حمیرا جمیل ،سیالکوٹ
آج بھی یاد ہے ۔مجھے وہ وقت بی ایس اردو کا پانچواں سمسٹر۔۔۔۔۔۔اسلام آباد کا سفر۔۔۔۔۔سفر سے واپسی کے چند مہینوں بعد افسانوی مجموعہ ’’درد کا سفر ‘‘تخلیق کرنا۔ پہلے پہل یہ سوچا میں افسانہ نگار کیسے بن سکتی ہوں؟ یقینا میں ایک جملہ درست نہیں لکھ سکتی تھی ۔ افسانوی مجموعہ لکھ ڈالا۔ اچانک ذہن میں خیال آیا ۔اپنے افسانوں کی کتاب چھپواتی ہوں۔ کیا ایسا ممکن ہے ؟ ایسا ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔سوالات میں الجھی رہی۔ یونیورسٹی میں موجود لائبریری کا چکر لگایا۔ کتب کی بڑی تعداد کی چھان پھٹک کے بعد ۔۔۔۔۔کتاب کس ادارے سے چھپی ؟نام اور رابطہ نمبر کاپی پر لکھ لیا۔گھر جا کر فون پکڑا ۔ بہت سے نجی اشاعتی اداروں کو فو ن کیا۔ پوچھنے کو بہت کچھ تھا۔ مختصر معلومات جمع کیں۔ کتاب چھپوانے کے لیے کیا خود تشریف لانا ہوگا؟ کتاب چھپوانے کے کتنے پیسے لگے گئے؟ یہ ساری تفصیل اکھٹی کرنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا ۔بہتر یہ ہے لاہور کا سفر طے کیا جائے۔کیوں کہ لاہور سیالکوٹ سے زیادہ دور بھی نہیں۔ والد محترم سے مشاورت کی ۔ کتاب شائع کروانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ابو جی ہمیشہ میری علمی و ادبی کاوشوںکو نا صرف سراہتے ہیں ۔بلکہ راہنمائی بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے میری باتیں سن کر حامی بھرلی ۔ کچھ دن گزرے میں اور ابو لاہور پہنچے ۔ میرے لیے لاہور نیا نہیں تھا ۔ ہاں اردو بازار نیا تھا۔ میں نے اردو بازار کا ذکر نام کے سوا کہیں نہیں سنا تھا۔ بے ہنگم ٹریفک، بے شمار دکانیں ،گرمی سے برا حال۔۔۔۔۔۔۔اپنی مدد آپ کے تحت چکر لگاتے لگاتے ایک مارکیٹ کا رخ کیا۔ جس کو الحمد مارکیٹ کہا جاتا ہے۔دعا پبلی کیشنز الحمد مارکیٹ میں واقع ہے۔یہ مجھے تین چار سال پہلے معلوم ہوا۔مارکیٹ کے اندر داخل ہوئے۔علم العرفان کے نام سے دکان دکھائی دی ۔دکان دیکھ کر تشریف لے جانے کا فیصلہ کیا۔ علم العرفان کے سرپرست سے بات چیت ہوئی ۔ کتاب کی تفصیل بتائی ۔علم العرفان کے سرپرست کتاب چھپانے کی یقین دھیانی کروا کے۔۔۔۔۔۔۔انتظار کرنے کا کہہ کر چلے گئے۔پندرہ بیس منٹ اس سے زیادہ انتظار میرے لیے ناقابل برداشت تھا۔ابو جی سے کہا ۔آئیں کہیں اور چلتے ہیں۔ ابو جی میری بات مانتے ہوئے۔ اُٹھ کر باہر نکل آئے۔
علم العرفان کے ساتھ’’دعا‘‘ کے نام سے ادارہ دکھائی دیا۔ کتابوں کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے ۔یہ نام بھی میں پڑھ چکی تھی ۔ابو جی سے کہا ۔۔۔۔۔یہاں چلتے ہیں۔ادارے کی طرف قدم بڑھائے ۔شریف النفس انسان کرسی پر براجمان تھا۔ سلام دعا ہوئی ۔۔۔۔۔۔تھوڑا بہت تعارف ہوا ۔کتاب کے حوالے سے بات ہوئی ۔اسم گرامی سے واقف نہیں تھی ۔محترم نے پوچھا اس سے پہلے کوئی تحریر اخبار یا رسالے میں چھپی ہے۔دل ہی دل میں مجھے یہ جملہ نفرت آمیز لگا۔جیسے مفت میں کتاب چھاپنی ہو۔پیسے بھی لینے ہیں اور اس طرح کا سوال۔۔۔۔۔۔عجیب بندہ ہے ۔افسانوی مجموعہ لکھ دیا ۔۔۔۔۔پھر بھی کہہ رہا ہے ۔اس سے پہلے کچھ لکھا ہے۔ ہمت جوڑ کر ہاںمیں سر ہلا دیا۔کتاب کا مسودہ اور پیسے دے کر ۔۔۔۔۔۔۔۔کتاب کب تک چھپے گئی؟پوچھنے پر بتایا تقریباً ڈیڑھ مہینہ ۔۔۔۔۔۔۔ایک بات رہ گئی ہے ۔میں چاہتی ہوں ۔لازمی بتاوں۔۔۔۔۔۔۔۔چائے بھی پوچھی ۔جو پی نہیں۔اگر تازہ پھلوں کا جوس پوچھ لیتے ۔شاید میں انکار نہیں کرتی ۔ترجیحات کی بات ہے۔
وقت گزرتا گیا ۔مجھے بے صبری سے انتظار تھا۔ کتاب مجھ تک پہنچ جائے۔مجھے مل جائے۔۔۔۔۔۔کتاب غیر سرکاری اشاعتی ادارے کو دینے کے بعد یونیورسٹی میں صدر شعبہ اردو نے کہا ۔آپ میری شاگرد ہیں۔مجھے بتایا ہوتا ۔۔۔۔۔۔آپ کی کتاب نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد سے شائع کرواتا۔نیشنل بک فاؤنڈیشن ،اسلام آباد افسوس ہوا۔ کچھ دیر رک جاتی ۔لیکن اب احساس ہوتا ہے۔ جو فیصلہ میں نے کیا تھا ۔وہی درست تھا۔ میں دن گن رہی تھی ۔آخر میرا افسانوی مجموعہ۔۔۔۔۔۔۔پندرہ دن گزرنے کے بعد فون کیا۔بھلے انسان (زاہد شیخ)سے رابطہ ہوا۔ادارے کے سربراہ کا نام ایک سال گزر جانے کے بعد معلوم ہوا۔فون پر بات ہوئی۔کتاب کا سرورق بھیجنے کا وعدہ کیا۔ اگلے ہی دن واٹس ایپ پر تین ٹائٹل بھیجے ۔تین میں سے ایک کا انتخاب کرکے آگاہ کیا۔جس ٹائٹل کو منتخب کیا تھا۔ وہ محض منتخب ہی ہوا تھا۔ کتاب کا ٹائٹل بھیجنے کے بعد فون پر فون کرنا۔ محترم فون کاٹ دیتے یا بیزی کردیتے ۔یہ حالات دیکھ کر مجھے شدید غصہ آتا۔ میں وقت کی پابندی کی قائل تھی ۔مجھے ہر کام وقت پر چاہیے تھا۔ وعدہ کیا گیا ۔وقت گزر گیا۔کبھی غلطی سے فون اٹھا کر کہنا کچھ دن میں مل جائے گئی کتاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں ان رویوں سے آشنا نہیں تھی۔حالاں کہ میری ذاتی رائے ہے ۔کاروباری رویے ایسے ہی ہوتے ہیں۔آج کا کام کل پر کل کا پرسوں پر۔۔۔۔۔۔۔اللہ اللہ کرکے پتہ معلوم کرکے محترم نے کتاب بھیج دی ۔خوشی دیدنی تھی۔بی ایس اردو ختم ہوا۔۔۔۔۔۔’’تلخ حقیقت ‘‘کے نام سے کالم نگاری کا مجموعہ لکھا۔ ایم فل اردو میں داخلہ ۔۔۔۔۔۔گورنمنٹ کالج میں نوکری ۔۔۔۔۔۔کالم نگاری کا مجموعہ بھی چھپوانا تھا۔دوبارہ لاہور جانا ہوا۔اس بار حالات مختلف تھے۔زاہد شیخ صاحب نے چائے کہنے کے بجائے پلا بھی دی ۔ابو جی نے چائے پی۔میں چائے کی شوقین نہیں ۔چائے کے علاوہ پیزا،براؤنی ،برگر یا کچھ اور پوچھ لیتے ۔ممکن نہیں تھا۔فرمائش کرنا مشکل تھا۔جان پہچان زیادہ نہیں تھی ۔کالم نگاری کا مجموعہ چھپ گیا۔فون کیوں نہیں اٹھایا؟وہ بھی میرا۔۔۔۔۔۔دنیا میں کوئی ایسا انسان نہیں۔ جو میرا فون نہ اٹھائے۔مصروفیات ہیں۔۔۔بذریعہ فون پیغام بھیج دیں ۔تاکہ بعد میں رابطہ ہوجائے۔ ویسے مضحکہ خیز بات ہے کبھی کبھار دل کرتا سامنے ہوں۔ان محترم کا فون ہی توڑدؤں۔ان سے کہوں آپ دکان نہیں چلا سکتے ۔کسی اور کو دے دیں۔غصہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔غصے میں انسان کچھ بھی کہہ سکتا ہے ۔غصہ وقتی تھا ۔۔میں نے بہت تنگ کیا۔وقت کا خیال نہیں کرتے ۔میرا کام وقت پر ہونا چاہیے۔قابل تعریف پہلو یہ تھا محترم مجھ سے غصے یا اکتاہت میں بات نہیں کرتے تھے۔
میں جلد باز تھی ۔مقررہ وقت ۔۔۔۔۔۔آپ نے کہہ دیا ہے ۔پھر دیر۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن یہ بھول گئی تھی ۔یہ تعلیمی ادارہ نہیں کاروباری مرکز ہے۔میری اسی نوک جھونک میں زاہد شیخ سے تعلق مزید مضبوط ہوگیا۔تیسری کتاب ’’بیان اقبال ‘‘بھی دعا پبلی کیشنز لاہور سے چھپی۔زاہد شیخ پر یقین تھا۔اس یقین کو استحکام بخشنے میں زاہد شیخ صاحب کا اہم کردار تھا۔اقبالیات میرا پسندیدہ موضوع تھا۔ایم فل اردو کے مقالے کا موضوع بھی اقبالیات سے جڑا ہواتھا۔زاہد شیخ صاحب نے اس پسند کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ۔کلام اقبال اردو (مطالب و شرح)لکھنے کا کہا۔میں نے انکار نہیں کیا ۔مشکل تھا ناممکن نہیںتھا۔تین سال ۔۔۔۔۔۔۔۔زاہد شیخ سمجھ چکے تھے ۔حمیرا کے وقت کی قیمت۔۔۔۔۔۔۔۔خواہ جیسا بھی ہو۔بشرطیکہ ناگذیر وجوہات پیش نہ آئیں۔وگرنہ کل کہا ہے ۔کل ہی کتاب کا کام مکمل ہوگا۔ایم فل اردو مقالہ ۔۔۔۔۔۔۔۔علمی و ادبی حوالے سے لاہور جاتی رہی۔دعا پبلی کیشنز بھی جانا ہوتا۔والد محترم زاہد شیخ کی شخصیت سے متاثر تھے۔الحمد للہ تعلق مضبوط تھا۔میں بلا جھجک کہہ دیتی۔چاکلیٹ ،پیزا منگوا لیجیے گا۔اپنا ئیت اور انسیت۔۔۔۔۔۔۔۔۔زاہد شیخ میری بچگانہ خواہشات کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے۔کھانے پینے کی چیزیں منگواتے۔
اقبال خواتین کی نظر میں،اقبال لاہور میں اور اقبال سیالکوٹ میںتمام کتب کا دعا پبلی کیشنز لاہور سے چھپنا۔میرے لیے باعث فخر ہے۔زاہد شیخ کا ملنسار اور مشفق مزاج ہونا۔۔۔۔۔۔۔۔مسکراہٹ سے بھرپور چہرہ،نرم لہجہ تحفہ ہے۔علم العرفان جیسے ادارے میں بیٹھ کر پندرہ بیس منٹ انتظار زیادہ نہیں تھا۔خودبخود ادارے سے باہر آنا۔دعا پبلی کیشنز لاہور سے کتاب چھپنا۔کچھ حقائق درپردہ موجود تھے۔دل کے اُکسانے پر یہ سب ہوا۔میں دماغ کی کم اور دل کی زیادہ سنتی ہوں۔دل کی بدولت اعلیٰ ظرف انسان کا میری زندگی میں اضافہ ہوا۔زاہد شیخ نام نہیں بلکہ مثال ہے۔کاروباری طبقے کے لیے سختی پر آمادہ،تلخ رویے کے عکاس۔۔۔۔۔میرا مشورہ ہے کاروباری پیشے سے وابستہ لوگوں کو۔۔۔۔۔ دعا پبلی کیشنز کے سربراہ زاہد شیخ کی صلاحیتوں سے فائدہ حاصل کریں۔بحیثیت تخلیق کار میں زاہد شیخ کے عمدہ کردار اور ادبی سوچ کی معترف ہوں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...