::: "مینمار[برما] کی منفرد حساس اور اذّیت ناک شعری جمالیات کی شاعرہ : انڈریا [Eaindra ]" :::
ان کا اصل نام اھوا مار تونگ تن ہے . ۳۰ نومبر ۱۹۷۳ میں " اروردی ڈیلتٹا " میں پیدا ہوئی۔ ۱۹۹۶ میں ان کی پہلی نظم " چیری" ، 'سوب'' نامی انتھالوجی میں چھپی۔ مارچ ۲۰۱۲ ان کا پہلا مجموعہ کلام "As It Were For a Poem", نام سے چھپا ۔ انڈریا کی کہانیوں کی پہل کتا ب " چاقو کی مصّوری" کے نام سے ۲۰۱۵ میں شائع ہوئی۔ ان کی ایک طویل نظم 'عورت ' کو انگریزی میں مونگ ڈے نے انگریزی میں ترجمہ کیا۔ ان کی نظمین اور کیانیاں ادبی جرائد میں شائع شائع ہوتی رھتی ہیں۔ انھوں نے ساٹھ [۶۰] نظمین اور سترہ [۱۷] کہانیاں لکھی ہیں۔ ان کی نظموں کے انگریزی ترجمے ' ماڈرن پوئیٹری ٹرانسلیشن ' میں بھی شامل ہیں۔ وہ برمی اور انگریزی زبانوں میں لکھتی ہیں۔ وہ مستحق برمی ادبّا اور شعرا کی مالی امداد کے لیے ایک ٹرسٹ بھی چلاتی ہیں۔ پیشے کے اعتبار کے انجینر ہیں اور سنگا پور کی ایک تعمیراتی کمبنی میں کام کرتی ہیں۔ ان کی ایک نظم سنگا پور کے سنٹرل پلازا میں آویزان ہے۔
۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔
*" کالے جادو کا انتقام "*
انڈریا [ مینمار/ برما]
ترجمہ: احمد سہیل
خوفناک منظر
رسومات کا زہر کا پیالہ
عقائد مومنوں کو مارتے ہیں
تویمات کی سبزر رنگ کی قوس
خون کو تعفّن ، دسم ڈھول، اور بدبو دار دھوین کے باعث
ہمیں سادہ لوحی سے راکھ میں تبدیل کردیا گیا ہے
*۔*۔*۔*۔*۔*۔
**" بند دروازوں کے پیچھے **"
انڈریا [ مینمار/ برما]
ترجمہ : احمد سہیل
میں ابھی تک زندہ ہوں مگر میں مرچکی ہوں
میرے جسم اورروح میری سنگدل ہتھیلوں کی طرح ہیں
میرا اب کوئی وجود نہیں ہے ، میری زندگی اتنی سکڑ گئی ہے
ہر صبح میری امید دم توڈ دیتی ہے
میرا گھر کہاں ہے؟ ۔۔۔ مجھے کوئی نہیں بتا سکا
زندگی اور درد دل بند دروازوں کے پیچھے جل کر راکھ ھوگئے ہیں
میں چوبیس گھنٹوں کی نوکرانی ہوں
میرا میزبان مجھے بد اعتمادی سے ہر وقت دیکھتا ہے
وہ مجھے ایک چور سمجھتا ہے، اور مجھے اکثر زدوکوب کرتا ہے۔
میں اکثربہت سی راتیں بہت کم یا نہ کھانا کھائے بغیر گذار دیتی ہوں
مجھے گھر فون کرنے اور گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں
مجھے کیا کرنا ہے۔۔۔۔ مجھے بہت سے کام کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ۔۔۔ اس کی طویل فہرست ہے
اس کے عوض میں یومیہ صرف پچاس سینٹ پاتی ہوں
اور میزبان کہتا ہے کہ تمہاری بقیہ تنخواہ میں تمارے گھرتمہارے خانداں کو پہنچا دوں گا
مجھے پتہ ہے وہ جھوٹ بول رہاہے
میں اس کے لیے صرف ایک " غلام" ہوں
ایک ہندوستانی عورت ۔۔۔ دوبئی میں
****
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔