سیاست دان ایک دوسرے کو بچانے کے لیے آخری حد تک جا سکتے ہیں!
وہ الزام جو ہزاروں اور کچھ لوگوں کے بقول لاکھوں کے مجمع میں لگائے گئے، درست تھے یا جھُوٹے‘ دونوں صورتوں میں اُنہیں اہمیت دینا چاہیے تھی لیکن افسوس! کسی کے کان پر جُوں تک نہ رینگی، انہیں پرِکاہ جتنی اہمیت نہ دی گئی۔ حکومت کے بارے میں تو چلیے اجماع ہے کہ اُسے اِن معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں۔ سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ‘ ملک کے صدر کو زر بابا کہتا ہے‘ لیکن اپوزیشن نے اس معاملے سے کیوں آنکھیں چرائیں؟ وہ سیاسی لیڈر جو سولہ جنوری کو لاہور میں جمع ہوئے اور جمہوریت بچانے کے لیے یک زبان ہو گئے، انہیں اُن مطالبات سے تو کوئی غرض نہ تھی جو ٹھٹھرتے دارالحکومت کے کھلے میدان میں پڑے ہوئے ہزاروں پاکستانی کر رہے تھے لیکن پہیلی یہ ہے کہ اُنہیں اُن الزامات کی بھی ذرہ بھر پرواہ نہیں تھی جو طاہر القادری نے سیاست دانوں پر لگائے اور جو عام الزامات نہیں تھے۔ اس ’’چشم پوشی‘‘ اور ’’بے نیازی‘‘ سے صرف ایک ہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ مفادات کے تحفظ کے لیے جمع ہونے والے یہ سیاست دان سٹیٹس کو کے علم بردار تھے۔
باب ہاک کوئی ایرا غیرا نہیں جس کا الزام رد کر دیا جائے۔ تین بار آسٹریلیا کا وزیراعظم رہنے والے باب ہاک نے چار مرتبہ لیبر پارٹی کو فتح سے ہمکنار کیا۔ 1983ء، 1984ء، 1987ء اور 1990ء کے انتخابات اس نے بھاری اکثریت سے جیتے۔ طویل ترین عرصہ کے لیے وزیراعظم رہنے والوں میں اس کا تیسرا نمبر ہے۔ اس کے عہدِ اقتدار میں ملک اقتصادی لحاظ سے بڑی طاقت بن گیا۔ اس نے نہ صرف سرکاری صنعتیں نجی شعبے کے حوالے کیں بلکہ سرکاری بینک بھی نجی شعبے کو فروخت کر دیا۔ اس نے ٹیکس کے نظام میں اصلاحات نافذ کیں۔ تعلیمی اداروں کے بجٹ میں اضافہ کیا۔ طلبہ کے سرکاری وظائف کو بڑھایا اور مستحق شہریوں کو زیادہ سے زیادہ ریاستی سرپرستی بہم پہنچائی۔
پروفیسر طاہر القادری نے سولہ جنوری کو جب دھرنے سے چار گھنٹے کا طویل خطاب کیا تو اسی باب ہاک کے حوالے سے بتایا کہ جب وہ میلبورن میں تھے تو باب ہاک نے یہ افسوس ناک واقعہ خود ان سے بیان کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ جب وہ سرکاری دورے پر پاکستان گیا تو پاکستان کے لیے سرمایہ کاری کی تجاویز بھی پیش کیں۔ یہ سرمایہ کاری پاکستان میں ہونا تھی۔ لیکن ایک مقتدر شخصیت نے تیس فیصد کمیشن کا مطالبہ کیا۔ طاہر القادری نے یہ بھی بتایا کہ یہ تیس فی صد کمیشن پاکستان سے باہر کے بنکوں میں جمع کرانے کے لیے کہا گیا۔ ظاہر ہے باب ہاک اور اس کے وفد نے انکار کر دیا اور یوں ملک سرمایہ کاری سے محروم رہ گیا۔
دوسرا الزام بھرے مجمع میں پروفیسر طاہر القادری نے یہ لگایا کہ نیوزی لینڈ کے ایک بہت بڑے ریاستی منصوبے میں پچاس فی صد حصّہ ایک ایسے شخص کا ہے جو پاکستان میں وزیراعظم رہا۔
آخر طاہر القادری کے مخالفین اُس سے ان الزامات کا ثبوت کیوں نہیں مانگتے؟ کیا یہ سنہری موقع نہیں کہ طاہر القادری سے اِن ’’بے سروپا‘‘ الزامات کا ثبوت مانگا جائے؟
لیکن یہ معاملہ اس قدر سنجیدہ ہے کہ اسے سیاست دانوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ پہلی جنگِ عظیم کے دوران فرانس کی قیادت کرنے والے وزیراعظم جارج کلیمنسو (George Clemenceau) نے کہا تھا کہ:
War is too serious a matter to entrust to military men .
’’ جنگ ایسا سنجیدہ معاملہ ہے جسے فوجیوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا‘‘۔ (یہ بات عام طور پر چرچل سے منسوب کی جاتی ہے جو غلط ہے)۔ بالکل اسی طرح طاہر القادری کے لگائے گئے الزامات اس قدر سنگین ہیں کہ معاملہ سیاست دانوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ کیا اس ملک کے عوام نے بارہا نہیں دیکھا کہ ایک دوسرے کا سر پھاڑنے والے اور بات بات پر گریبان پکڑ لینے والے سیاست دان صرف اُس وقت متحد ہوتے ہیں جب پارلیمنٹ میں اُن کی مراعات بڑھانے والا بِل پیش ہو یا اس وقت اکٹھے ہوتے ہیں جب اُن کے مفادات پر زد پڑنے والی ہو۔ سولہ جنوری کو لاہور میں جمع ہو کر ’’خطرے‘‘ کی نشان دہی کرنے والے اِن سیاسی لیڈروں نے کرپشن کو ختم کرنے کے لیے کبھی ایسے ’’مثالی‘‘ اتحاد کا مظاہرہ نہیں کیا۔ خلقِ خدا بجلی اور پانی کو ترس گئی ہے اور پٹرول اور سی این جی سٹیشنوں کے سامنے میلوں لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں لیکن یہ سیاست دان اس صورت حال کا ذکر تک نہیں کرتے۔ جب نیب کے چیئرمین نے رُونگٹے کھڑے کر دینے والا یہ بیان دیا کہ ملک میں بارہ ارب روپے کی کرپشن روزانہ ہو رہی ہے تو کسی سیاست دان نے دُہائی نہیں دی۔ ان سے آخر یہ توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے کہ وہ طاہر القادری کے لگائے گئے انتہائی سنگین الزامات کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔
ہم اس تحریر کے ذریعے چیف جسٹس پاکستان جناب افتخار محمد چودھری کی خدمت میں درخواست کرتے ہیں کہ وہ اِن الزامات کا از خود نوٹس لیں۔ پروفیسر طاہر القادری کو عدالتِ عظمیٰ میں طلب کیا جائے اور ان سے ان دونوں سیاسی لیڈروں کے نام پوچھ کر قوم کو بتائے جائیں۔ اگر یہ الزامات درست ہوں تو اس شخص پر‘ جس نے آسٹریلوی وزیراعظم سے تیس فی صد رشوت کا مطالبہ کیا تھا، غدّاری کا مقدمہ چلایا جائے اور اُسے سزا دی جائے۔ یہ ملک کی اقتصادی ترقی ہی کا نہیں، عزت اور ناموس کا بھی مسئلہ ہے۔ اگر طاہر القادری کا یہ الزام صداقت پر مبنی ہے تو باب ہاک نے یہ شرمناک بات جانے کہاں کہاں بیان کی ہوگی اور جانے کس کس کو بتائی ہوگی۔ اس رُسوائی کے ذمہ دار شخص کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
دوسرا الزام بھی معمولی الزام نہیں! جس پاکستانی وزیراعظم کا نیوزی لینڈ کے بڑے ریاستی پراجیکٹ میں پچاس فی صد حصّہ ہے اُس سے حساب لیا جائے کہ اس عظیم الشان سرمایہ کاری کا ذریعہ کیا تھا؟ یہ دولت کہاں سے آئی؟ اگر جائز تھی تو یہ سرمایہ کاری اپنے ملک میں کیوں نہ کی گئی؟ ایک عام شہری نہیں، ملک کا وزیراعظم دوسرے ملک میں سرمایہ کاری کرے تو اُس کے اپنے ملک میں کون احمق سرمایہ لگائے گا؟ اور اگر یہ دولت ناجائز تھی تو اس کا حساب لیا جائے اور معاملات کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔
مائی لارڈ چیف جسٹس! قوم آپ سے اس معاملے میں دادرسی کی طالب ہے!
http://columns.izharulhaq.net/2013_01_01_archive.html
“