پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الاللہ بن گیا کلمہ کی تفسیر ملک تو پھر نفاذ اسلام کی تحریکیں کیوں جاری ہیں، سینے پہ گولی کھائیں گے پاکستان بنائیں گے بن گیا پاک استھان کم از کم پیڈو فائلنگ، کرپشن، اور دیگر جرائم کے رپورٹ کیسس کی تعداد، جرائم کی ساری دنیا سے ذیادہ بھیانک شکل اور سنگینی دیکھنے کے بعد مجھے اسکی پاکیزگی پر یقین نہیں دیگر معاملات کا تو کیا کہیے، روٹی کپڑا اور مکان کس کوملا اور کسے نہیں اور تین اجناس تو اب سراب بنتی جارہی ہیں کہ ان تک رسائ دن بہ دن مشکل ہوا چاہتی ہے۔
اسکے علاوہ کافر کافر سارے کافر، کشمیربنے گا پاکستان قرض اتارو ملک سنوارو، ملک بچاؤ ڈیم بناؤ، گو فلاں گو، زندہ آباد مردہ آباد، فلاں کو رہا کرو، فلانے تیرے خون سے انقلاب آئیگا ووٹ کو عزت دو، تبدیلی آئی ہے۔
اور فلحال تازہ ترین میرا جسم میری مرضی ایک جنگ چھڑی ہوئ ہے یوں معلوم پڑتا ہے ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے، نا بھوک یاد، نا غربت، نا بجلی کی فکر نا گیس کی، نا بڑھتی ہوئ ہوشربا مہنگائ کا شکوہ، نا بیروزگاری سے کوئ مسئلہ نا ہی حد سےبڑھتی جرائم اور جنسی انارکی کی شرح سے، بس یہ نعرہ سب سے بڑا مسئلہ بن گیا ہے
ایک گروہ کے خیالات پڑھنے سے مجسم فحش فلمیں چلنا شروع ہوجاتی ہیں دماغ میں، دوسرے کی سنو تو لگتا ہے اسلام کو اس سے بڑا فتنہ لاحق ہی نہیں ہوا آج تک، تیسرے نے اس کے مثبت مطالب و معانی کے اتنے زاویے لکھ مارے ہیں کہ کتاب مرتب ہوجاۓ یعنی لگتا ہے اب ڈاکٹریٹ ممکن ہے
اس نعرے پر، چوتھا گروہ مطالبات کو جائز مگر نعرے کو بیہودہ سمجھتا ہے، مختصر وہی گھسا پٹا محاورہ کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔
بچپن سے آج تک لاتعداد نعرے سنے بلکہ زندگی کا ہر دور ایک نعرے کا دور رہا اور کسی نعرے کو عمل کی راہ پہ چل کر حقیقت کی دہلیز تک پہنچتے نہیں دیکھا، اب تو یقین ہوگیا ہے کہ وطن عزیز میں جس مدعا کا نعرہ لگ جاۓ وہ خواب کبھی اپنی تعبیر پا ہی نہیں سکتا، بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ ہمیں جو کام نہیں کرنا ہوتا ہم اسکا نعرہ بنا یا لگا دیتے ہیں اسکے نام پر کماتے ہیں، شہرت اور نام سمیٹتے ہیں، اہم مسائل پر سے توجہ ہٹانے کے لیے اسے ایشو بناتے ہیں، جتنا نقصان مقصدیت کو پہنچا سکتے ہیں پہنچاتے ہیں مگر اس کے حل کی طرف پیش قدمی نہیں کرتے۔
ہمیں بس نعرہ چاہیے موافقت کا مخالفت کا سبز باغ کا پھر ہم اس نعرے میں اپنی اپنی دلچسپی کی جہت ڈھونڈ کر مشغول ہوجاتے ہیں اس بات سے بے نیاز کہ لن ترانی کے مقابلے میں عمل کا تناسب کیا ہے خوابوں کے منجدھار میں شعور کی ڈولتی نیا کے پار لگنے کے امکانات کیا ہیں۔
میرا جسم میری مرضی کا نعرہ سال میں ایک دفع لگتا ہے اسکی گونج اس نعرہ کے لگنے سے ایک ماہ پہلے شروع ہو جاتی ہے اور عورت مارچ کے پانچ چھے روز بعد اس کی بازگشت اگلے سال تک کے لیے دم توڑ دیتی ہے تحریک کے انتظام سے وابستہ بڑے چھوٹے شہرت یافتہ اور گمنام منتظمین پھر کہاں پاۓ جاتے ہیں کچھ خبر نہیں حقوق کی یہ جد و جہد اس ایک دن کے بعد کہاں جاری رہتی ہے اور سرخیل کیسے طے کرتے ہیں کے مثبت تبدیلی اور پہتری کی مارچ سے مارچ تک کہ دورانیہ میں کیا شرح رہی کچھ پتا نہیں۔
عورت مارچ کے تمام نعروں کی سینکڑوں تشریحات بیان ہوچکی ہیں اور بہت سے مثبت اور درست پہلو ہیں جن پر درحقیقت کام کرنے بہتری لانے اورشعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے، تجربہ کے پیش نظر ہر نعرہ کی طرح اس نعرہ سے بھی امیدیں کم ہیں مگر خواہش یہی ہے کہ عورت مارچ کھیتوں میں بھٹوں میں پسینہ بہاتی اور سڑکوں پر تارکول کوٹتی عورت کے لیے شعور کا باعث بنے اور ایک دن وہ عورت اپنے حق کی جنگ خود لڑنے کے قابل ہوسکے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...