے عظیم شاعر پروفیسر اقبال عظیم کی یادوں کے اجالوں سے میرے گھر کےدرودیوار آج بھی جھلملارہے ہیں ۔ان کا اپنائیت اور محبت کے ساتھ تشریف لانا،ان کی بصیرت افروز نعتوں سے ہمارا لطف اٹھانا،ہر ہر نعت کے ایک ایک شعر میں مخفی سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےتابناک پہلووں سےحرم ِ دل کاجگمگانا اورعشق و محبت میں ڈوبے ہوئے آتش ِ شوق کو بھڑکانا اسی وقت کیلئے نہیں تھا۔ لگتا ہے وقت کا سفر ٹھہر کر رہ گیا ہے یا میں اپنے عہد ماضی میں واپس آگیا ہوں ۔میں اب بھی اپنے گھر کی بیٹھک میں انہیں نعت سرا دیکھ رہاہوں ۔ میرے والدِ بزرگوارسید فخرالدین بلے کاانگ انگ انہیں داد دے رہا ہے اور محترم احمد ندیم قاسمی تصویرِ حیرت بنے ہوئے ہیں ۔
پنجاب کےجاڑے ابھی اپنے جوبن پر نہیں پہنچے تھے۔ یوں سمجھ لیجے کہ ہم پنجاب کے رہنے والوں کے لیے تو موسمِ سرما کا آغاز ہی ہوا چاہتا تھا ۔ ایک روز ادب ِ لطیف کی پرچارک محترمہ صدیقہ بیگم آئی ہوئی تھیں اور ہماری والدہ ماجدہ محترمہ مہرافروز بلے کے ساتھ محوِ گفتگو تھیں ۔ ہم اپنی دونوں ماٶںکےبیچگھرےبیٹھےتھےکہاچانکفونکیگھنٹیبجی۔ہم نے دوسری یا تیسری ہی بیل پر فون اٹھایا اور السلام علیکم کہا جوابا“ محترم جناب احمد ندیم قاسمی صاحب کی آواز میں وعلیکم السلام سنائی دیا ۔ انہوں نے والدگرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب اور دیگر اہل خانہ کی خیریت دریافت کی اور مجھ سے تصدیق چاہی کہ آپ گھر پر ہی ہیں۔ ہم نے عرض کیا بالکل شام پانچ بجے تک تو یقینی طور پر ۔ آپ حکم فرمائیے ۔ قاسمی صاحب نے مسکراہٹ بھرے لہجے میں فرمایا ہم نے گزارش یہ کرنی تھی کہ پروفیسر اقبال عظیم صاحب لاہور تشریف لائے ہوئے ہیں ۔آج کسی وقت میرے پاس بھی آنے کا ارادہ تھا لیکن ان کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی ۔ موسم کے چال چلن بدلنے کا احساس تو ہمیں بھی ہورہا ہے۔ کراچی کے رہنے والوں کےلیے یقینا“ یہ موسم سرما ہی ہے ۔ لیکن خیر اقبال عظیم صاحب نے مجلس کے دفتر آنے سے تو معذوری ظاہر فرمادی ہے اور کہا ہے کہ فخرالدین بلے کے ہاں اطلاع بھجوادیں کہ گھنٹہ بھر میں ہم ان کے ہاں پہنچ جائیں گے۔ کیوں کہ گھر جیسا آرام اور سکون تو بےشک یا وقار میاں اور بلےؔ میاں کے ہاں ہی مل سکے گا ۔ ہم نے قاسمی صاحب سے عرض کیا کہ آپ نے تو بہت بڑی خوشخبری سنا دی ۔ قاسمی صاحب نے فرمایا کہ انہوں نے سہہ پہر مجھے بھی آپ کے ہاں طلب فرمایا ہے۔ قصہ مختصر ہم نے قاسمی صاحب سے اپنی بات ختم ہونے کے فورا“ بعد اپنی دونوں والداٶں کومطلع کیا۔دونوں نے ہی ہماری بریکنگ نیوز پر خوشی کا اظہار کیا۔
(یہ وضاحت غیر ضروری سہی لیکن میں کرنا چاہتاہوں کہ میں محترمہ صدیقہ بیگم کااحترام اپنی ماں کی طرح ہی کرتاہوں اور کرتا رہا ہوں ۔اسی لئے میں انہیں پیار اور لاڈ کے ساتھ ہمیشہ امی جان ہی کہتا اور سمجھتا رہاہوں۔) جب ہم نے اپنی امی کو یہ بھی بتایا کہ ان کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔لہٰذا سب سے پہلے ان کے لیے بیڈ روم سیٹ کرتا ہوں تاکہ آتے کے ساتھ ہی اگر وہ آرام کرنا چاہیں تو کوئی دشواری نہ ہو۔ جلدی جلدی ان کیلئے بیڈ روم سیٹ کیا اور ساتھ ساتھ ڈرائنگ روم میں موجود تخت کا کور بھی تبدیل کردیا۔ کیا معلوم ؟ جناب اقبال عظیم صاحب آنے کے بعد کہاں آرام کرنا پسند فرمائیں۔ کچھ ہی دیر میں ہم نے کھڑکی سے دیکھا کہ والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب آگئے اور ان کو دیکھ کر ہم چونک سے گئے کہ ابو جان آج دوپہر کے 12 بجے سے بھی قبل دفتر سے گھر کیسے آگئے ؟۔ اس سے قبل کہ ہم کچھ اور سوچ پاتے ہم نے دیکھا کہ ابو اپنی سیٹ سے اتر کر گاڑی کی دوسری جانب آئے اور دروازہ کھولا اور بہت خیال اور آرام سے ہاتھ سے پکڑ کر اقبال عظیم صاحب کو اتار کر گھر کے اندر لا رہے ہیں ۔ یہ دیکھ کو تو ہم بھاگ کر باہر پہنچے اور اقبال عظیم صاحب کا ہاتھ تھام کر مودبانہ انداز میں سلام عرض کیا اور اندر تک لانے میں ابو کی مدد کی. ابو جان اورمیں نے اقبال عظیم صاحب کو ڈرائنگ میں بچھے تخت پر بٹھوایا۔وہ واقعی کچھ تھکے تھکے سے لگ رہے تھے ۔ میں نے ابو جان سے دریافت کیا کہ آپ کو اقبال صاحب کی آمد کی اطلاع کس نے دی تو انہوں نے بتایا کہ احمدندیم قاسمی صاحب کا دفتر کے نمبرپر ہی فون آیا تھا۔ انہوں نےمجھے بتایا کہ وہ ظفر کو مطلع کرچکے ہیں ۔لیکن اقبال بھائی کون سا روز روز لاہور آتے ہیں، لہذا اپنے دفتری کام آدھے ادھورے چھوڑ کر گھنٹہ ڈیڑھ کےلیے دفتر سے نکل کر خود ہی ان کو لینے چلا گیا ۔
اقبال عظیم صاحب کےاچانک آنے سے خوشی کی ایک لہرپورے گھر میں دوڑ گئی۔ ادبی موضوعات پر گفتگو بھی ہوئی۔میرا بچپنا کہئے یا معصومیت یا اسے کوئی اور نام دے دیں لیکن میں نے ایک ہی سانس میں ان بہت سی نعتوں کی فرمائش کردی جو میں ٹی وی یاریڈیو پر ان کی زبانی سنتارہایا ادبی اور نعتیہ محفلوں میں مجھے یہ مقبول نعتیں سننے کی سعادت حاصل ہوئی ۔میں نے ایک ہی سانس میں جتنی نعتوں کی فرمائش کی ،ان میں چندایک کے ابتدائی مصرعے میرے لوح ِ دماغ پراس و قت بھی جگمگا اٹھے ہیں۔ آپ بھی سن لیں ۔پھر بتاؤں گا کہ اس فرمائش پر حضرت اقبال عظیم سے پہلے محترم احمد ندیم قاسمی صاحب نے کیا کہا۔ میرا فرمائشی پروگرام ان نعتوں کےحوالے سے تھا۔
مجھ کو بھی کاش جلوہء خضریٰ دکھائی دے
مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ
فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر،ہم بھی بے بس نہیں بے سہارا نہیں
کیا خبر کیا سزا مجھ کو ملتی میرے آقا نے عزت بچا لی
سارے نبیوں کے عہدے بڑے ہیں،لیکن آقا کا منصب جدا ہے
میں تو خود ان کے در کا گدا ہوں اپنے آقا کو میں نذر کیا دوں
یہ واقعی ایسی نعتیں ہیں کہ جب اس کے خالق کی زبان پر آتیں تو فضائیں جھوم اٹھتی تھیں ۔احمد ندیم قاسمی صاحب نے میرا فرمائشی پروگرام سن کرفرمایا کہ میں بھی چاہتا ہوں کہ آپ کی خواہش پوری ہو لیکن اس کیلئے ایک شام بھی ناکافی ہوگی اور ہم تو گھنٹوں کیلئے نہیں ، منٹوں کیلئے آئے ہیں ۔ اقبال عظیم صاحب نے فرمایا ظفرمیاں میں آپ کی فرمائش ضرور پوری کروں گا ، آج نہیں ۔ان شااللہ آئندہ ملاقات پر اور وہ بھی آپ ہی کے گھر پر ہوگی ۔ان کا ردعمل حوصلہ افزا تھا۔ میرے والد بزرگوار سید فخرالدین بلے شاہ صاحب نے اقبال عظیم صاحب کے حوالے سےچند تحسینی کلمات پیش کئے اور کہا کہ اقبال عظیم صاحب کی نعتیہ شاعری گواہی دیتی نظر آتی ہے کہ یہ فنافی الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منزل پر فائز ہیں ۔انہیں ایک بار نہیں زندگی میں دوبار ہجرت کی سعادت حاصل ہوئی۔بھارت کے شہر میرٹھ سےان کی زندگی کاسورج طلوع ہوا تھا۔ تقسیم ِ ہند کے بعد یہ ہجرت کرکے مشرقی پاکستان چلے گئے۔مشرقی پاکستان جب مملکت ِ خدادادِ پاکستان سے الگ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا تو یہ وہاں سے ہجرت کر کےکراچی جابسے۔ مشرقی پاکستان میں بھی انہوں نے خوبصورت نعتوں کی بنیاد پردھوم مچائے رکھی اور پھر روشنیوں کے شہر کراچی میں بھی نعتوں کے گلاب مہکا کردنیائے ادب میں مدحیہ شاعری کی بنیاد پر خوب نام کمایا۔ ان کی نعتیں کانوں کے راستے سننے والوں کے دلوں میں اترتی چلی جاتی ہیں ۔بصارت سے محرومی کے باوجود ان کی چشم ِ بصیرت واہے۔بہرحال میں ہی کیا ایک زمانہ ان کی نعتوں کامداح ہے۔کیا کہوں ،ان کے اس شعر پر ہی اپنی گفتگو کوختم کرنا چاہتاہوں ۔
بصارت کھو گئی لیکن بصیرت تو سلامت ہے
مدینہ ہم نے دیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ
احمد ندیم قاسمی نے بھِی اپنے مخصوص انداز میں اختصار کے ساتھ اقبال عظیم صاحب کوسلامی دی ۔یہ بھی کہا کہ آج کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ مہمان اقبال عظیم اور میزبان سید فخرالدین بلے دونوں کی جنم بھومی میرٹھ ہے ، دونوں نے ہجرت کرکے پاکستان میں بسیراکرلیا اور دونوں حب الوطنی کےجذبے سےسرشار ہیں۔ دونوں پر نعتیہ مضامین اوپر سے اترتے ہیں اور ان دونوں شخصیات کانعتیہ رنگ الگ الگ ہے۔اس گفتگو کے بعد ہماری بیٹھک میں اقبال عظیم کی مترنم نعتوں کی بازگشت تادیر سنائی دیتی رہی ۔طبیعت کی ناسازگاری کے باوجود انہوں نے اپنابہت سے نعتیہ کلام سنا کریہ محفل لوٹ لی لیکن اس کی خوبصورت یادیں آج بھی میرا سرمایہ ہیں ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ انہیں اپنے جوار رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ اب قارئین کرام کی نذروہ نعتیہ کلام جو مجھے اپنے والدبزرگوار سید فخرالدین بلے اور عظیم ادبی شخصیت احمد ندیم قاسمی کی رفاقت میں سننے اور علم و عرفان کے موتی اپنے دامان ِ سماعت میں سمیٹنے کی مجھے سعادت نصیب ہوئی ۔
ہم نے اجمل نیازی صاحب کو روزنامہ پاکستان کے دفتر فون کرکے حکم صادر فرمایا کہ آپ کا آج کا ظہرانہ والدگرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب ۔ جناب احمد ندیم قاسمی صاحب اور دیگر مقامی مگر ایک مہمان برگزیدہ ہستی کے ساتھ بمقام بلے ہاٶس ہے ۔ جبکہ مدیراعلی دستگیر جناب سلطان ارشد القادری صاحب کو فون کرکے گزارش کی کہ آپ کو والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب نے طلب فرمایا ہے اور ان کا آپ کے نام یہ پیغام بھی ہے کہ آپ اپنے دولت کدہ واقع لکشمی چوک سے جناب طفیل ہوشیار پوری صاحب کو بھی لیتے آٸیے گا۔ اور ان کو لینے کے بعد محترم حفیظ تاٸب صاحب کو بھی بصد احترام پِک کرنا ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ ہی ہم نے جناب حفیظ تاٸب صاحب کو بھی فون کرکے مطلع کیا کہ آدھے گھنٹے میں آپ کے چہیتے مداح جناب سلطان ارشد القادری صاحب آپ کو لینے کےلیے آرہے ہیں۔ ازراہ کرم ان کے آنے تک تیار رہیے گا اور اپنے ساتھ اپنی بیاض ضرور لاٸیے گا۔ ہم نے خالد احمد صاحب اور نجیب احمد صاحب کو بھی فون پر بر وقت پہنچنے کی تاکید بھی کردی تھی۔ شہزاد احمد صاحب سے ہم نے اپنے مخصوص انداز میں بات کی اور یہ بھی تاکید کردی کہ اسلم کولسری صاحب کو بھی اپنے ہمراہ لیتے آٸیے گا۔ ظفر علی راجا صاحب ، شاہد واسطی صاحب اور برادر محترم بیدار سرمدی صاحب کو بھی بذریعہ فون مطلع کردیا گیا۔
جناب طفیل ہوشیارپوری ۔ جناب حفیظ تاٸب ۔ محترمہ صدیقہ بیگم ۔ جناب خالد احمد ۔ جناب شہزاد احمد ۔ جناب نجیب احمد ڈاکٹر اجمل نیازی ۔ جناب سلطان ارشدالقادری۔جناب شاہد واسطی. جناب ظفر علی راجا ۔ بیدار سرمدی ۔ اسلم کولسری صاحب اور سرفراز سید صاحب نے بھی حسب روایت قافلے کے اس پڑاٶ میں بھی بھر انداز میں شرکت فرماٸی۔ پروفیسر اقبال عظیم صاحب کے فن نعت گوٸی کے حوالے سے تمام شرکاٸے قافلہ پڑاٶ نے اظہار خیال فرمایا۔
پروفیسر اقبال عظیم کا نعتیہ کلام قارئین کرام کی نذر
میں توخود اُنکےدرکا گدا ہوں اپنےآقا ﷺ کومیں نذرکیادوں
اب تو آنکھوں میں بھی کچھ نہیں ہے ورنہ قدموں میں آنکھیں بچھا دوں
آنے والی ہےان کی سواری ،پھول نعتوں کے گھرگھرسجادوں
میرےگھرمیں اندھیرا بہت ہے،اپنی پلکوں پہ شمعیں جلادوں
میری جھولی میں کچھ بھی نہیں ہے،میراسرمایہ ہےتویہی ہے
اپنی آنکھوں کی چاندی بہا دوں اپنے ماتھے کا سونا لٹا دوں
میرے آنسو بہت قیمتی ہیں اِن سے وابستہ ہیں اُن کی یادیں
اِن کی منزل ہے خاکِ مدینہ یہ گہر یوں ہی کیسے لٹا دوں
قافلے جا رہے ہیں مدینے اور حسرت سے میں تک رہا ہوں
یالپٹ جاؤں قدموں سے انکے یا قضاکو میں اپنی صدا دوں
میں فقط آپ ﷺکو جانتا ہوں اور اسی در کو پہچانتا ہوں
اس اندھیرے میں کس کو پکاروں آپ فرمائیں کس کو صدا دوں
میری بخشش کا ساماں یہی ہے اور دل کا بھی ارماں یہی ہے
ایک دن ان کی خدمت میں جاکرانکی نعتیں انہی کوسنا دوں
پروفیسر اقبال عظیم ایک ایسا ادبی ستارہ تھے جو آسمانِ ادب پر قریباً ستر پچھتر برس تک جگمگانے کے بعد 22ستمبر 2000 کو نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔لیکن انہوں نے جویادگار شعری مجموعے چھوڑے ہیں ،ان کی روشنی سے دنیائے ادب اب بھی جگمگارہی ہے ۔چند شعری مجموعوں کے نام بھی ان کی فکر کی وسعت ، خیال کی رفعت ،احساسات کی نظافت اوردل ِ بیناکی بصارت و بصیرت کاپتادیتے ہیں ۔حضرت اقبال عظیم صاحب کے شعری مجموعوں کےنام قارئین کرام میں آتش شوق بھڑکانے کیلئےاس مضمون کی زینت بنادئیے ہیں ۔ آپ کوموقع ملے تو ضرور پڑھئیے گا۔”قاب قوسین”،”مضراب”،”لب کشا””مضراب و رباب”،”نادیدہ”،”چراغ آخرِ شب” ،”زبورِ حرم”اور “ماحاصل”۔ یہ شعری مجموعے بلاشبہ اردو نعتیہ ادب کی پہچان ہیں ۔اب آخر میں انہی شعری مجموعوں سے ماخوذ اقبال عظیم کی خوبصورت نعتیں جو آپ کو تڑپا اور رُلادیں گے ۔
مدینےکا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ
جبیں افسردہ افسردہ ، قدم لغزیدہ لغزیدہ
چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانب طیبہ
نظر شرمندہ شرمندہ بدن لرزیدہ لرزیدہ
کسی کے ہاتھ نے مجھ کو سہارا دے دیا ورنہ
کہاں میں اور کہاں یہ راستے پیچیدہ پیچیدہ
غلامانِ محمد دور سے پہچانےجاتےہیں
دل گرویدہ گرویدہ، سرِ شوریدہ شوریدہ
کہاں میں اور کہاں اُس روضئہ اقدس کا نظارہ
نظر اُس سمت اٹھتی ہے مگر دُزیدہ دُزیدہ
بصارت کھو گئی لیکن بصیرت تو سلامت ہے
مدینہ ہم نےدیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ
وہی اقبال جس کو ناز تھا کل خوش مزاجی پر
فراق طیبہ میں رہتا ہے اب رنجیدہ رنجیدہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مجھ کو بھی کاش جلوہء خضریٰ دکھائی دے
بے نور آنکھ سے بھی اجالا دکھائی دے
جاگوں تو صرف ان کے خیالوں میں گم رہوں
سو جاوٴں تو فقط رخِ آقا دکھائی دے
وہ شہر جس کا نام تو کعبہ نہیں مگر
گلیوں میں جس کی رونقِ کعبہ دکھائی دے
تھوڑی سی دیر کو مجھے بینائی چاہیے
بس اک جھلک حضور کا روضہ دکھائی
یارب عطا ہو مجھ کو وہ مخصوص روشنی
اٹھے جدھر نگاہ مدینہ دکھائی دے
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...