مائی لارڈ! عالی مرتبت چیف جسٹس جناب افتخار چودھری! میں نہایت احترام کے ساتھ' سینے پر ہاتھ باندھ کر… ادب سے گردن خم کر کے عرض گزار ہوں اور پوچھنے کی جسارت کرتا ہوں کہ کیا ڈیڑھ سالہ ہاشم کا مستقبل اب اِس ملک میں محفوظ ہے؟
مائی لارڈ…! ڈیڑھ سالہ ہاشم جس کا ماموں وطن چھوڑ کر دُور کے ایک ایسے دیس میں جا بسا ہے جہاں انصاف کا دور دورہ ہے۔ وہ ماحول کے ایک شعبے میں طِب کا ماہر ہے یعنی SPECIALIST فزیشن ہے جس کا پاکستان میں وجود تو کیا ہو گا' تصور ہی نہیں ہے۔ ELDERLY MEDICINE یعنی بوڑھوں کا ڈاکٹر۔ اس بہت بڑے نوجوان ڈاکٹر نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ بے بس ہو کر کیا تھا جب اُس نے دیکھا کہ اُس کے بوڑھے باپ کے ساتھ جس نے دیانتداری کے ساتھ حکومتِ پاکستان کی ملازمت کی تھی' ریٹائرمنٹ پر کیا سلوک ہوا تھا۔ جب اُس نے دیکھا کہ ریٹائر ہونے والے کروڑ پتی اور شراب میں نہانے والے فرعون صفت افسروں کو دو دو لاکھ مہینے کی ملازمتیں دی گئیں اور اس کے باپ کو۔ جس کی شہرت ان سب سے بہتر تھی' اور جس نے ریاست کے لئے اربوں کھربوں روپے بچائے تھے' ٹھوکروں پر رکھا گیا۔ اُس نوجوان ڈاکٹر نے فیصلہ کیا کہ آج اُس کا باپ کسی عدالت میں نہیں جا سکتا۔ تو میں کل کیا کر سکوں گا؟ اُس نے ملک چھوڑ دیا اور پاکستان ایک ایسے ماہر ڈاکٹر سے محروم ہو گیا جو سسکتے بلکتے مریضوں کے لئے معجزے برپا کر سکتا تھا!
مائی لارڈ! جناب چیف جسٹس افتخار چودھری! کیا ڈیڑھ سالہ ہاشم کے بڑے ہونے تک اس ملک کے نوجوان… اس ملک میں رہنے کا فیصلہ کر سکیں گے؟
عالی مرتبت! اس قوم کے ساتھ پہلا ظالمانہ مذاق اُس وقت کیا گیا تھا جب یونینسٹ پارٹی کو اٹھا کر پورے کا پورا مسلم لیگ میں ڈال دیا گیا تھا۔ اس ملک کے ساتھ دوسرا ظالمانہ مذاق اُس وقت کیا گیا تھا جب وزیراعظم جناب لیاقت علی خان کو لاہور میں دو فہرستیں پیش کی گئی تھیں۔
حکومت نواب ممدوٹ کی تھی۔ ایک فہرست میاں ممتاز دولتانہ نے پیش کی تھی کہ پنجاب اسمبلی میں یہ میرے حامی ہیں۔ دوسری فہرست وزیراعلیٰ نواب ممدوٹ نے پیش کی تھی کہ یہ میرے حامی ہیں۔ دونوں فہرستوں میں سات نام مشترک تھے۔ کاش اُس وقت اُن سات منافقوں کو برہنہ کر کے عوام کے سامنے لایا جاتا اُنہیں عبرتناک سزا دی جاتی اور یہ قوم وفاداریاں بدلنے والے سانپوں بھیڑیوں اور بچھوئوں سے محفوظ رہتی لیکن افسوس! ایسا نہ ہوا۔ اس ملک کے ساتھ تیسرا ظالمانہ مذاق اُس وقت کیا گیا جب بھارت میں زرعی اصلاحات نافذ کی گئیں' ریاستوں' جاگیروں اور زمینداریوں کی ارتھی جلائی گئی لیکن پاکستان میں جاگیردار اور سردار دن دوگنی رات چگنی ترقی کرتے گئے' یہاں تک کہ کہنے والوں نے یہ تک کہنا شروع کر دیا کہ جاگیردار کانگریس کے پاس گئے تھے کہ انگریزوں کے جانے کے بعد زرعی اصلاحات نہ کرو۔ کانگریس نے انکار کر دیا' مسلم لیگ نے زرعی اصلاحات نہ کرنے کا یقین دلایا اور وہ مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ آج فوجی افسر بھی زمیندار ہو گئے ہیں اور شہری سیاستدان بھی فیوڈل بن رہے ہیں!
مائی لارڈ! یہ قوم باسٹھ سال سے انتظار کر رہی ہے کہ کوئی آئے اور انہیں چوہدریوں' خانوں' میروں' پیروں' لغاریوں' مزاریوں' جتوئیوں' سرداروں اور اربابوں سے نجات دلائے۔ کوئی آئے اور وہ کرسیاں جن پر دادا کے بعد بیٹا اور بیٹے کے بعد پوتا بیٹھتا ہے' وہ کرسیاں توڑ ڈالے۔ مائی لارڈ! اس قوم کے بیٹوں نے آپ کی بحالی کیلئے اپنے سروں پر پتھر اور لاٹھیاں کھائی ہیں اور بندوقوں کے بٹ اور سنگینوں کی نوکیں برداشت کی ہیں' اس لئے نہیں کہ آپ انکے رشتہ دار ہیں اس لئے کہ آپ اندھیرے میں امید کا چراغ ہیں۔ مائی لارڈ! عوام چاہتے ہیں کہ مجرم کٹہرے میں کھڑے ہوں اور اُن سے وصولیاں کی جائیں۔ وصولیاں مائی لارڈ! وصولیاں۔ مائی لارڈ RECOVERIES۔ جرنیلوں کی اولاد جو کھربوں کی مالک ہے اور سیاست کے افق پر اندھیرے بادل کی طرح چھائی ہوئی ہے۔ ریٹائرڈ جرنیل جو لاطینی امریکہ کے ڈکٹیٹروں کے معیارِ زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ خالی خزانہ اُن سے وصولیاں مانگتا ہے۔ مائی لارڈ! جو فوجی ڈکٹیٹروں کو دس بار ''منتخب'' کروانا چاہتے تھے انہیں کٹہرے میں لایا جائے۔ جنہوں نے وزیراعظم بن کر فیڈرل پبلک سروس کمیشن سے بھرتی کے اختیار واپس لئے اور اب بھرتی کی فہرستیں محکموں کے ''اوپر'' سے دی جاتی ہیں' انہیں کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ جنہوں نے پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز کو جعلی حلقۂ انتخاب دیکر اس بدبخت قوم کے اُوپر نشانِ ذلت بنا کر مسلط کیا تھا' اُن سے حساب لیا جائے۔
مائی لارڈ! کیا غریب ترین صوبے بلوچستان کے مسائل کا حل یہ ہے کہ تحصیلداروں' حساس اداروں کے جونیئر ریٹائرڈ افسروں اور وزیراعلیٰ اور گورنر کے رشتہ داروں کو بلوچستان پبلک سروس کمیشن کا ممبر بنا کر پورے صوبے کی ملازمتیں نااہلوں کے قدموں میں ڈال دی جائیں؟ انصاف! مائی لارڈ! انصاف' وصولیاں! مائی لارڈ! وصولیاں! مہران بنک سے لے کر بنک آف پنجاب تک… اوجڑی کیمپ سے لے کر عمرے کے بھرے ہوئے جہازوں تک… کولڈ ڈرنک کی فیکٹریوں سے لے کر محلات کی قطاروں تک… وصولیاں مائی لارڈ… وصولیاں!
مائی لارڈ! ہمارے ڈاکٹر' ہمارے انجینئر' ہمارے پی ایچ ڈی' ہمارے سائنس دان' ہمارے پروفیسر' ہمارے نوجوان' ہمارے ہیرے' ہمارے جواہرات' مایوس ہو کر ملک چھوڑ گئے ہیں اور جا رہے ہیں۔ مائی لارڈ! ہجرت واجب ہو چکی ہے اس لئے کہ منتخب اداروں میں بیٹھے ہوئے امرا اور وزراء اور عمائدین… میرٹ کو قتل کر رہے ہیں۔ تعلیم اور اہلیت کو پائوں تلے کُچلا جا رہا ہے' رشتہ داروں کو اور پارٹیوں کے وفاداروں کو اہل لوگوں پر ترجیح دی جاتی ہے۔ بغیر کسی جھجک کے وزیر اپنے بیٹے کی بیرون ملک تعیناتی کی توسیع چاہتا ہے اور جو اس کی جگہ پر جانا چاہتا ہے اُس کے ساتھ بھی ایک وزیر کا نام آتا ہے۔
مائی لارڈ! اس ملک میں اگر بیرونِ ملک تعیناتیوں کا پچھلے پچاس سالوں کا حساب لیا جائے اور مرکزی اور صوبائی پبلک سروس کمیشنوں میں ممبروں کی تعیناتیوں کے پسِ پردہ نام ننگے کئے جائیں تو جو کچھ سامنے آئے گا' مائی لارڈ! اقربا پروری سے اس ملک کے دریا اٹ جائیں گے۔ قومی ائر لائن… او جی ڈی سی۔ سٹیل مل' پیمرا' نیپرا' شہروں کے ترقیاتی ادارے' سکول' کالج' ہسپتال' حکومتیں اور کارپوریشنیں۔ ہر جگہ اقربا پروری ہے یا سفارش یا رشوت۔ جو بھی وزیراعظم کا پرنسپل سیکرٹری لگتا ہے' اس کی لاٹری نکل آتی ہے۔ وہ بیرونِ ملک تعینات ہوتا ہے یا پانچ سال کے لئے کہیں اور مسلط کیا جاتا ہے۔ کیوں؟ کیا کوئی قانون اس ملک میں کبھی نہیں پنپ سکتا؟ کیا وزیراعظم کے صوابدیدی اختیارات کو کوئی شے ضابطۂ ترتیب میں نہیں لا سکتی؟ خدا کا خوف نہ عدالتیں؟ کیا یہ ملک ہر حاکمِ وقت کی زرخرید لونڈی ہوتا ہے؟
اگر فوج اپنے ہی ریٹائرڈ جرنیل کو… ترتیب کے ساتھ… سینیارٹی کے ساتھ… دو دو سال کی مصروفیت پیش کر سکتی ہے اور انصاف کرتی ہے اور کر سکتی ہے تو سول ملازمین کو اپنی پسند اور تعلقات کا شکار کیوں بنایا جاتا ہے؟ مائی لارڈ…! یہ سرزمین کسی جیالے کی ہے نہ متوالے کی… نہ کسی کے نورِ نظر کی نہ کسی کے لختِ جگر کی… مائی لارڈ! یہ سرزمین جن کی ہے وہ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ مائی لارڈ!