روز ازل سے چاند اپنا سفرطئےکرتا رہا اور سورج ہر روز اپنی منزل تک پہونچ کر پھر اپنی گردش دوراں میں سر گرداں رہا سال بیتے صدیاں گزریں۔زمانہ کروٹیں بدل بدل کر اپنی راہ پر چلنے لگا۔وقت نے ہر زمانے کا ساتھ دیا۔زمانے کے ساتھ ساتھ نظریات،رہن سہن،طورطریقے،رسم ورواج میں تبدیلیاں آتی گئیں۔ گرد ش زمانہ کے ساتھ بچہ کی پیدائش سے لے کرموت مٹی تک کے طریقوں میں نئی تبد یلیاں پیدا ہوگئیں۔تاکہ نارمل ڈلیوری نے کمرشیل ڈاکٹروں کی روزی روٹی میں سیزیرنگ کا طریقہ عام کردیا۔ بستر مرگ پرنہ رہ کر لوگ قبروں کی آغوش میں جانے لگے۔ بچہ پیدائش کے فوری بعد شیشی کیلئے رونونے لگا۔ شادی بیاہ کی رسومات مختصر سے مختصر ہوتی گئیں اور مہمان صرف ایک کھانے پر آگئے۔ نہ رسموں کی پہلے جیسی چہل پہل رہی نہ وہ رنگینیاں نہ باجا گاجا پانچ دن کا ٹیسٹ ٹوئنٹی ٹوئنٹی ہوکررہ گیا۔ ایک ہی دن میں نتیجہ گھوڑے میدان کی طرح سامنے آگیا۔ نوشہ کسی کی گودد میں سوار مسند پر جلوہ افروز ہوتا تھا۔ اب وہ بے دھڑک بغیر کسی کے سہارے ساری عمر گزارنے کا عہدوپیماں کرنے لگا اور ہنسی خوشی اپنی رضامندی کا اظہار کر بیٹھا۔ زمانہ قدیم میں نوشہ اپنی دولہن کو گود میں لے کر ڈولی میں سوار کرتا تھا اور اپنی ج جوانمردی کے ثبوت میں کہ اب وہ یہ بوجھ خود زندگی بھر ڈھوئیگا۔ لیکن دورجدید میں وہ اپنی دلہن کا ہاتھ پکڑکر ڈولی میں براجمان ہوجاتاتھا اور تمام باراتیوں کو دیر رات گئے اپنا پیچھا کرنے سے روک دیتاہے وہ یہ بہت اچھا کرتا کیونکہ فتح ایک کی ہوتی بیچارے باراتی کیوں اسکا ساتھ دیں اور اپنا قیمتی وقت گنوائیں سب کی الگ الگ مصروفیات ہوتی ہیں یہ سونچ کر وہ اتنا بڑا قدم اٹھاتا اور اپنی نئی دولہن کولیکر اپنی منزل کی طرف نکل پڑتا جہاں سے وہ اپنی باقی زندگی کی نئی شروعات کرسکیں۔ ادھرباراتی نوشہ شگفتہ اور مسرور چہرے کو دیکھ اسے کامیابی سے ہ ہمکنار ہونے پردادتحسین دینے کی بجائے ان کے والد بزرگوارکے بجھےہوئے چہرےکودیکھ کر ازراہ ہمدردی چند قدم چلنے اور ان کے فرزند ارجمند کے ہاتھوں سے نکل جانےکے سوگ میں حوصلہ دینے کے بجائے دعوت نان وقلیہ کا احسان اداکرتےلیکن آج فرصت کس کو ہے بڑی مشکل سے اپنے قیمتی وقت میں سے اپنی تمام ترمصروفیات میں سے نان و قلیہ کی خاطر دور دراز کا سفر منٹوں میں طے کرکے پہلے صف میں جلوہ افروز ہوئے۔اور شغل ہضم میں مشغول ہونے کا وہ نظارہ پیش کیا کہ صاحب خانہ اس امید پر کہ وہ شکم سیر ہوکر انہیں شکریے کے چندبول بولیں گے اور انہیں بغلگیر ہوکر اسں کامیاب دعوت نان قلیہ پر مبارکبادی سے نوازیں گے لیکن وہ تو ان تمام چیزوں سے بے اعتناہ ہوکر اپنے ہاتھ دھوبیٹھے اوربغیر کسی ریمارک کے ایک معمولی (ٹوتھ پک) کاری سے اپنے دانتوں میں پھنسے ہوئےریشوں کو نکالتےہوئے راہ فرار اختیار کرلیتے اور صاحب خانہ اپنا منہ دیکھتےرہ جاتا شاید انکے چند کلمات مبارکبادی کے صاحب خانہ کے سینے کو پھلادیتے اور ان کے بلڈپریشرمیں اضافہ کا سبب بن جاتے یہی سونچ کر مہمان آناًفاناً اور بیان بازی کے چکر میں نہ پڑتے ہوئےاپنی راہ پر چل اکیلا چل نکل پ پڑتا اور پھر جائےواقعہ سے بہت دور آکر کسی ہوٹل میں نان وقلیہ کا توڑ ڈھونڈلیتا اور چین کی سانس لیتااوراپنی فتح کاجشن نوشہ کی فتح کے ساتھ ڈکاروں کی شکل میں سناتا اور ایصال ثواب کی طرح دور سے ہی انہیں شادی کی مبادکباد پیش کرتاہے آج کے زمانے کی پہلی کروٹ۔اسی طرح چوراہے پر خبر غم ہر ایک سرسری نظر ڈالتے ہوئےگزرجاتے ہیں اور اسں سر سری نظرسےوہ صرف وقت نماز جنازہ جائےتدفین دیکھ پاتے اور پھرمرحوم کی تدفین پر آخری لمحات میں قبرستان میں نظرآتےاسی طرح قبرستان سے بھی فوری راہ فرار اختیارکرجاتے استفسار پر یہ جواب ملتا کہ میاں منکرنکیر کے کاموں میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔عجیب دور آگیا نہ جائےرفتن نا پائےمان دن ۔مرنے والامرگیا اب وہ اپنے اعمال کا ذمہ دارتو جناب ہم کب کہہ رہے کہ آپ بھی اس کے ساتھ قبر میں جاؤ۔ہمارا تو یہ کہنا کہ مرحوم کے ورثاء سے ہمدری کے دو کلمات تو ادا کرو۔یہ تو دریافت کرو کہ مرحوم کی موت کس وجہہ سے ہوئی تاکہ ہم بھی اپنی بقیہ زندگی میں احتیاطی
تدابیراپنائیں۔ ہاں یہ بات ٹھیک ہے چلیں ان کے فرزند سے ہی دریافت کر لیتےکہ بھئ آپ کے والد صاحب کی موت کی کیاوجہہ ہے جواب سن کر ہم چکرا گئے کہ ہمارےابا نے نان وقلیہ زیادہ کھا لیاتھا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...