پیارے بچو ! کیا تمہیں پتا ہے کہ پہلے پہل کوے بہت رنگین اور خوب صورت ہوا کرتے تھے اور ان کی آواز بہت سریلی ہوا کرتی تھی ۔ اگر نہیں پتا تو یہ کہانی پڑھ لیں ۔
سیکڑوں سال پہلے کی بات ہے ایک جنگل میں رنگین، خوب صورت اور سریلی آوازوں والے کوؤں کا ایک گروہ رہتا تھا۔ وہ سب کے سب نہایت نا شکرے تھے ۔ انہوں نے کبھی بھی خدا کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کیا۔
ان سب کو اپنی خوب صورتی اور اپنی آواز بالکل بھی پسند نہیں تھی۔
ایک دفعہ قریبی جنگل کے رنگین پروں والے مکاؤ (Macaw) نامی پرندوں کا غول جنگل سے گزرنے لگا۔ کوؤں نے ان کی دعوت کی۔ دوران طعام کوؤں کے سردار نے پرندوں کے وزیر سے کہا۔
“آپ سب بہت خوش قسمت ہیں۔ قدرت نے آپ سب کو نہایت خوب صورتی عطا کی ہے۔ ایک ہم ہیں، سارے ایک جیسے ۔ نہ صورت میں رعب اور نہ ہی عقل مندی میں اعلیٰ مثال۔”
پرندوں کے وزیر نے جواب میں کہا ۔
“نا شکرے مت بنو کوے بھیا! ہر وقت اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرو۔ تمہیں رب کریم نے مصلحت کے تحت بہت پیارا بنایا ہے ۔”
کوا بحث چھوڑ کر مطلب کی بات پر آ گیا۔ اس نے کہا۔
“کیا تم مجھے اپنا ایک پر دے سکتے ہو تاکہ اس سے میری خوب صورتی اور وجاہت میں اضافہ ہو؟”
پرندے نے کہا۔
“چہرے کی خوب صورتی کی بجائے دل کی خوب صورتی پر توجہ دو۔ اس سے آپ کا پورا وجود پیارا لگنے لگے گا ۔”
سردار نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا ۔
“مجھے نصیحتیں نہیں سننی، صرف پر چاہیے ۔”
پرندے کو یہ سن کر بہت دکھ ہوا۔ اس نے کوے کو اپنا پر دے دیا اور اپنے ساتھیوں سمیت وہاں سے روانہ ہوا۔
کوا پرندے کا رنگین پر پا کر بہت خوش ہوا۔ اس نے جیسے ہی پر کو اپنے دیگر پروں کے ساتھ لگایا ، اچانک کالے بادل چھاگئے ۔ بجلی زور سے کھڑکی، پھر ہر طرف اندھیرا پھیل گیا۔ صبح جب روشنی پھیلی تو جنگل کے سارے کوے ناشکری کی وجہ سے کالے بادلوں سے بھی کالے ہوگئے تھے۔ وہ سب بہت پریشان ہوئے ۔ اس کے باوجود انہوں نے توبہ نہیں کی ۔
ایک دفعہ کوا قبیلے کی شہزادی کی شادی کا اعلان ہوا۔ ایک کوا جنگل کے باتونی طوطے سے ملنے گیا۔ اسے طوطے کی آواز بہت پسند تھی۔ اس نے جاتے ہی طوطے سے درخواست کی۔
“طوطے استاد ! کیا تم مجھے دو دن کے لیے اپنی آواز دے سکتے ہو؟ میں نے شہزادی کی شادی میں شرکت کرنی ہے ۔ میں دو دن بعد تجھے تمہاری آواز واپس کردوں گا۔”
طوطے نے جواب میں کہا ۔
“ارے کوے بھیا ! تمہاری اپنی آواز تو بہت پیاری اور سریلی ہے۔ تم اسی کا استعمال کیوں نہیں کرتے ؟”
اس پر کوے نے افسردہ ہو کر کہا ۔
“مجھے اپنی آواز بالکل نہیں پسند ۔ میں تو طوطوں کی آواز کا دیوانہ ہوں۔ ”
طوطا یہ سن کر بہت خوش ہوا ۔ اس نے اپنی آواز کوے کو دے دی۔ کوؤں کا سردار وہاں سے لوٹ رہا تھا کہ اس نے راستے میں ایک مورنی کو ٹہلتے ہوئے دیکھا ۔ اس نے مورنی کے قریب جا کر سلام کیا ۔
“السلام علیکم مورنی بہن !”
“وعلیکم السلام جناب ! بتاؤ کیسے آنا ہوا ؟”
مورنی نے سنجیدگی سے کہا ۔ کوا کہنے لگا۔
“دراصل مجھے تمہاری چال چلن بہت پسند ہے۔ کیا تم مجھے دو دن کے لیے اپنے چلنے پھرنے کا انداز دے سکتے ہو۔ مجھے اپنے قبیلے کی شہزادی کی شادی میں شرکت کرنی ہے ۔”
مورنی نے اسے غور سے دیکھا ۔
“مگر تمہاری خود کی چال چلن تو بلی سے بھی پیاری ہے۔”
کوے نے افسردہ ہو کر کہا۔
“دراصل مجھے اپنے چلنے پھرنے کا انداز بالکل نہیں پسند ۔ خدا نے مجھے ہر حوالے سے دوسرے جانوروں سے کم تر پیدا کیا ہے ۔”
مورنی کو اس پر ترس آ گیا۔ اس نے اپنے چلنے کا انداز کوے کو دے دیا۔ قبیلے پہنچتے ہی کوے نے طوطے کی آواز اور مورنی کے چال کے متعلق سردار کو بتا دیا۔ سردار بہت خوش ہوا ۔ کوے نے سردار کی اجازت سے جیسے ہی طوطے کی آواز گلے میں فٹ کی ، بادل آنا شروع ہوئے ۔ پھر اس نے مورنی کی چال اوڑھ لی ، بادل مزید گہرے ہوئے اور یوں زور کی بارش شروع ہوگئی ۔ ہر طرف اندھیرا چھا گیا ۔ چند گھنٹوں بعد روشنی پھیلی تو سارے کوے چلنا بھول گئے تھے۔ وہ سب بات کرنا بھی بھول گئے تھے۔ اب وہ صرف کائیں کائیں کرتے ۔ خدا نے انہیں ناشکری کی سزا دے دی۔
“پیارے بچو! یاد رکھو ! رب العالمین کی دی ہوئی نعمتوں کی کبھی بھی نا شکری نہ کرو ۔”
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...