نعت گوئی ایسی صنف ادب ہے جس میں طبع آزمائی کرتے ہوے شعرا حضرات بہت احتیاط کرتے ہیں۔عربی میں ”مدح“ کا لفظ استمال ہوتا ہے جبکہ اردومیں نعت ایسے اشعار کو کہتے ہیں جو صرف آپﷺ کی شان ممدوحہ میں کہے گیۓہوں اس کا اطلاق نظم و نثر دونوں پر ہوتا ہے۔انبیا۶ ،اولیا۶، یا عام انسان ہر ہر ایک کی تعریف وستائیش اس ضمن میں شامل ہوتی ہیں اگر کسی زندہ انسان کی خوبیاں بیان کی جائییں تو مدح کہلاتی ہے جبکہ مرنے کے بعد خوبیاں بیان ہوں تو مرثیہ کہلاتا ہے،مگر آپ ﷺ کی ذات گرامی اس قاعدے سے مستثنٰی ہے ۔آپﷺانسانِ کامل ہیں اور بشری صفات کا اعلٰی و ارفع نمونہ ہیں،قرآن مجید میں خود آپ ﷺ کی سیرت و مکارم اخلاق کا آئیینہ دار ہے اسی وجہ سے نعت کے فن میں مبالغہ اور غلو کی کوئی گنجائیش نہیں ہے،اسی لیے مولانا جامی فرماتے ہیں
ہزار بار بشویم دہین بہ مشک وگلاب
ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی است
حضرت ابو طالب نے سب سے پہلے نعت گوئی کی ابتدا۶ کی،سیرت النبی میں ابن ہشام نے ایک قصیدہ کے سات ایسے اشعار نقل کیے ہیں جو حضرت ابو طالب نے آپﷺکی مدح اور اپنے خاندان کی خصوصیات میں کہے ۔بعد میں اصحاب رسولﷺ کے ہاں بھی نعت گوئی کا سلسلہ چلتا رہا جس کی توثیق آپ ﷺ نے خود فرمائی حضرت حسان بن ثابت نے نذرانہ عقیدت پیش کر کے بارگاہ رسالتﷺسے ”شاعر رسول“ کا خطاب پایاایک اور جلیل القدر صحای حضرت کعب بن زہیر بن ابی سلمیٰ کے طویل قصیدے”قصیدہ بردہ“کے صرف ایک شعر پر ہزاروں شعری مجموعہ و بیاضیں قربان کہ اس پر آپﷺ نے اپنا پیراہین مبارک عطا فرما کر شاعر اور شعر دونوں کو حیات جاوداں عطا کی۔ یہ قصیدہ”قصیدہ بردہ بانت سعاد “ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اس کو چادر والا قصیدہ بھی کہتے ہیں ۔ قصیدہ بردہ کے نام سے امام بوصیری کا بھی ہے جنیہں آپﷺنے عالم رویا میں چادر سے نوازایہ برس ہابرس سے زبان زد خاص وعام چلا آرہا ہے،
مولای صل وسلم دائیماً ابدًا
علی حبیبک خیر الخلق کلھمہ
اردو نعت کا باقاعدہ آغاز سلطان محمد قلی قطب شاہ سے ہواجو سولہویں اور سترہویں صدی کے صاحب دیوان شاعر تھے جدید نعت گوئی کا آغاز مولانا الطاف حسین حالی سے ہوا
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مردیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پراۓ کا غم کھانے والا
مولانا حالی کا نعتیہ کلام کم مگر اعلیٰ معیار کا ہے۔
اردو کےتقریباً تمام شعرا نے نعت گوئی میں حصہ ڈالنے کی سعی کی ہے اس صنف میں کبیر داس بھی شامل ہیں جن کے دوہے کا ایک مصرعہ مشہور ہے
کہت کبیر سنو بھئی سادھو نام محمدﷺآۓ
علامہ اقبال کہتے ہیں
لوح بھی تو قلم بھی تو ترا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ ترے محیط میں حباب
عالم آب و خاک میں ترے ظہور سے
فروغ ذرہ ریگ کو دیا تو نے طلوع آفتاب
امیر مینائی کچھ اس انداز میں لکھتے ہیں
مدینے جاٶں پھر آٶں مدینے پھرجاٶں
تمام عمر اسی میں تمام ہوجاۓ
حفیظ تائیب لکھتے ہیں
میرے غم خانے کو ہے ان کی توجہ درکار
جن کو آتا ہے تبسم سے اجالا کرنا
فراق کہتے ہیں
مدینے میں اگر پیدا ہوا ہوتا تو کیا ہوتا
محمد کی گلی بھیتر فنا ہوتا تو کیا ہوتا
محسن کاکوری،جگر مرادآبادی،ماہرالقادری،جلیل مانک پوری ،تسنیم فاروقی،امیر مینائی،ابرار کرنپوری،ماجد دیو بندی اوربہت سے دوسرے حضرات نے اس صنف میں قابل قدر اضافہ کیاموجودہ نعتیہ شاعری عہد نبوی سے شروع ہونے والی روایات کا جان دار اور شان دار تسلسل ہےاور حالی و اقبال کے وسیلے سے عصر حاضر کے شعرا۶ تک پہنچی پھر ریڈیو ،ٹی وی،پرنٹ میڈیا،فلم،نعتیہ مشاعروں ،مجالس،میلاد اور دینی محافل کے ذریعے فروغ پا کر آج ہمارے سامنے بے بہا خزانہ بن کر ابھری ہے
ماخذات
تاریخ گوئی نور کی ندیاں
ڈاکڑ عزیز احمد
عرسی
نعت گوئی کی رویت اور تاریخ
محمد ریاض علیمی
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...