نہ لالہ نہ، ایویں نئیں کریندا
عطا اللہ عیسیٰ خیلوی سے دوستی تو نہیں، ان کے اولیں سامعین میں سے ضرور ہوں.
1975 یا 76 کا زمانہ ہوگا، اعجاز وقار ( جو بعد میں ریڈیو پاکستان کے افسر بنے ) پنجاب یونیورسٹی شعبہ صحافت میں ہمارے ساتھہ تھے. وہ بھی ہاسٹل میں رہتے تھے. ان کا ایک دوست وہاں آیا کرتا تھا. اعجاز کے ساتھہ ٹھہرتا اور رات کو ہم جب 9 نمبر ہوسٹل میں جمع ہوتے، جہاں چائے کے ساتھہ پکی پکائی روٹی کے پراٹھے ایک خاص چیز ہوتے تھے. وہ دوست ہم سب کا بل ادا کرتا، اس کے بدلے میں ہم کافی دیر اس کا گانا سنتے.
یہ عطا اللہ عیسیٰ خیلوی تھا. پھر اس نے ریڈیو پاکستان میں آڈیشن دیا اور فیل قرار دیا گیا. لیکن کچھہ ہی عرصے میں اس کے کیسٹ اتنے مقبول ہوئے کہ یوں سمجھیں جیسے ہر چلتی گاڑی کے ساتھہ ان کا چلنا لازمی ہو.
لالے کو عام لوگوں ، غریبوں اور پردیسیوں سے اتنی محبت اور عزت ملی کہ اس کی کوئی اور مثال میرے ذہن میں نہیں آتی. اس بے پناہ مقبولیت کے باعث آڈیشن میں فیل کرنے والے بھی منت کرکے بلانے پر مجبور ہوگئے. لالہ نے جن غریبوں پردیسیوں کے دکھہ درد اور اداسی کو اپنی آواز دی ، شاید انہی کی دعاؤں سے اسے ہمارے علاقے ہی کی ایسی بھاگوان شریکِ حیات ملی جس نے اس کے بچوں کی ایسی عمدہ تربیت کی کہ ان کی قابلیت پر پورا وسیب فخر کرسکتا ہے.
اب ایک اور دوست کا ذکر… افضل عاجز، شاعر، موسیقار….عاجزی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی. وہ 1990 میں عطا کا ساتھی بنا، منیجر کے طور پر اس کا دفتر سنبھال لیا. اس کیلئے گیت لکھے، موسیقی کی سمجھہ آئی تو طرزیں بھی بنائیں. یہ ساتھہ 16 سال رہا. پھر عاجز نے اپنا الگ ریکارڈنگ سٹوڈیو بنا لیا.
اب ایک دکھہ کی بات…. آج کل آپ کوک سٹوڈیو میں روزانہ لالے اور ان کے بیٹے سانول کا گیت سن رہے ہیں… اللہ کریسی چنگیاں وے، مک ویسن تنگیاں ڈھولا، دل چھوٹا نہ کر ڈھولنا ۔۔۔
یہ بہت سال پہلے افضل عاجز نے لکھا تھا. کیسٹ بھی بنی تھی. جس پر عاجز ہی کا نام ہے. لیکن حیران کن طور پر عطا اللہ نے کوک والوں کو اس کے شاعر کا نام مجبور عیسیٰ ٰخیلوی بتایا ہے. اور یہی اس کے ٹائٹل پر درج ہے. اس بات کی لالے سے توقع نہیں تھی. اگر دل میں کوئی بال آگیا تھا تو وہ عاجز کا نام نہ دیتے لیکن کسی اور کا نام دینے سے تو معاملہ انٹلیکچول پراپرٹی رائٹس سے بڑھ کر جعلسازی اور فراڈ کا بن گیا ہے.
نہ لالہ نہ ، ایویں نئیں کریندا !
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“