نامکمل آزادی سے مکمل آزادی تک کا سفر
ڈاکٹر شاہ زیب نے کہا کہ آزادی دو حصوں پر مشتمل ہوتی ہے،لیکن ہم تمام انسان یا تو آزاد نہیں ہیں،اگر آزاد ہیں ،تو صرف اس کے ایک حصے سے واقف ہیں۔اسی وجہ سے آزاد ہونے کے باوجود اداس اور پریشان ہیں ۔ڈاکٹر شاہ زیب نے کہا کہ آزادی کی نفسیات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔آزادی کا پہلا حصہ یہ ہے کہ انسان قومیت کی قید سے آزاد ہو،الہامی و غیر الہامی بندشوں اور شرائط سے ہو،زات پات کے گھناؤنے چکر سے آزاد ہو،کسی خاص سیاسی نظریئے کی غلامی سے آزاد ہووغیرہ وغیرہ ،یہ تو ہے آزادی کا ایک پہلو ۔آزادی کی بنیاد اسی سے تعمیر ہوتی ہے ۔جب انسان ان بندشوں،شرائط سے آزادی حاصل کر لیتا ہے ،تو وہ اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرنا شروع کردیتا ہے،وہ خوشی کے احساس کو انجوائے کرتا ہے، انسانیت کے حوالے سے بہتر محسوس کرتا ہے ۔اس طرح کی آزاد فکر کی وجہ سے انسان پہلی مرتبہ انفرادیت کو انجوائے کرنا شروع کردیتا ہے۔مندرجہ بالا پابندیوں کی وجہ سے اس کی انفرادیت پوشیدہ تھی،قید میں تھی،لیکن یہ آزادی بھی آدھی یا نامکمل آزادی ہے ۔اس آزادی کے باوجود بھی انسان اداس اور غمگین رہتا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آزادی کا دوسرا حصہ لاپتہ ہے۔آزادی مگر کس سے؟آزادی حاصل کرنے کے کوئی معانی نہیں ہوتے،اس لئے آزادی کو اب تخلیقی اظہار کی ضرورت ہے ۔مثلا انسان جب آزاد نہیں تھا،اور وہ سوچتا تھا کہ جب آزاد ہوگا، تو وہ رقص کرے گا،وہ چاہتا تھا کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد وہ موسیقی کے آرٹ کو انجوائے کرے گا،وہ ہر قسم کی شاعری کرے گا،تخلیقی مصورکی شکل اختیارکرے گا ۔اب وہ آزاد ہے اور اس آزادی کو تخلیقی اظہار کی ضرورت ہے ،آزاد ہے،زنجیریں ٹوٹ چکی،قید سے رہائی مل گئی ،اب وہ ایک اندھیری رات میں آزاد اور اکیلا کھڑا ہے۔وہ مکمل آزاد ہے،لیکن اب جانا کہاں ہے؟اب اچانک اداسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے،پہلے تو تمام شعوری کیفیت یہ تھی کہ کسی طرح آزادی حاصل کرنی ہے؟پریشانی یہی تھی کہ کیسے آزادی محسوس کی جائے؟اب آزاد ہے؟کہاں جائے؟صرف آزادی کا کوئی مطلب نہیں،اس کے لئے اب تخلیقی راستہ چاہیئے،کوئی یقینی اور سچی کیفیت چاہیئے،پہلےموسیقی کی تخلیق نہیں ہوسکتی تھی ،کیونکہ ہاتھ بندھے تھے،رقص کی اجازت نہیں تھی،کیونکہ پاؤں میں زنجیریں تھی،اب آزاد ہے ،اب اگر ڈانسر بننے کا ٹیلنٹ ہے، تو ڈانسر بن جائے،لکھاری ہو جائے،آرٹسٹ کا روپ دھاڑ لے،جیسا ٹیلنٹ یا پوٹینشنل ہے،اس کا استعمال کیا جائے ۔اگر انسان اپنے ٹیلنٹ کا استعمال کرتا ہے تو پھر آزادی کا دائرہ مکمل ہوتا ہے۔کس سے آزادی اور کس کے لئے آزادی ؟یہ سوال تو ہمیشہ رہے گا،خواب تو یہ دیکھ رہا تھا کہ کبھی نہ کبھی وہ آزادی لیکر رہے گا،لیکن یہ سوچ نہیں تھی کہ وہ آزاد ہو گیا تو کیا کرے گا؟اب انسان آزاد ہے،یہ خوبصورت لمحہ ہے،اس میں بہت دلکشی اور انفرادیت ہے،لیکن اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے،اب انسان نے تخلیق کار بننا ہے ،اپنی تخلیقی صلاحیت کو تلاش کرنا ہے ۔تب ہی آزادی کا عمل مکمل ہوگا ۔اگر ایسا نہیں کرے گا تو پھر آزادی کا کوئی مطلب نہیں۔آزادی ایک موقع ہے ،اپنے آپ کو دریافت کرنے کا ،آزادی بزات خود کوئی مقصد نہیں ،آزادی کو لیکر بیٹھ نہیں جانا چاہیئے ۔اگر آزادی حاصل کرکے انسان ڈرائینگ روم میں،جنگل میں،یا گھر میں بیٹھ جائے گا تو وہ اداس ہی رہے گا۔آج بھی اس دنیا میں لاکھوں ایسے انسان ہیں جو آزادی حاصل کرچکے ،لیکن گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔کسی سے آزادی حاصل کر لینا آزادی نہیں،آزادی یہ بھی نہیں کہ جو دل چاہتا ہے وہ کیا جائے،آزادی انفرادیت کو جنم دیتی ہے،خواہش یا چاہت ہی سب کچھ نہیں،بغیر کسی انتخاب کے شعور کا طلوع ہونا ہی حقیقی آزادی ہے۔ہر انسان آزادی کے ساتھ ہی جنم لیتا ہے،بعد میں وہ کسی کا کھلونا بنتا ہے۔کیونکہ پیدا ہونے کے بعد پابندیوں اور شرائط میں جکڑ لیا جاتا ہے ،اب اس کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہوتی ہے ،کسی شخصیت کے ہاتھ میں،کسی نظریئے کے ہاتھ میں،آزادی انسانی زندگی کا حتمی تجربہ ہے،اس سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں،جب انسان کسی کا غلام نہیں رہتا تو پھر انسان کے اندر بہت سارے پھول کھلتے ہیں،اس کے اندر آزادی کی وجہ سے محبت نمودار ہوتی ہے،آزادی کی وجہ سے ہمدردی اور احساس کا جذبہ جنم لیتا ہے،سچی اور حقیقی معصومیت کا احساس ہوتا ہے۔انسان کی فطری کیفیت کا جنم ہی آزادی کی وجہ سے ممکن ہے۔آزادی انسان کی اندر کی دنیا کا دلکش جذبہ ہے۔یہ شعور ،بصیرت اوردانائی ہے ۔اب آزاد انسان ہر جگہ آزادی کو انجوائے کرسکتا ہے،وہ آفس میں ہے کسی جیل میں ہے ،کسی کی غلامی میں ہے ،گھر میں ہے یا کسی تفریحی مقام پر ہے ،لیکن آزاد ہے ،بعض انسانوں کا دعوی ہوتا ہے کہ وہ مکمل آزاد ہیں،لیکن وہ آزاد نہیں ہوتے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا شعور،ان کی بصیرت اور دانائی آزاد نہیں ہوتی ۔کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی ایک انسان کی آزادی بہت سارے انسانوں کے لئے مسائل پیدا کردیتی ہے ۔اگر انسان آزاد ہو گیا ہے تو اب یہ اس کی زمہ داری ہے کہ وہ دوسروں کی آزادی میں مداخلت نہ کرے ۔ایسا انسان جو آزادی کی روح سے واقف ہوتا ہے ،وہ دوسروں کی آزادی کا بھی احترام کرتا ہے،اپنی آزادی کی بھی حفاظت کرتا ہے،اگر کسی آزاد انسان کی آزادی کا کوئی احترام نہیں ہورہا ،تو اس کا مطلب ہے اس آزاد انسان کی یہ آزادی جلد ہی تباہ و برباد ہو جائے گی۔آزادی باہمی احترام اور محبت سے پیدا ہوتی ہ ۔اگر میں آپ کی آزادی کا احترام کررہا ہوں تو آپ میری آزادی کا احترام کرو ۔ایسا ہوگا تو تب ہی ہم دونوں آزاد ہو سکتے ہیں۔لیکن یہ باہمی انڈراسٹینڈنگ کسی قسم کے کمپرومائز کی محتاج نہیں ہونی چاہیئے ۔ہم سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں،سب ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں،یہی کائنات کا رویہ ہے اور یہی انسانوں کا رویہ ہونا چاہیئے۔ تمام درخت کٹ جائیں ،تو پھر کیسے آکسیجن ملے گی،درختوں کو کاربن ڈائی اکسائیڈ چاہیئے اور ہم انسانوں کو آکسیجن چاہیئے ۔ہم درختوں سے آکسیجن لیتے ہیں اور کاربن ڈائی اکسائیڈ انہیں دیتے ہیں ۔باہر کی دنیا اور کائنات سے مکمل آزادی ممکن نہیں،لیکن جتنی آزادی مل رہی ہے،اسے انجوائے کرنا چاہیئے ۔ یہ سچ بات ہے کہ انسان اندر کی دنیا یا اندر کی دنیا کی سلطنت میں مکمل آزاد ہوسکتا ہے۔سب سے اہم سوال ہی اندر کی دنیا کا ہے ۔اندر کی دنیا میں انسان آزاد ہے تو پھر وہ اداس نہیں ہوسکتا،پھر وہ زندگی انجوائے کرتا ہے۔انسان کے اندر کی دنیا پر اس کی مکمل گرفت ہونی چاہیئے،وہاں خوبصورتی ،محبت،ہمدردی ،امن ،پیار اور محبت کی محفلیں ہوتی رہنی چاہیئے۔ڈاکٹر شاہ زیب کی گفتگو جاری تھی ،لیکن مجھے اپنی اداسی کی حقیقت سے آگاہی مل چکی تھی،اس لئے ڈاکٹر صاح میری کیفیت بھانپ گئے اور گفتگو کرتے کرتے اچانک خاموش ہو گئے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے