پینسٹھ سالہ شخص نے اپنے پوتے کو بتایا کہ جب اس کے دادا اس کی عمر کے تھے تو ان کے گھر میں ریفریجریٹر نہیں تھا۔ بچہ حیران ہوا۔ ریفریجریٹر اور گاڑی کے بغیر گھر کا تصور ہی اس کے ذہن میں نہیں تھا!
’’پھر آپ آئس کریم کہاں رکھتے تھے اور ٹھنڈے ٹھنڈے پانی کی بوتل کہاں ہوتی تھی؟‘‘
اب اُسے کیسے بتایا جاتا کہ آئس کریم اُس وقت تک پیدا ہی نہیں ہوئی تھی اور پانی گھڑے کا ہوتا تھا۔ پانی ٹھنڈا کرنا مقصود ہوتا تو اس میں برف ڈالی جاتی تھی۔ ہر محلے میں ایک برف فروش ہوتا تھا جو بڑے بڑے چٹان نما برف کے ٹکڑوں کو پٹ سن کی بوریوں سے لپیٹ کر رکھتا۔ برف خریدنے والوں کا ہجوم ہوتا۔
باقی اہل مشرق کا تو پتا نہیں‘ لیکن ہم پاکستانیوں نے ہر اُس سہولت کا خوب خوب غلط استعمال کیا جو اہل مغرب نے ایجاد کی!
ریفریجریٹر آنے سے گھروں میں تازہ خوراک کا سلسلہ کم و بیش منقطع ہی ہو گیا۔ اسی طرح گاڑیاں آنے سے لوگوں نے پیدل چلنا چھوڑ دیا۔
مغربی ملکوں میں بھی ہفتے بھر کا سودا سلف اکٹھا خریدا جاتا ہے مگر یہ جو جنون پورے پورے بکرے خرید کر فریزر بھر لینے کا ہمارے ہاں پایا جاتا ہے‘ اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ گوشت وہاں اسی مقدار میں استعمال ہوتا ہے جس مقدار میں سبزی‘ پھل اور سلاد کھائے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں گوشت دستر خوان کا بادشاہ ہے۔ سبزیاں‘ پھل‘ سلاد وغیرہ اُس کے نوکر ہیں! عام طور پر انہیں کھایا نہیں جاتا محض چکھا جاتا ہے۔
آج تک یاد ہے‘ پنڈی گھیب ہمارے محلے کے حاجی فضل مرحوم صبح صبح ہر گھر سے گوشت کے پیسے لیتے تھے۔ کسی نے پائو گوشت منگوانا ہوتا تھا تو کسی نے ڈیڑھ پائو‘ حاجی صاحب کو حیرت انگیز طریقے سے ہر گھر کا حساب زبانی یاد ہوتا تھا۔ آج کے بچے کو یہ جان کر بھی تعجب ہو گا کہ حاجی صاحب اس روزانہ خدمت کے لیے کوئی اجرت ،کوئی معاوضہ نہیں لیتے تھے، یہ اُس عہد کا حُسن تھا! خودساختہ
مصروفیات اس وقت نہیں تھیں۔ سکون تھا، فراغت تھی اور وقت کی پیمائش روپے پیسے سے نہیں ہوتی تھی۔ حاجی صاحب قصاب سے جب پورے محلے کا گوشت الگ الگ لیتے تو وہ سماں قابل دید ہوتا۔ ’’اچھا اب ڈیڑھ پائو رشید صاحب کے گھر کا تولو‘‘۔ حاجی صاحب ایک ایک بوٹی کے لیے قصاب سے جھگڑتے تھے۔ قصاب ہنستا رہتا تھا اور برابر اس کوشش میں ہوتا کہ اپنی مرضی کے ٹکڑے ڈالے۔ مگر حاجی صاحب اڑ جاتے تھے کہ یہ چھیچھڑا نکالو۔ نکلوا کر ہی دم لیتے تھے۔ پھر ایک ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے۔ گوشت پکڑاتے اور ساتھ ہی ایک ایک پیسے کا حساب سمجھاتے! یہ ایک پائو یا ڈیڑھ پائو گوشت مٹی کی ہانڈی میں پکتا۔ ایک تو تازہ گوشت اُسی دن کا کٹا ہوا‘ دوسرے مٹی کی ہانڈی‘ تیسرے گھی خالص (اُن دنوں گھی صرف ایک ہی قسم کا ہوتا تھا اس لیے اسے خالص گھی نہیں صرف گھی کہتے تھے!) چوتھے مصالحے بازار سے ریڈی میڈ نہیں خریدے جاتے تھے۔ ہر روز شام کو ہانڈی کے لیے مصالحہ گھر میں تیار ہوتا تھا۔ مرچیں‘ دھنیا‘ پودینہ‘ ہر چیز لنگری میں کُوٹی جاتی تھی۔ نمک کی چٹانیں خریدی جاتی تھیں پھر گھر میں توڑ کر باریک کر کے سفوف کی شکل دی جاتی‘ اُس ہانڈی کا ذائقہ خواب و خیال ہوا۔
مدتوں بعد ہائی بلڈ پریشر کے عارضہ میں مبتلا ہو کر ’’اے ایف آئی سی‘‘ داخل ہونا پڑا۔ وہاں ہسپتال کے عملہ میں ایک ماہر خوراک
(Dietician)
بھی تھا جو مریضوں کو کھانے پینے کے ضمن میں ہدایات دیتا تھا۔ ایک سیشن اس نے میرے ساتھ بھی مختص کیا۔ مثال اس نے عجیب دی۔ پوچھا‘ کبھی کسی گائوں گئے ہیں؟ جواب دیا‘ گائوں ہی میں تو پیدا ہوا اور پلا بڑھا! کہنے لگا‘ گائوں سے باہر کوڑے کے ڈھیر ہوتے ہیں۔ وہاں لوگ مٹی کی ٹوٹی ہوئی‘ بیکار ہانڈیاں پھینک دیتے ہیں۔ غور کیا ہوگا کہ دھوپ میں مٹی کی ان ٹوٹی ہوئی ہانڈیوں کے جسم سے روغن نما شے رستی رہتی ہے! ذرا ذرا سی جھاگ بھی بن جاتی ہے۔ یہ وہ چکنائی ہے جو سالن پکنے کے دوران مٹی کی ہانڈی میں جذب ہو جاتی ہے اور انسان اسے کھانے سے بچ جاتا ہے۔ پھر اس نے تلقین کی کہ اگر پورے گھر کا نہیں تو کم از کم اُن افراد کا سالن مٹی کی ہانڈی میں بننا چاہیے جو ہائی بلڈ پریشر میں یا دل کے امراض میں مبتلا ہیں! گھروں کی حالت عجیب ہے۔ کئی بار مٹی کی ہانڈی خریدی گئی‘ مٹی کے پیالے اور پلیٹیں بھی اکٹھی کی گئیں مگر اہتمام کا دوام اور التزام مشکل ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ وقت کا رُخ پیچھے کی طرف کرنا اور پھر اسے سرپٹ بھگانا ناممکنات میں سے ہے۔
مٹی کے برتنوں سے یاد آیا کہ رات کی پکی ہوئی مسور کی دال‘ صبح پراٹھے کے ساتھ کھانے کی اپنی ہی لذت تھی۔ مٹی کی پلیٹ میں پڑی مسور کی دال اور کھیر میں ٹھنڈک کے ساتھ ساتھ ایک خوشبو بھی ہوتی تھی!
کبھی کبھی یہ بھی ہوتا تھا کہ مرغی کا ایک حصہ یا کچھ گوشت بچ جاتا۔ گائوں میں دادی جان اُسے رات کو سوتے وقت صحن میں لگی تار کے ساتھ باندھ دیتیں اور پھر عین اُس کے نیچے چارپائی بچھا کر سوتیں۔ مگر اُس زمانے کی بلیاں بھی خالص غذا کھا کر جوان ہوتی تھیں۔ ایک بار آدھی رات کو بلی نے جست لگا کر تار سے لٹکے گوشت پر حملہ کیا، دادی جاگ اٹھیں لیکن اتنی دیر میں بلی گوشت نوچ کر لے جا چکی تھی! دادی جان نے آدھی رات کو بلی کی شان میں جو نامناسب کلمات کہے وہ آج بھی یاد آتے ہیں تو نوسٹیلجیا کی ہوک میں مسکراہٹ کی کسک شامل ہو جاتی ہے۔
رہی بات سواری کی سہولت کی! تو اہل مغرب نے اس کا خوب حل نکالا ہے۔ گاڑی پارک کرنے کی جگہیں مخصوص ہیں، قانون اس ضمن میں سخت ہے۔ اکثر مقامات پر پارکنگ کا معاوضہ لیا جاتا ہے۔ جہاں گاڑی پارک کرنے کا نشان نہیں بنا ہوا‘ وہاں پارک کرنے سے جرمانہ ہوتا ہے اور بھاری جرمانہ ہوتا ہے۔ ان پابندیوں اور سخت قوانین کا نتیجہ یہ ہے کہ پارک کرنے کے بعد دفتر بازار یا ہسپتال پہنچنے کے لیے اور پھر واپس آتے ہوئے اچھا خاصا پیدل چلنا پڑتا ہے۔ بہت سے لوگ کار پارک کر کے مقامی ریلوے اسٹیشن پہنچتے ہیں۔ پھر ٹرین میں بیٹھ کر جائے ملازمت کو جاتے ہیں۔ ٹرین سے اتر کر بعض دفعہ ایک ایک دو دو کلومیٹر پیدل چلتے ہیں۔ یوں گاڑی کی ایجاد نے پیدل چلنے کے رواج کو ختم نہیں کیا۔ ہمارے ہاں پارکنگ کے چار اصول عنقا ہیں۔ قانون اس بارے میں گائودی ہے۔ گاڑی عین اُس دکان کے سامنے پارک کرنا لازم ہے جہاں جانا ہے۔ اس دُھن میں گاڑی فٹ پاتھ پر بھی پارک ہو سکتی ہے‘ راستہ بھی بند کیا جا سکتا ہے اور دوسری گاڑی کے عین پیچھے کھڑی کر کے اگلی گاڑی کی نقل و حرکت مسدود بھی کی جا سکتی ہے! پھر موٹر سائیکل والوں کا تو کیا ہی کہنا! اس کی اولین کوشش یہ ہے کہ وہ موٹر سائیکل کو دکان کے اندر ہی لے آئے یا دفتر میں اپنی کرسی کے ساتھ ہی باندھے!
صحت کے نکتہ نظر سے مغرب میں پیدل چلنا‘ کھیلنا اور سائیکل چلانا روزمرہ زندگی کا ضروری جزو ہے۔ ہم نے یہ کام چند افراد کے سپرد کر رکھے ہیں۔ وہی پورے معاشرے کی طرف سے فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں۔ جِم کا رواج بڑھ رہا ہے مگر رینگ رینگ کر‘ نئی رہائشی آبادیوں میں پیدل چلنے اور سیر کرنے کے لیے گرائونڈ اور ٹریک بنانے کا التزام کوئی نہیں کرتا۔ زمین کی بھوک (جوع الارض) دن بدن زیادہ ہو رہی ہے۔ قوم کی صحت کی نسبت پلاٹ سازی اور پلاٹ فروشی زیادہ پسندیدہ عمل ہے! یوں لگتا ہے ایک وقت آئے گا اور جلد آئے گا کہ مکانوں‘ دکانوں اور پلازوں کے وحشت ناک جنگل سے نکلنے کے لیے لمبے سفر طے کرنے ہوں گے!
پروفیسر لِز
(Liz)
یاد آ رہا ہے۔ نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والا لز میلبورن کی ایک یونیورسٹی میں چالیس سال پڑھاتا رہا۔ کتنوں ہی کو پی ایچ ڈی کرائی۔ پچھتر سالہ لِز اپنی بیگم کے ساتھ چالیس برس سے ایک ہی گھر میں قیام پذیر ہے۔ اُس کے دوستوں کا ایک گروپ ہے جو اُس کے ہم عمر ہیں۔ ستر پچھتر سالہ بوڑھوں کا یہ گروپ ہفتہ میں دو بار سائیکلوں پر سوار شہر سے نکلتا ہے۔ واپس آنے تک انہوں نے ساٹھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا ہوتا ہے۔ جہاں موڈ آ جائے راستے میں کافی پینے یا سینڈوچ کھانے رک جاتے ہیں۔ سنیچر اور اتوار اس ورزش کے لیے مخصوص ہیں۔ برسوں سے ناغہ نہیں ہوا۔ لِز اپنی کار خود دھوتا ہے۔ چھوٹے سے باغ کی دیکھ بھال خود کرتا ہے۔ کوڑے کرکٹ کے بِِن ہر منگل کو خود باہر رکھتا ہے۔ پھر خالی بِن خود اٹھا کر گھر لے جاتا ہے۔ باورچی کا محتاج نہ ملازم کا‘ نہ کسی مائی کا جو آ کر جھاڑو پونچھا کرے۔ ساتھ ساتھ رضاکارانہ طور پر یونیورسٹی جا کر پی ایچ ڈی کرنے والے طلبہ کی رہنمائی بھی کرتا ہے۔ چہرہ جھریوں سے اٹ چکا ہے مگر جوانوں کی طرح چلتا ہے ؎
تری بندہ پروری سے مرے دن گزر رہے ہیں
نہ گلہ ہے دوستوں کا نہ شکایتِ زمانہ
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“