ادھیڑ عمر شخص نے جوان بیٹے کو بلا کر پاس بٹھایا اور اپنا دل کھول کر سامنے رکھ دیا۔ دل میں قلق تھا اور رنج۔ جوان بیٹا سارا دن آوارہ گردی کرتا تھا۔ ماں سے جھگڑ کر پیسے مانگتا‘ اپنے جیسے بیکار دوستوں کے ساتھ گلچھرے اُڑا کر‘ رات گئے آتا‘ کبھی کبھی رات بھر غائب رہتا۔ امتحان میں فیل ہو ہو کر پڑھائی چھوڑ ہی دی۔ نوکری جو مل سکتی تھی‘ اُس پر طنز کرتا‘ جس کا نام لیتا وہ مل نہیں سکتی تھی کہ اہلیت ہی نہیں تھی۔ باپ نے ایک لمبا لیکچر دیا‘ سمجھایا‘ ڈانٹ پلائی‘ نرم گفتاری بھی دکھائی۔ ابھی یہ سب ہو ہی رہا تھا کہ لڑکے کی ماں پھنکارتی ہوئی آئی۔ ’’تمہیں سارے نقص میرے بیٹے ہی میں نظر آتے ہیں۔ پڑوسیوں کا لڑکا اس سے بھی گیا گزرا ہے‘ اُسے کیوں نہیں ڈانٹتے‘‘۔
آپ کا کیا خیال ہے‘ کیا ایسا ممکن ہے؟ کیا کوئی عورت اپنے شوہر پر اس لیے برس سکتی ہے کہ ہمارا بیٹا نکما ہے تو پڑوسیوں کا بیٹا بھی ایسا ہی ہے‘ اسے سمجھائو‘ آپ کا جواب یقینا ’’نہیں‘‘ میں ہوگا۔ ایسا نہیں ہو سکتا!
مگر افسوس! ایسا ہو رہا ہے‘ یہ انہونی ہو رہی ہے۔ اگرچہ اس کی شکل اور ہے اور سطح مختلف! ایک نوجوان نے حال ہی میں یورپ کا سفرنامہ لکھا۔ وہ پہلی بار ان ملکوں میں گیا تھا۔ ایک عام پاکستانی شہری ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں۔ ڈاکٹر مبارک علی سے پڑھا نہ ڈاکٹر مہدی حسن سے! مذہب سے وابستہ ہے اور سر سے پا تک اور دل سے دماغ تک پاکستانی۔ اس نے جو دیکھا اور جو محسوس کیا‘ کاغذ پر منتقل کردیا۔ قصور صرف یہ تھا کہ دل میں درد تھا۔ ہر قدم پر سوچتا کہ اگر یہ سسٹم یورپ میں کام کر رہا ہے تو میرے ملک میں کیوں نہیں کر سکتا۔ لندن ایئرپورٹ پر ہر کام ترتیب اور تنظیم سے ہو رہا ہے تو لاہور ایئرپورٹ پر قطار کی بے حرمتی کیوں ہوتی ہے۔ یورپ میں ٹرینیں سیکنڈ کے لحاظ سے بروقت چلتی اور پہنچتی ہیں تو ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔ اگر لندن کی زیر زمین ٹیوب‘ جس کے پونے تین سو سٹیشن ہیں‘ 1863ء میں بن گئی تھی تو ہمارے ہاں تو 1963ء بھی گزر گیا‘ ابھی تک آثار کیوں نہیں ہیں؟ اگر یورپ کے ہر چھوٹے سے قصبے میں بھی لائبریری موجود ہے تو ہمارے ہاں جو لائبریریاں تھیں‘ وہ بھی کیوں غائب ہو گئی ہیں؟ قیام یورپ کے دوران کسی شخص نے اس نوجوان کو تکلیف پہنچائی نہ دھوکا دیا‘ ہاں اگر زیادتی کی تو اس کے اپارٹمنٹ کے مالک نے جو اصلاً اس کا اپنا ہم وطن تھا‘ ایسا کیوں ہوا؟ جو کوئی معاملہ طے کرتا ہے‘ اسی کے مطابق کام کرتا ہے‘ ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟
یہ وہ سوالات تھے جو نوجوان کے ذہن میں ابھرے اور اس نے صفحۂ قرطاس پر منتقل کر دیے۔ لیکن اسے حیرت ہوئی جب کچھ دوستوں نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ شکوہ یہ تھا کہ اہلِ مغرب سے مرعوب ہو کر اپنے وطن کی برائیاں کرنے لگ گئے۔ برائیاں کرنی تھیں تو اُن کی کرتے! آپ نے دیکھا‘ جس صورتِ حال کو آپ ناممکن کہہ رہے تھے‘ وہ ہمارے ہاں موجود ہے۔ ماں ڈنکے کی چوٹ پر کہہ رہی ہے کہ دوسروں کے بچوں کی برائیاں کرو‘ اپنے بچے کا ذکر کیوں کرتے ہو؟
بدقسمتی سے ہم دو حالتوں میں رہ رہے ہیں۔ ایک حالت تو حالتِ انکار ہے یعنی
"State Of Denial"
اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے دوسروں پر سازش کا الزام لگاتے ہیں۔ چودہ سو سال کی تاریخ بھری پڑی ہے کہ مسلمانوں نے مسلمانوں کا خون بہایا۔ تیمور نے دہلی پر حملہ کیا تو وہاں ہندو راجہ نہیں‘ ناصرالدین محمود شاہ حکمران تھا جو مسلمان تھا۔ نمازیں پڑھتا تھا اور روزے رکھتا تھا۔ کئی دن تک دہلی لوٹی جاتی رہی۔ خون گلیوں میں پانی کی طرح بہا۔ ہزاروں مسلمان مارے گئے۔ بابر کی سپاہ نے ا براہیم لودھی کو غیر مسلم سمجھ کر نہیں‘ مسلمان ہی سمجھ کر قتل کیا۔ ترکوں کے ہاں تو دستور ہی بن گیا کہ جو ’’خلافت‘‘ سنبھالے‘ بھائیوں کو مروا دے۔ دکن کے مسلمان حکمران‘ بیجاپور‘ احمد نگر‘ گولکنڈہ اور برار کے سلاطین‘ ایک دوسرے پر سالہاسال تک چڑہائیاں کرتے رہے۔ دونوں طرف مسلمان ہی مرتے تھے۔ لیکن ہمارا تکیۂ کلام ہے کہ ’’مسلمان مسلمان کو نہیں مار سکتا۔ یہ جو دھماکے کر رہے ہیں‘ یہ کوئی اور ہی لوگ ہیں‘‘۔
دوسری حالت حالتِ نفاق ہے۔ یعنی اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنا‘ اور دوسروں کے عیوب اچھالنا! اس کالم نگار کو کبھی کبھی بیرون ملک سے سندیسے بھیجے جاتے ہیں کہ آپ امریکہ اور یورپ پر کیوں نہیں تنقید کرتے۔ اپنے ملک ہی پر کرتے ہیں‘ ایک صاحب سے‘ جو کئی ای میلیں بھیج کر مسلسل زجر و توبیخ کر رہے تھے‘ پوچھا کہ آپ اپنے وطن کو خیرباد کہہ کر باہر کیوں آباد ہو گئے ہیں؟ آخر اپنے وطن میں کیا مسائل تھے؟ اس پر انہیں سانپ سونگھ گیا۔ سرسید احمد خان کے ساتھ یہی ہوا۔ قیامِ انگلستان کے دوران وہاں کے مشاہدات اوراپنے تاثرات واپس وطن بھیجے اور چھپوائے‘ بتایا کہ وہاں زندگی کا رنگ ڈھنگ کیا ہے‘ رویوں میں کیا فرق ہے اور زندگی کو دیکھنے کا زاویہ کون سا ہے۔ یہاں مشہور ہو گیا کہ سید احمد کرسٹان ہو گیا ہے چنانچہ مضامین کا سلسلہ کچھ عرصہ کے لیے موقوف کردیا۔
کیا اس میں کوئی شک ہے کہ دروغ گوئی ہمارا طرزِ زندگی ہے اور وعدہ خلافی ہمارا شعار؟ دل پر ہاتھ رکھ کر‘ خدائے قہار کو حاضر و ناظر جانتے ہوئے اپنے آپ سے پوچھئے‘ ہم میں کتنے لوگ ہیں جو ہر حال میں سچ بولتے ہیں! اب تو جھوٹ کو جھوٹ سمجھا ہی نہیں جاتا! سیاہ نقطہ جو دل پر تھا‘ پھیلتے پھیلتے پورے قلب پر محیط ہو چکا ہے۔ ایک دن میں ہم کتنی وعدہ خلافیاں کرتے ہیں۔ ہم میں سے ننانوے فیصد وہ ہیں جو دوسرے کو یقین دلاتے ہیں کہ میں ابھی آپ کو فون کر کے مطلوبہ اطلاع فراہم کرتا ہوں‘ پھر یہ فون کبھی نہیں کیا جاتا! ہر شخص شادی کے دعوے نامے پر خصوصی طور پر چھپواتا ہے ’’بصورتِ معذرت‘‘ ساتھ فون نمبر دیا جاتا ہے‘ مگر ہم میں سے اکثریت اس تہذیب سے محروم ہے! وہ بھی جو کارڈ پڑھتا ہے اور وہ بھی جو ارسال کرتا ہے! ایک نوجوان سول سرونٹ بتا رہا تھا کہ ایک بڑے کاروباری ادارے پر چھاپہ مارا گیا۔ ٹیکس بچانے کے لیے ’’ترکیب نمبر دو‘‘ خوب خوب استعمال ہو رہی تھی۔ کمپنی کے ڈائریکٹر بلائے گئے۔ ظاہر میں مکمل متشرع‘ اذان ہوئی تو اضطراب کی حالت میں مسجد کی طرف لپکے لیکن جب پوچھا گیا کہ آپ کا سارا سلسلہ دروغ گوئی اور فریب کاری پر مشتمل ہے تو حیرت سے منہ دیکھنے لگے۔ سبب اس طرح کی حیرت کا یہ ہے کہ برائی کو برائی نہیں سمجھا جا رہا! اسے طے شدہ
(Taken for granted)
لیا جاتا ہے! ’’چھوڑیے‘ جناب‘ کس باریکی میں پڑ گئے‘ سب ایسا ہی کرتے ہیں‘ پورا معاشرہ خراب ہے‘ ایک میرے نہ کرنے سے کیا ہوگا‘‘، یہ عمومی رویہ ہے جو ہمارا سب سے بڑا دفاع
ہے۔ منکرنکیر کا ذکر ہم بہت کرتے ہیں‘ انہیں کیا ہم یہی بتائیں گے کہ میں کیا کرتا‘ سبھی یہی کچھ کر رہے تھے!
حال ہی میں پشاور میں تجاوزات کے خلاف مہم شروع ہوئی۔ ایک ہزار دکانیں ایک ایکشن میں منہدم کی گئیں۔ سب غیر قانونی تھیں۔ احتجاج ہوا۔ دہائی دی گئی مگر غیر قانونی دکان تعمیر کرتے وقت‘ دل میں ایک بار بھی نہ چبھن ہوئی کہ ناجائز زمین پر جو دکان چلے گی‘ اس کی آمدنی حرام کی ہوگی! تجاوزات کی لعنت آج اس ملک کی بڑی لعنتوں میں سرفہرست ہے۔ اس میں رہائشی مکانات کم اور دکانیں‘ مارکیٹیں‘ کارخانے زیادہ ملوث ہیں۔ کچھ دن پہلے دارالحکومت کے سیکٹر جی ٹین کے مرکز میں جانا ہوا۔ پارکنگ ایریا میں کپڑا بیچنے والوں کا پورا بازار تھا۔ معلوم ہوا کہ ہر شخص سامنے والے دکاندار کو بھی نذرانہ دیتا ہے اور متعلقہ ادارے کے اہلکاروں کو بھی! اگر متعلقہ وزیر صاحب‘ ادارے کے سربراہ کو ساتھ لے کر دورہ کریں اور پوچھیں کہ کیا یہ ہولناک تجاوزات تمہیں نظر آ رہی ہیں؟ مگر ایسا کیوں اور کس طرح ہو؟ بھتہ صرف دہشت گرد نہیں لے رہا‘ اپنی دکان کے سامنے‘ سرکاری زمین پر‘ فٹ پاتھ ہے یا پارکنگ ایریا‘ ریڑھی والے سے یا سٹال لگانے والے سے جو رقم لے رہا ہے‘ وہ بھی بھتہ ہی ہے اور اگر دینے والا نہیں‘ تو لینے والا یقینا دہشت گردی ہی کی ایک قسم میں مبتلا ہے۔
شاید ہم نفسیاتی بیمار ہیں! پوری قوم بلبلا رہی ہے کہ ایوانِ بالا کے انتخابات میں کروڑوں کے بھائو تائو ہوئے ہیں‘ مگر اگر کوئی کہہ دے کہ دوسرے ملکوں میں ایسا نہیں ہوتا تو فوراً غیرت مند بن جاتے ہیں کہ اپنی برائی کیوں کر رہے ہو‘ صرف دوسروں کے نقص گنو! ؎
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا
مگر اپنی برائیوں پر کب نظر پڑے گی؟
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔